ہم پھر سڑکوں پر آجائیں گے
شہباز کا ارشاد ہے کہ تحقیقات تک ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف کی زبان سے ایک جملہ ''ووٹ کو عزت دو'' دوران تقریر نکل گیا۔ اس کو اتنا اچھالا گیا کہ ''ووٹ کو عزت دو'' نواز شریف کی پہچان بن گیا، بلکہ سیاسی دانشور اس جملے کو نواز شریف کا دانشورانہ بیانیہ کہنے لگے ۔ ہم نے اس بیانیے کے جواب میں ایک بیانیہ اپنے کالم میں پیش کیا تھا کہ ''ووٹر کو عزت دو''۔ ووٹ جمہوریت کا سمبل کہلاتا ہے اور جمہوری معاشروں میں بلاشبہ ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ نواز شریف نے خواہ کسی سینس میں یہ بات کی ہو، اس کا مطلب بہرحال یہی لیا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کا احترام کرو۔
2018 کے الیکشن کے بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ قائد ایوان یعنی وزیراعظم کا انتخاب ہوا، اسمبلی میں عمران خان کو 176 ووٹ ملے، اس طرح عمران خان ایک بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ اب ذرا مسلم لیگ (ن) کے مشیروں کا کردار ملاحظہ کیجیے، ان مشیروں نے بجائے اس کے کہ عمران خان کی 176 ووٹوں سے کامیابی کا احترام کرتے، پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنادیا اور وہ ہنگامہ آرائی کی کہ اس سے پہلے ووٹ کی عزت کی ایسی مثال نہیں مل سکتی اور اس ہنگامہ آرائی کی قیادت شہباز شریف فرماتے رہے۔
شہباز شریف کو یہ شکایت ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ حیرت ہے کہ شہباز شریف اور ان کی برادری کو یہ یاد نہیں رہا کہ 2013 میں جو دھاندلی کی گئی جس کے نتیجے میں نواز شریف برسر اقتدار آئے، اسے مسلم لیگ (ن) کے شیروں نے بھلادیا اور اسی دھاندلی کے نتیجے میں پانچ سال مسلم لیگ (ن) نے ملک پر حکومت کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اور داماد کس جرم میں جیل میں ہیں۔ کیا ووٹ کو عزت دینے کی وجہ سے نواز شریف جیل میں ہیں؟
شریف خاندان لگ بھگ 30 سال سے اقتدار میں رہا اور اس 30 سالہ اقتدار کی وجہ یہ ہے کہ شریف برادران ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے صوبہ پنجاب پر بھی حکومت میں رہے۔ شریف برادران کو اس حقیقت کا علم ہے کہ پنجاب پر جس کی حکومت ہے وہ ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔ پچھلے دس سال سے نواز شریف نے شہباز شریف کو پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے، انھی رویوں کی وجہ سے دوسرے صوبوں کے اشراف اور ان کے حامی عوام شریف برادران کو پسند نہیں کرتے، کہا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ بھی لاہور پر لگا دیا گیا۔
پچھلے دس سال سے پنجاب پر ایک ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کرنے کے بعد اب اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا مسلم لیگ ن کے لیے ایک مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔ شریف برادران نے اقتدار کے دوران جس شاہانہ کروفر کا مظاہرہ کیا، پروٹوکول کے نام پر سیکڑوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں سفر کرنے والوں کو پروٹوکول کا چسکا ایسا لگا ہے کہ بڑے میاں کو جیل سے کورٹ بکتر بند گاڑی میں جانا توہین آمیز لگ رہا ہے اور قواعد کے خلاف قیدیوں کو لگژری گاڑیوں میں کورٹ لایا اور لے جایا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنے والوں کے لیے جیل سے بکتر بند گاڑی میں سفر کرنا بہت مشکل اور توہین آمیز لگتا ہے، ایک فطری بات ہے لیکن اقتدار کے دوران لوٹ مار کے جو کارنامے انجام دیے گئے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
