معاشی استحکام کی ضرورت

کچھ بھی ہو ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔

کچھ بھی ہو ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ فوٹو: فائل

PARIS:
اسٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی بورڈ نے دو ماہ کے لیے سودکی شرح 7.5 فیصد سے بڑھاکر 8.5 فیصدکردی جب کہ دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی صورتحال غیر تسلی بخش قرار دیدی ہے۔

بلاشبہ نئی حکومت کے قیام سے سیاسی استحکام آیا ہے، اس کے مثبت اثرات کاروبار پر مرتب ہوئے ہیں اور صارفین کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ایک عمومی تاثر یہ بھی ابھرا ہے کہ ضمنی بجٹ میں عوام کوکوئی ریلیف نہیں دیا گیا ،کھاد ،گیس، بجلی سمیت 1800اشیا مہنگی کردی گئی ہیں ۔

مانیٹری پالیسی رپورٹ میں بہت سے انکشافات اور ترجیحات طے کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ زری اور مالیاتی اقدامات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اشیا سازی کا شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے جب کہ کپاس کی پیداوار مطلوبہ ہدف سے کم رہنے کے باعث زرعی شعبے کی نمو پر منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔ برآمدی پیداوار اورکم ہوتے ہوئے ذخائرکی وجہ سے کھاد کی بلند پیداوار اور توانائی کی دستیابی میں بہتری کے مثبت اثرات متوقع ہیں ۔


نجی شعبے کے قرضے کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ تاہم تیل کے نرخوں میں اضافہ اس بہتری کو زائل کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جاری حسابات کا خسارہ بلند رہے گا۔ یہ توکچھ چیدہ چیدہ مندرجات تھے جو اس رپورٹ میں ظاہرکیے گئے ، جب کہ آئی ایم ایف نے معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کا مشورہ دیتے ہوئے بجلی اورگیس کی قیمتوں میں مزید اضافے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی بھی تجویز دی ہے۔

یہ درست ہے کہ ملک پر واجب الادا قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے اوراس قرض کو اتارنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑرہے ہیں لیکن نئی جمہوری حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے سے براہ راست عوام متاثر ہونگے جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں ،ان کا جینا مزید دوبھر ہوجائے جب کہ سرکاری اداروں کی نجکاری سے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

کچھ بھی ہو ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ملک کے لیے مضبوط معاشی پالیسی ترتیب دینے سے عوام کو ریلیف ملے گا۔

 
Load Next Story