امریکا مذاکرات کرے گا
مذاکرات میں محض سیاست کاروں کو بھیجا گیا تو ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
بلوچستان میں دہشت گردوں نے ایک بڑا خودکش حملہ کیا جس میں ڈیڑھ سو بے گناہ افراد شہید ہوگئے اور اور لگ بھگت اتنے ہی زخمی ہوگئے، شدید زخمیوںمیں سے اب بھی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈیڑھ سو انسانشہید نہیں ہوئے بلکہ ڈیڑھ سو گھر اجڑگئے ۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ ابھی پچھلے دنوں پاکستانی طالبان کا سربراہ ایک ڈرون حملے میں مارا گیا، فضل اللہ کے مارے جانے سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں کوئی فرق آئے گا نہ وہ کمزور ہوتے نظر نہیں آتے۔
مستونگ میں کیے جانے والے خودکش حملے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ ایک فرد کے چلے جانے سے تحریکیں کمزور نہیں ہوتیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی ایک منظم اور طاقتور تحریک ہے اور ان کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط اور وسیع ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں حملہ کرسکتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں، اس حقیقت کی طرف آتے ہیں کہ طالبان کیسے وجود میں آئے اور انھیں وجود میں لانے کا مقصد کیا تھا۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا تو دنیا کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکا کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ گرم پانیوں تک روس کی آمد امریکا کے لیے زبردست خطرہ ہے، امریکا کو یہ پریشانی تھی کہ افغانستان امریکا سے بہت دور ہے، اتنے لمبے فاصلے تک امریکی فوجوں کو بھیجنا، ایک مسئلہ ہے اور پھر امریکا براہ راست روس کے ساتھ جنگ میں ملوث ہوتا تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔
امریکا سے ہزاروں میل دور روس سے جنگ امریکا کو بہت مہنگی پڑے گی۔ اس مشکل بلکہ خطرناک صورتحال کا امریکا کے ماہرین جنگ نے یہ راستہ نکالا کہ افغانستان سے ملحقہ علاقوں ہی میں کوئی ایسا حکمران تلاش کیا جائے جو امریکا کی لڑائی خود لڑے۔ یہ امریکا کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت افغانستان کے پڑوس میں یعنی پاکستان میں ایک ایسا حکمران بلکہ ان کی ضرورت سے بڑا ضیا الحق کی شکل میں موجود تھا اور آسانی یہ تھی کہ وہ ایک ڈکٹیٹر تھا ۔
جس کے سامنے کوئی جمہوری دیوار بھی نہیں تھی کہ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرے اور یہ فیصلہ دے کہ افغان جنگ میں اپنی ٹانگ پھنسانا پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔چنانچہ ضیا الحق نے امریکا کی جنگ لڑنے کا وہ بد ترین فیصلہ کیا جس کا نقصان پاکستان اور افغانستان ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو ہوا اور آج تک ہو رہا ہے ۔ ضیا الحق سے کام لینے والوں کو جب وہ مہنگا پڑنے لگا تو انھوں نے اسے فضاؤں ہی میں جلا ڈالا لیکن ضیا الحق بہر حال وہ غلطی کرچکا تھا جس کی سزا پاکستان آج تک بھگت رہا ہے اور جس کی سزا میں 70 ہزار بے گناہ پاکستانی جان سے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا۔
اس حوالے سے غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان کے فطری اور اصلی دشمن امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔ انلوگوں نے جن کی سربراہی بش جونیئر کررہاتھا۔ طالبان یا دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی مہم شروع کی اور پاکستان کو اس مہم میں بندوق کی نوک پر شامل کیا اس مہم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ تو کچھ نہ ہوا، اس کے بر خلاف دہشت گردوں کو وسعت ملی اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک اور مضبوط ہوگیا۔
اس سارے ظالمانہ کھیل کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوا اور ہو رہا ہے کہ 70 ہزار پاکستانی اس ظالمانہ کھیل کی نذر ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری ہے، ابھی ابھی میں ڈیڑھ سو بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی افواج نے بڑی قربانیاں دے کر شمالی وزیرستان کو اس بلائے بے درماں سے آزاد کرالیا جو ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن خون خرابے کا سلسلہ بدستور جاری ہے خاص طور پر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ خوفناک کھیل وقفے وقفے سے کھیلا جارہاہے۔ دور دراز علاقوں میں اپنی چوکیوں پر تعینات سپاہی دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن آفرین ہے ان بہادروں پر اس نقصان کے باوجود وہ اب تک اپنی جگہوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں بڑی بڑی خوفناک جنگیں لڑی گئیں جو انسان اور انسانیت کی توہین تھیں لیکن اس بے ہودگی کا سلسلہ جاری ہے، دنیا خاص طور پر مغربی دنیا بڑے بڑے مفکرین اور دانشوروں سے بھری ہوئی ہے، بڑے بڑے تھنک ٹینک پان کی دکانوں کی طرح قدم قدم پر موجود ہیں اور بھاری معاوضے لے کر حکومتوں کو دانشورانہ گائیڈ لائن دیتے ہیں لیکن ان کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا کے7 ارب انسان جب تک رنگ نسل ذات پات زبان قومیت ملک و ملت دین دھرم کے حوالے سے تقسیم رہیںگے، یہ سب تباہ کاریاں جاری رہے گی۔
