جنگی ماحول بنانے کی امریکی کوشش
جنگ ایک دوسرے کی مخالف طاقتوں کے درمیان ہوتی ہے اور یہ مخالف طاقتیں عوام نہیں حکمران ہوتے ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
دنیا کے 7 ارب انسان خوف اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیا پر حکومت کرنے والے ان انسانوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ غریب انسانوں کو محرومیوں میں مبتلا کرنے والا نظام ان ہی کا تخلیق کیا ہوا ہے جو انسانوں کو خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ اور بڑی حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی آبادی لگ بھگ 7 ارب ہے۔
یہ اربوں انسان چند جنگ پسند حکمرانوں کے سامنے بے بس ہیں۔ جنگ خواہ عالمی ہو،کوریا کی ہو، ویت نام کی، عراق کی ہو یا افغانستان کی اس کا فیصلہ چند حکمرانوں نے کیا۔ عوام کا ان فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں، ہاں ایک زبردستی کا تعلق یہ بنایا گیا ہے کہ عوام نے اپنے ووٹوں سے حکمرانوں کو منتخب کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام سے انتخابات میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا جنگ کرنا ہے یا نہیں۔
جنگ ایک دوسرے کی مخالف طاقتوں کے درمیان ہوتی ہے اور یہ مخالف طاقتیں عوام نہیں حکمران ہوتے ہیں جنگیں عموماً قومی مفادات کے تحفظ اور ملکی سالمیت کے نام پر لڑی جاتی ہیں۔ جنگیں لڑنے والے یا لڑانے والے چند لوگ یعنی حکمران طبقات ہوتے ہیں جو محفوظ ہوتے ہیں۔ جانی نقصان فوجیوں کا اور عوام کا ہوتا ہے یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ شاہی نظام میں بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ دشمن کے خلاف جنگ کا اعلان کرے۔ بادشاہ عوام کا منتخب نہیں ہوتا تھا بلکہ بادشاہت موروثی ہوتی تھی۔
جدید دنیا کا مہذب انسان جنگوں کی طرف کس طرح قدم بڑھا رہا ہے اور جنگوں کا ماحول کس طرح بنا رہا ہے۔ جب سے امریکا کی صدارت پر ڈونلڈ ٹرمپ فائز ہوئے ہیں دنیا غیر محفوظ اور عوام خوفزدہ ہیں ۔ اس سے قبل کہ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے کہ جنگ کیوں لڑی جاتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ضرورت ہے کہ کوئی جنگ کبھی عوامی مفاد میں نہیں لڑی گئی بلکہ ہر جنگ کے پیچھے اشرافیہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور متحارب اشرافیہ بھاری مالی مفادات کی خاطر جنگیں چھوڑتے ہیں اور جنگیں لڑتے ہیں۔
امریکی وزارت دفاع پینٹا گان نے انکشاف کیا ہے کہ چین بحرالکاہل میں امریکی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے میزائل حملے کرنے کی تیاری کررہا ہے، پینٹاگان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی افواج امریکی اور اتحادی افواج کی تنصیبات پر بم اور میزائل حملے کی اپنی استعداد کو بڑھانے کی تیاریاں کررہی ہیں اور ان کا ہدف بحرالکاہل میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کی تنصیبات ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کی پیپلزلبریشن آرمی بحری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے 3 سال سے خصوصی تربیت حاصل کررہی ہے اور چین بحری تنصیبات کو نشانہ بنانے والے اور آتشیں مواد پہنچانے والے میزائل بنا رہا ہے جس کے لیے چین نے اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھاکر 190 ارب ڈالر تک کردیا ہے۔
کانگریس کو پیش کی جانے والی پینٹاگان کی سالانہ رپورٹ کہتی ہے کہ چین مسلسل اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کررہاہے، چین کی جانب سے اس رپورٹ کے حوالے سے اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ چین تائیوان پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بھی تیاری کر رہا ہے، چین بحیرہ چین کے علاقے میں بھی اپنی فوجی تنصیبات میں اضافہ کرتا آرہا ہے اور کئی مقامات پر اپنے جنگی طیارے اتارچکا ہے اس مبینہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے امریکا نے جاپان میں اپنی فوجیں تیار رکھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی جنگ میں اضافے نے یہ صورتحال پیدا کردی ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے ایک ''امریکی ایکشن گروپ'' قائم کر دیا ہے، امریکی وزیر خارجہ کا کہناہے کہ ایرانی حکومت گزشتہ 40 سال سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا ذمے دار ہے۔ ہم ایرانی حکومت کے رویے میں اندرونی اور بیرونی طور پر بڑی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایران کے خلاف بنائے جانے والے امریکی ایکشن گروپ کی قیادت برائین ہک کررہے ہیں۔