لیبیا میں صدر معمر قذافی، مصر میں صدر حسنی اور عراق میں صدام حسین سے جب اقتدار چھن گیا تو ان شاہوں کا جو حشر ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ لیبیا میں کرنل قذافی عشروں بڑی رعونت سے حکومت کرتے رہے لیکن جب مشرق وسطیٰ میں انقلاب آیا تو حکمرانوں کا جو حشر ہوا وہ عبرت انگیز تھا۔ قذافی کو عوام نے سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر مارا، مصر کے صدر کو جیل سے کورٹ ایک لوہے کے پنجرے میں لے جایا جاتا تھا، یہ سب مکافات عمل ہے۔ اقتدار کے دوران حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ عوام کے ملازم ہیں، عوام نے انھیں ووٹ دے کر اقتدار اس لیے دلایا تھا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں لیکن حکمران طبقات اپنی حیثیت بھول کر بادشاہ سلامت بن جاتے ہیں جس کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
کسی بھی منتخب وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب ایک طرح سے قومی تقریب ہوتی ہے جس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی شریک ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں ہم نے بڑے غور سے مہمانان گرامی کا ہر طرف سے جائزہ لیا، لیکن ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما تقریب میں نظر نہیں آیا، یہ طریقہ کار اختلاف رائے نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ اگر یہ حضرات اس تقریب میں شرکت کرتے تو لوگ اسے اعلیٰ ظرفی کہتے، لیکن ہماری سیاست چونکہ ابھی قبائلی نظام سے باہر نہیں نکل پائی لہٰذا اس قسم کے واقعات حیرت انگیز نہیں۔ لیکن اس قسم کے رویوں سے عوامی مسائل کے حل کی راہ میں مشکلات ضرور پیدا ہوجاتی ہیں۔
شہباز شریف کو ایک منجھا ہوا سیاستدان سمجھا جاتا ہے، وہ اپنے بڑے بھائی کی انتہا پسندی کے بھی خلاف رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے انتخاب کے دن موصوف نے جو کچھ کہا وہ ایک سنجیدہ سیاستدان نہیں کہہ سکتا۔ اول تو وہ قومی اسمبلی میں غیر مہذبانہ احتجاج کرتے رہے اور شہباز کی تقریر دھونس اور دھمکیوں سے بھری ہوئی تھی، شہباز کا ارشاد ہے کہ تحقیقات تک ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔ نعروں کی گونج اور ہڑبونگ میں عمران خان نے اپنی تقریر پوری کی، شہباز نے کہا کہ ووٹ کی چوری کا اگر حساب نہ دیا گیا تو ہم پھر سڑکوں پر آئیں گے۔ کیا ووٹ کی عزت اسی رویے کا نام ہے؟
2018 کے الیکشن کے بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ قائد ایوان یعنی وزیراعظم کا انتخاب ہوا، اسمبلی میں عمران خان کو 176 ووٹ ملے، اس طرح عمران خان ایک بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ اب ذرا مسلم لیگ (ن) کے مشیروں کا کردار ملاحظہ کیجیے، ان مشیروں نے بجائے اس کے کہ عمران خان کی 176 ووٹوں سے کامیابی کا احترام کرتے، پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنادیا اور وہ ہنگامہ آرائی کی کہ اس سے پہلے ووٹ کی عزت کی ایسی مثال نہیں مل سکتی اور اس ہنگامہ آرائی کی قیادت شہباز شریف فرماتے رہے۔
شہباز شریف کو یہ شکایت ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ حیرت ہے کہ شہباز شریف اور ان کی برادری کو یہ یاد نہیں رہا کہ 2013 میں جو دھاندلی کی گئی جس کے نتیجے میں نواز شریف برسر اقتدار آئے، اسے مسلم لیگ (ن) کے شیروں نے بھلادیا اور اسی دھاندلی کے نتیجے میں پانچ سال مسلم لیگ (ن) نے ملک پر حکومت کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اور داماد کس جرم میں جیل میں ہیں۔ کیا ووٹ کو عزت دینے کی وجہ سے نواز شریف جیل میں ہیں؟
