مزدور کسان اور عمران

عمران خان اگر کسانوں سے مخلص ہیں تو پہلی فرصت میں زرعی اصلاحات کا اعلان کریں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ہم ایک طویل عرصے سے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل اور معاشرے میں ان کی حیثیت کے تعین کے بارے میں کالم لکھتے آرہے ہیں اور یہ بھی بتاتے آرہے ہیں کہ قومی پیداوار کے ان دو بڑے ذریعوں کو نہ صرف نظر انداز کردیا گیا ہے بلکہ ان کی حیثیت کو شرمناک حد تک گھٹاکر قومی پیداوار کے ان دو بڑے عوامل کی توہین کی جا رہی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں مزدور اور کسان معاشرے کا ایک مہذب حصہ ہوتے ہیں اور ان کی محنت کا انھیں منصفانہ معاوضہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں بہر حال یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے مزدوروں، کسانوں کی تعداد اور جمہوری انتخابات میں ان کے ووٹ کی اہمیت کی وجہ سے اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانوں میں ان کا ذکر کرنا شروع کیا ہے اور ان کے مسائل حل کرنے کے روایتی وعدے بھی کررہے ہیں۔ اس صورتحال کو ہم مزدوروں، کسانوں کے مسائل کا تو نہیں کہہ سکتے لیکن عشروں بعد سیاست دانوں کی زبانوں پر ان کے نام کو ایک مثبت پیش رفت ضرور کہہ سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مزدور اور کسان اپنی خدمات انتھک محنت کی شکل میں پیش کررہے ہیں اور قومی پیداوار میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں لیکن انھیں اس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا جیسے یہ طبقات ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں اور معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ہماری جمہوریت کے مجنوں چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آرہے ہیں لیکن انھیں مزدوروں، کسانوں کے مسائل پر غور کرنے کی فرصت اسی لیے نہیں ملتی تھی کہ ان کے وقت کا زیادہ حصہ قومی دولت کی لوٹ مار اور لوٹ مار کی منصوبہ بندی میں گزر جاتا تھا اور ان کے طبقاتی مفادات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ان کے دو طبقوں کو پسماندہ ہی رہنے دیا جائے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں بھٹو واحد رہنما تھا ۔


جس نے زبانی کلامی ہی سہی مزدورں، کسانوں کا نام لیا بھٹو نے مزدور کسان راج کا نعرہ تو لگایا لیکن مزدور کسان راج تو درکنار حقیقت یہ رہی کہ 1972 میں مزدوروں پر بے تحاشا اس قدر گولیاں پولیس نے چلائیں کہ مزدوروں کے خون سے زمین شکاگو کے مزدوروں کے خون کی طرح سرخ ہوگئی اور مزدوروں کی نمایندہ ٹریڈ یونین کو اس طرح بے دردی سے کچلا گیا کہ آج تک دوبارہ ٹریڈ یونین زندہ نہ ہوسکی۔ مزدوروں کے قانونی حقوق کا احترام کرنے کے بجائے ملک بھر میں ٹھیکیداری نظام رائج کرکے مزدوروں کو ٹھیکیداروں کا اسی طرح غلام بنادیاگیا جس طرح کسانوں کو وڈیروں اور جاگیرداروں کا غلام بناکر رکھ دیا گیا ہے یہ وہی کسان ہے جو رات دن کھیتوں میں کام کرکے غلے کے ڈھیر لگارہے لیکن اس کی محنت کا معاوضہ تھوڑی سی تعداد میں اجناس کی شکل میں دیا جاتا ہے۔

اشرافیائی حکومتوں کے بعد پہلی بار مڈل کلاس پر مشتمل افراد کی پارٹی تحریک انصاف انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ابھی اس جماعت نے اقتدار بھی نہیں سنبھالا کہ اقتدار اور اشرافیائی جمہوریت کے عاشقان نے دھاندلی، دھاندلی کی آوازیں بلند کرنا شروع کردیں اس کھیل میں پیش پیش وہ مقدس ہستیاں ہیں جو ہمیشہ اشرافیائی حکومتوں کی تابعداری کرتے رہے ہیں اور اس خدمت کے عوض اپنے منہ موتیوں سے بھرتے رہے ہیں ان کے کندھے سے کندھا ملاکر وہ کھڑے ہیں جو حالیہ انتخابات میں شکست سے دو چار ہوچکے ہیں۔

جنھیں 2013 کے الیکشن میں تاریخی دھاندلی کا اعزاز بھی مل چکا ہے ان ساری عوام دشمن اقتدار کی غلام طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ مڈل کلاس کی قیادت کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے چونکہ ان مقدس زعما کی تحویل میں مذہب سے محبت کرنے والے سادہ لوح کارکن بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں استعمال کرکے یہ مقدس لوگ نئی منتخب حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ حضرات بھول رہے ہیں کہ اس بار انھیں اینٹ کا جواب پتھر سے مل سکتا ہے لیکن امید ہے کہ انتظامیہ یہ صورتحال پیدا ہونے نہیں دے گی اور ان جمہوریت دشمنوں کی سازش کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

ہماری آج کے کالم کا اصل موضوع مزدور اور کسان ہے۔ معاشرے کے یہ محنت کش طبقات 70 سال سے غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی مزدوروں اور کسانوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا ہے یہ اچھی بات ہے لیکن ہمیشہ مزدوروں کے مسائل اجرتوں میں معمولی اضافے سے حل کیے جاتے رہے ہیں اور کسانوں اور ہاریوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا رہا۔ اب ایک مڈل کلاس برسر اقتدار آرہا ہے تو مزدوروں اور کسانوں کے مسائل روایتی انداز میں حل کرنے کے بجائے اسے حقیقی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ یہ طبقے ایک آسودہ زندگی گزار سکیں۔

کسانوں، ہاریوں کے مسائل کا حقیقی اور با معنی حل زرعی اصلاحات ہے اس کے علاوہ سارے حل اشک شوئی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، عمران خان اگر کسانوں سے مخلص ہیں تو پہلی فرصت میں زرعی اصلاحات کا اعلان کریں۔ مزدوروں کے دو اہم مسائل ہیں ایک ان کے قانونی حقوق پر مکمل عمل در آمد جن میں یونین سازی، سودا کاری اور حق ہڑتال شامل ہیں دوسرے ٹھیکیداری نظام کا مکمل خاتمہ جس کی وجہ سے صنعتی مزدور، صنعتی اور ٹھیکیدار کا غلام بنا ہوا ہے۔ عمران خان کو عوام کے مسائل حقیقت پسندانہ انداز میں حل کرنا چاہئیں اگر اشرافیائی نظام کی لیپا پوتی سے کام لینے کی کوشش کی گئی تو عمران حکومت بھی عوام میں ناپسندیدہ حکومت بن جائے گی۔
Load Next Story