برائین ہک کا کہناہے کہ ہمیں امید ہے کہ بہت جلد ہم ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ برائین ہک کا کہناہے کہ ایران ایکشن گروپ ایران کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط عالمی کوششوں پر کار بند ہے۔ برائین ہک نے مزید کہاکہ امریکا ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دوسرے ملکوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہاہے۔
امریکی جنگ پسند صدر ٹرمپ کی محاذوں پر جارحانہ حکمت عملی پر کاربند ہیں ۔اس سلسلے میں امریکا نے شمالی کوریا کی مبینہ مدد کرنے کے الزام میں چین اور روس کی متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔ چین اور روس پر الزام لگایا جارہاہے کہ انھوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے شراب اور سگریٹ کی کھیپ شمالی کوریا کو برآمد کی ہیں اس جرم کی سزا کے طور پر چین کی کمپنی ڈالیان سن مون اسٹار اور اس کی ذیلی کمپنی سنیمن اور ایک روسی کمپنی پروفیسنٹ کو بھی بلیک لسٹ کردیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے الزام لگایا ہے کہ پروفینسٹ نے روس کی تین بندرگاہوں پر شمالی کوریا کے بحری جہازوں کو مال چڑھانے اور ایندھن بھرنے کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان طویل عرصے سے تعلقات منقطع تھے شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی تنصیبات کو ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال ہوئے ہیں۔
ہم نے یہاں چند حوالے اس لیے دیے ہیں کہ امریکا دنیاکے آزاد اور خود مختار ملکوں کے خلاف دباؤ بڑھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کو بلیک میل کرکے اس نے شمالی کوریا کی ایٹمی تنصیبات تباہ کروا دیں بلاشبہ ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ ایک مثبت اقدام ہے لیکن امریکا نے اپنے فوجی اڈے جو جنوبی کوریا میں واقعہ ہیں، اس قسم کے اقدامات کیوں نہیں کر رہا۔ اسرائیل کو علاقے کا دادا بناکر ایران پر سو طرح کی پابندیاں لگانا اور ایرانی تیل کی برآمد کو روکنا کیا قرین انصاف ہے یہ کھلی دھاندلی اور جنگی فضاء پیدا کرنا ہے۔
یہ اربوں انسان چند جنگ پسند حکمرانوں کے سامنے بے بس ہیں۔ جنگ خواہ عالمی ہو،کوریا کی ہو، ویت نام کی، عراق کی ہو یا افغانستان کی اس کا فیصلہ چند حکمرانوں نے کیا۔ عوام کا ان فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں، ہاں ایک زبردستی کا تعلق یہ بنایا گیا ہے کہ عوام نے اپنے ووٹوں سے حکمرانوں کو منتخب کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام سے انتخابات میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا جنگ کرنا ہے یا نہیں۔
جنگ ایک دوسرے کی مخالف طاقتوں کے درمیان ہوتی ہے اور یہ مخالف طاقتیں عوام نہیں حکمران ہوتے ہیں جنگیں عموماً قومی مفادات کے تحفظ اور ملکی سالمیت کے نام پر لڑی جاتی ہیں۔ جنگیں لڑنے والے یا لڑانے والے چند لوگ یعنی حکمران طبقات ہوتے ہیں جو محفوظ ہوتے ہیں۔ جانی نقصان فوجیوں کا اور عوام کا ہوتا ہے یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ شاہی نظام میں بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ دشمن کے خلاف جنگ کا اعلان کرے۔ بادشاہ عوام کا منتخب نہیں ہوتا تھا بلکہ بادشاہت موروثی ہوتی تھی۔
جدید دنیا کا مہذب انسان جنگوں کی طرف کس طرح قدم بڑھا رہا ہے اور جنگوں کا ماحول کس طرح بنا رہا ہے۔ جب سے امریکا کی صدارت پر ڈونلڈ ٹرمپ فائز ہوئے ہیں دنیا غیر محفوظ اور عوام خوفزدہ ہیں ۔ اس سے قبل کہ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے کہ جنگ کیوں لڑی جاتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ضرورت ہے کہ کوئی جنگ کبھی عوامی مفاد میں نہیں لڑی گئی بلکہ ہر جنگ کے پیچھے اشرافیہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور متحارب اشرافیہ بھاری مالی مفادات کی خاطر جنگیں چھوڑتے ہیں اور جنگیں لڑتے ہیں۔