دہشت گردوں نے خودکش بمباروں کا جو خطرناک کھیل شروع کیا ہے، اس کا مقابلہ ایٹم بم بھی نہیں کرسکتا، اگر مغرب کے فلسفی دنیا کو دہشت گردوں کی تباہ کاریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ہتھیاروں کے بجائے مذاکرات کی طرف آئیں ابھی ابھی امریکا بہادر نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن مذاکرات میں محض سیاست کاروں کو بھیجا گیا تو ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ مذاکرات میں آفاقی وژن رکھنے والے مفکروں، دانشوروں، مدبروں، ادیبوں کو شامل کیا گیا تو مذاکرات کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔
مستونگ میں کیے جانے والے خودکش حملے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ ایک فرد کے چلے جانے سے تحریکیں کمزور نہیں ہوتیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی ایک منظم اور طاقتور تحریک ہے اور ان کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط اور وسیع ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں حملہ کرسکتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں، اس حقیقت کی طرف آتے ہیں کہ طالبان کیسے وجود میں آئے اور انھیں وجود میں لانے کا مقصد کیا تھا۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا تو دنیا کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکا کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ گرم پانیوں تک روس کی آمد امریکا کے لیے زبردست خطرہ ہے، امریکا کو یہ پریشانی تھی کہ افغانستان امریکا سے بہت دور ہے، اتنے لمبے فاصلے تک امریکی فوجوں کو بھیجنا، ایک مسئلہ ہے اور پھر امریکا براہ راست روس کے ساتھ جنگ میں ملوث ہوتا تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔
امریکا سے ہزاروں میل دور روس سے جنگ امریکا کو بہت مہنگی پڑے گی۔ اس مشکل بلکہ خطرناک صورتحال کا امریکا کے ماہرین جنگ نے یہ راستہ نکالا کہ افغانستان سے ملحقہ علاقوں ہی میں کوئی ایسا حکمران تلاش کیا جائے جو امریکا کی لڑائی خود لڑے۔ یہ امریکا کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت افغانستان کے پڑوس میں یعنی پاکستان میں ایک ایسا حکمران بلکہ ان کی ضرورت سے بڑا ضیا الحق کی شکل میں موجود تھا اور آسانی یہ تھی کہ وہ ایک ڈکٹیٹر تھا ۔
جس کے سامنے کوئی جمہوری دیوار بھی نہیں تھی کہ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرے اور یہ فیصلہ دے کہ افغان جنگ میں اپنی ٹانگ پھنسانا پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔چنانچہ ضیا الحق نے امریکا کی جنگ لڑنے کا وہ بد ترین فیصلہ کیا جس کا نقصان پاکستان اور افغانستان ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو ہوا اور آج تک ہو رہا ہے ۔ ضیا الحق سے کام لینے والوں کو جب وہ مہنگا پڑنے لگا تو انھوں نے اسے فضاؤں ہی میں جلا ڈالا لیکن ضیا الحق بہر حال وہ غلطی کرچکا تھا جس کی سزا پاکستان آج تک بھگت رہا ہے اور جس کی سزا میں 70 ہزار بے گناہ پاکستانی جان سے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا۔
اس حوالے سے غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان کے فطری اور اصلی دشمن امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔ انلوگوں نے جن کی سربراہی بش جونیئر کررہاتھا۔ طالبان یا دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی مہم شروع کی اور پاکستان کو اس مہم میں بندوق کی نوک پر شامل کیا اس مہم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ تو کچھ نہ ہوا، اس کے بر خلاف دہشت گردوں کو وسعت ملی اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک اور مضبوط ہوگیا۔
اس سارے ظالمانہ کھیل کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوا اور ہو رہا ہے کہ 70 ہزار پاکستانی اس ظالمانہ کھیل کی نذر ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری ہے، ابھی ابھی میں ڈیڑھ سو بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی افواج نے بڑی قربانیاں دے کر شمالی وزیرستان کو اس بلائے بے درماں سے آزاد کرالیا جو ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن خون خرابے کا سلسلہ بدستور جاری ہے خاص طور پر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ خوفناک کھیل وقفے وقفے سے کھیلا جارہاہے۔ دور دراز علاقوں میں اپنی چوکیوں پر تعینات سپاہی دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن آفرین ہے ان بہادروں پر اس نقصان کے باوجود وہ اب تک اپنی جگہوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں بڑی بڑی خوفناک جنگیں لڑی گئیں جو انسان اور انسانیت کی توہین تھیں لیکن اس بے ہودگی کا سلسلہ جاری ہے، دنیا خاص طور پر مغربی دنیا بڑے بڑے مفکرین اور دانشوروں سے بھری ہوئی ہے، بڑے بڑے تھنک ٹینک پان کی دکانوں کی طرح قدم قدم پر موجود ہیں اور بھاری معاوضے لے کر حکومتوں کو دانشورانہ گائیڈ لائن دیتے ہیں لیکن ان کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا کے7 ارب انسان جب تک رنگ نسل ذات پات زبان قومیت ملک و ملت دین دھرم کے حوالے سے تقسیم رہیںگے، یہ سب تباہ کاریاں جاری رہے گی۔
دہشت گردوں نے خودکش بمباروں کا جو خطرناک کھیل شروع کیا ہے، اس کا مقابلہ ایٹم بم بھی نہیں کرسکتا، اگر مغرب کے فلسفی دنیا کو دہشت گردوں کی تباہ کاریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ہتھیاروں کے بجائے مذاکرات کی طرف آئیں ابھی ابھی امریکا بہادر نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن مذاکرات میں محض سیاست کاروں کو بھیجا گیا تو ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ مذاکرات میں آفاقی وژن رکھنے والے مفکروں، دانشوروں، مدبروں، ادیبوں کو شامل کیا گیا تو مذاکرات کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