شریف خاندان لگ بھگ 30 سال سے اقتدار میں رہا اور اس 30 سالہ اقتدار کی وجہ یہ ہے کہ شریف برادران ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے صوبہ پنجاب پر بھی حکومت میں رہے۔ شریف برادران کو اس حقیقت کا علم ہے کہ پنجاب پر جس کی حکومت ہے وہ ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔ پچھلے دس سال سے نواز شریف نے شہباز شریف کو پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے، انھی رویوں کی وجہ سے دوسرے صوبوں کے اشراف اور ان کے حامی عوام شریف برادران کو پسند نہیں کرتے، کہا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ بھی لاہور پر لگا دیا گیا۔
پچھلے دس سال سے پنجاب پر ایک ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کرنے کے بعد اب اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا مسلم لیگ ن کے لیے ایک مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔ شریف برادران نے اقتدار کے دوران جس شاہانہ کروفر کا مظاہرہ کیا، پروٹوکول کے نام پر سیکڑوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں سفر کرنے والوں کو پروٹوکول کا چسکا ایسا لگا ہے کہ بڑے میاں کو جیل سے کورٹ بکتر بند گاڑی میں جانا توہین آمیز لگ رہا ہے اور قواعد کے خلاف قیدیوں کو لگژری گاڑیوں میں کورٹ لایا اور لے جایا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنے والوں کے لیے جیل سے بکتر بند گاڑی میں سفر کرنا بہت مشکل اور توہین آمیز لگتا ہے، ایک فطری بات ہے لیکن اقتدار کے دوران لوٹ مار کے جو کارنامے انجام دیے گئے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
لیبیا میں صدر معمر قذافی، مصر میں صدر حسنی اور عراق میں صدام حسین سے جب اقتدار چھن گیا تو ان شاہوں کا جو حشر ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ لیبیا میں کرنل قذافی عشروں بڑی رعونت سے حکومت کرتے رہے لیکن جب مشرق وسطیٰ میں انقلاب آیا تو حکمرانوں کا جو حشر ہوا وہ عبرت انگیز تھا۔ قذافی کو عوام نے سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر مارا، مصر کے صدر کو جیل سے کورٹ ایک لوہے کے پنجرے میں لے جایا جاتا تھا، یہ سب مکافات عمل ہے۔ اقتدار کے دوران حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ عوام کے ملازم ہیں، عوام نے انھیں ووٹ دے کر اقتدار اس لیے دلایا تھا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں لیکن حکمران طبقات اپنی حیثیت بھول کر بادشاہ سلامت بن جاتے ہیں جس کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
کسی بھی منتخب وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب ایک طرح سے قومی تقریب ہوتی ہے جس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی شریک ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں ہم نے بڑے غور سے مہمانان گرامی کا ہر طرف سے جائزہ لیا، لیکن ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما تقریب میں نظر نہیں آیا، یہ طریقہ کار اختلاف رائے نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ اگر یہ حضرات اس تقریب میں شرکت کرتے تو لوگ اسے اعلیٰ ظرفی کہتے، لیکن ہماری سیاست چونکہ ابھی قبائلی نظام سے باہر نہیں نکل پائی لہٰذا اس قسم کے واقعات حیرت انگیز نہیں۔ لیکن اس قسم کے رویوں سے عوامی مسائل کے حل کی راہ میں مشکلات ضرور پیدا ہوجاتی ہیں۔
شہباز شریف کو ایک منجھا ہوا سیاستدان سمجھا جاتا ہے، وہ اپنے بڑے بھائی کی انتہا پسندی کے بھی خلاف رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے انتخاب کے دن موصوف نے جو کچھ کہا وہ ایک سنجیدہ سیاستدان نہیں کہہ سکتا۔ اول تو وہ قومی اسمبلی میں غیر مہذبانہ احتجاج کرتے رہے اور شہباز کی تقریر دھونس اور دھمکیوں سے بھری ہوئی تھی، شہباز کا ارشاد ہے کہ تحقیقات تک ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔ نعروں کی گونج اور ہڑبونگ میں عمران خان نے اپنی تقریر پوری کی، شہباز نے کہا کہ ووٹ کی چوری کا اگر حساب نہ دیا گیا تو ہم پھر سڑکوں پر آئیں گے۔ کیا ووٹ کی عزت اسی رویے کا نام ہے؟