امریکی وزارت دفاع پینٹا گان نے انکشاف کیا ہے کہ چین بحرالکاہل میں امریکی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے میزائل حملے کرنے کی تیاری کررہا ہے، پینٹاگان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی افواج امریکی اور اتحادی افواج کی تنصیبات پر بم اور میزائل حملے کی اپنی استعداد کو بڑھانے کی تیاریاں کررہی ہیں اور ان کا ہدف بحرالکاہل میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کی تنصیبات ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کی پیپلزلبریشن آرمی بحری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے 3 سال سے خصوصی تربیت حاصل کررہی ہے اور چین بحری تنصیبات کو نشانہ بنانے والے اور آتشیں مواد پہنچانے والے میزائل بنا رہا ہے جس کے لیے چین نے اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھاکر 190 ارب ڈالر تک کردیا ہے۔
کانگریس کو پیش کی جانے والی پینٹاگان کی سالانہ رپورٹ کہتی ہے کہ چین مسلسل اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کررہاہے، چین کی جانب سے اس رپورٹ کے حوالے سے اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ چین تائیوان پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بھی تیاری کر رہا ہے، چین بحیرہ چین کے علاقے میں بھی اپنی فوجی تنصیبات میں اضافہ کرتا آرہا ہے اور کئی مقامات پر اپنے جنگی طیارے اتارچکا ہے اس مبینہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے امریکا نے جاپان میں اپنی فوجیں تیار رکھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی جنگ میں اضافے نے یہ صورتحال پیدا کردی ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے ایک ''امریکی ایکشن گروپ'' قائم کر دیا ہے، امریکی وزیر خارجہ کا کہناہے کہ ایرانی حکومت گزشتہ 40 سال سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا ذمے دار ہے۔ ہم ایرانی حکومت کے رویے میں اندرونی اور بیرونی طور پر بڑی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایران کے خلاف بنائے جانے والے امریکی ایکشن گروپ کی قیادت برائین ہک کررہے ہیں۔
برائین ہک کا کہناہے کہ ہمیں امید ہے کہ بہت جلد ہم ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ برائین ہک کا کہناہے کہ ایران ایکشن گروپ ایران کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط عالمی کوششوں پر کار بند ہے۔ برائین ہک نے مزید کہاکہ امریکا ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دوسرے ملکوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہاہے۔
امریکی جنگ پسند صدر ٹرمپ کی محاذوں پر جارحانہ حکمت عملی پر کاربند ہیں ۔اس سلسلے میں امریکا نے شمالی کوریا کی مبینہ مدد کرنے کے الزام میں چین اور روس کی متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔ چین اور روس پر الزام لگایا جارہاہے کہ انھوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے شراب اور سگریٹ کی کھیپ شمالی کوریا کو برآمد کی ہیں اس جرم کی سزا کے طور پر چین کی کمپنی ڈالیان سن مون اسٹار اور اس کی ذیلی کمپنی سنیمن اور ایک روسی کمپنی پروفیسنٹ کو بھی بلیک لسٹ کردیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے الزام لگایا ہے کہ پروفینسٹ نے روس کی تین بندرگاہوں پر شمالی کوریا کے بحری جہازوں کو مال چڑھانے اور ایندھن بھرنے کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان طویل عرصے سے تعلقات منقطع تھے شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی تنصیبات کو ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال ہوئے ہیں۔
ہم نے یہاں چند حوالے اس لیے دیے ہیں کہ امریکا دنیاکے آزاد اور خود مختار ملکوں کے خلاف دباؤ بڑھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کو بلیک میل کرکے اس نے شمالی کوریا کی ایٹمی تنصیبات تباہ کروا دیں بلاشبہ ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ ایک مثبت اقدام ہے لیکن امریکا نے اپنے فوجی اڈے جو جنوبی کوریا میں واقعہ ہیں، اس قسم کے اقدامات کیوں نہیں کر رہا۔ اسرائیل کو علاقے کا دادا بناکر ایران پر سو طرح کی پابندیاں لگانا اور ایرانی تیل کی برآمد کو روکنا کیا قرین انصاف ہے یہ کھلی دھاندلی اور جنگی فضاء پیدا کرنا ہے۔