نئی حکومت کو الجھانے کی سازش

پاکستان میں مسلسل کرپشن کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں روز اول ہی سے اشرافیہ کا تسلط رہا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

WASHINGTON:
کرپشن کی جڑیں کتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اس کا اندازہ اس تازہ خبر سے ہوتا ہے جس کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی فیملی کے ارکان پر بھی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات لگے ہیں۔ ویسے تو شریف دور میں بھی چیف جسٹس کے صاحبزادے کے خلاف اس حوالے سے الزامات لگتے رہے ہیں، لیکن تازہ انکشافات سے عوام حیران ہیں کہ کیسے کیسے معززین کرپشن کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔

پچھلے چند دن میں اور کئی معززین کے علاوہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا نام بھی اس حوالے سے میڈیا میں آرہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرپشن کے حوالے سے روز روز نئے نئے نام سامنے آرہے ہیں تو پھر اس حوالے سے کوئی ایسا طریقہ کار کیوں نہ اپنایا جائے کہ روز روز کی جھنجھٹ سے نجات مل جائے اور وہ سارے لوگ سامنے آجائیں جنھوں نے ماضی قریب میں لوٹ سیل میں جی بھر کے حصہ لیا اور بینک بیلنس میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں روپوں کی جائیدادیں بنالیں۔ ان قوم کے ''رہنماؤں'' کا احاطہ کرنے کے لیے ماضی کے تمام حکمران طبقے کے اثاثے دیکھے جائیں تو پھر ایک ایک کرپٹ کے پیچھے وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سابق حکمران طبقے کو ایک معینہ وقت دیا جائے جو ایک ماہ سے زیادہ نہ ہو، جس کے اندر وہ اپنے ملک کے اندر اور ملک کے باہر بنائے جانے والے اثاثے ڈکلیئر کردیں اور ساتھ میں ایک حلف نامہ بھی لے لیا جائے کہ ان کے پاس ڈکلیئر شدہ اثاثوں کے علاوہ کوئی اور اثاثے نہیں ہیں۔ اس طریقہ کار سے نہ نیب کو ایک ایک کے پیچھے دوڑنا پڑے گا نہ کرپشن کا ارتکاب کرنے والا پورا ٹبر سامنے آسکے گا۔

ہم نے اس سے پہلے بھی اس حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، آپ لاکھ کوشش کریں کرپشن مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکتی، اتنا ہی یہ ابھرے گی جتنا اسے دبایا جائے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کرپشن کے خلاف کارروائیاں روک دی جائیں، ہاں چیدہ چیدہ لوگوں کے خلاف تحقیقات میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ماضی میں یعنی پچھلے دس سال میں جو حضرات اقتدار کا حصہ رہے ہیں ان سے ان کے اندرون ملک اور بیرون ملک موجود اثاثوں کی تفصیل طلب کی جائے اور یہ واضح کردیا جائے کہ اگر اثاثے چھپانے کی کوشش کی گئی تو ایسے افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔


ویسے تو ہمارے ملک میں لوٹ مار کا سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا لیکن پچھلے دس سال میں جمہوری حکومتوں کے دوران جو لوٹ سیل لگائی گئی اس کی مثال پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ ہمارے ان دوستوں کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں جو آنکھ بند کرکے جمہوریت کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں، ہم ہمیشہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے آرہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور کرپشن لازم و ملزوم ہیں جس کا ایک معمولی ثبوت پاناما لیکس کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، کئی ملکوں کے سربراہان نے اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن اربوں کی کرپشن کے انکشافات کے باوجود ہماری اشرافیہ میں نہ مانوں کی ضد پر اڑی ہوئی ہے۔

پاکستان میں مسلسل کرپشن کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں روز اول ہی سے اشرافیہ کا تسلط رہا ہے، اقتدار اور سیاست پر قبضے کی وجہ سے اشرافیہ کو بغیر کسی احتیاط اور خوف کے کرپشن کے مواقع حاصل ہوتے رہے۔ ایسی کرپشن، وہ بھی اربوں کی کرپشن کی لت نے اشرافیہ کو یہ ترغیب فراہم کی کہ اقتدار اپنے خاندانوں سے باہر نہ جائے، سو جمہوریت کی لاش پر ولی عہدی نظام قائم کیا گیا، جس کا مشاہدہ آپ ہماری سیاست میں کھلے عام کرسکتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے 21 کروڑ عوام جس غربت اور مفلوک الحالی کا شکار ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی دولت عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اشرافیہ کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کرپشن کی میڈیا میں تشہیر کی وجہ اشرافیہ سے نفرت کرنے لگی ہے لیکن غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ اور کارکن اب بھی کرپٹ اشرافیہ کے گن گا رہی ہے۔

صف اول کے بعد اب سیکنڈ لائن بھی احتساب کی زد میں آرہی ہے لیکن ان کا حال دھوبی کے گدھوں کا ہوکر رہ گیا ہے، وہ برسوں سے جس کھونٹے پر بندھے ہوئے ہیں اسے وہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے اپنے گرو کے گناہوں کی تردید میں اپنا منہ کالا کر رہے ہیں، کیونکہ موجودہ صورتحال میں یہ اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔مڈل کلاس پر مشتمل تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے ہماری اشرافیہ بہت بدحواس ہے، کیونکہ 71 سال کی بلاشرکت غیرے حکمرانی نے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اقتدار پر صرف ہمارا حق ہے، اس نفسیات نے اشرافیہ کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر مڈل کلاس حکومت کو چلنے نہ دیں۔

سو مختلف حوالوں سے نئی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ 2013 میں دھاندلی کے حوالے سے بدنام اشرافیہ موجودہ حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر اس کی تحقیق کے لیے کمیٹیاں بنانے کے جتن کر رہی ہے، اشرافیہ کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر عمران حکومت کو وقت مل گیا تو وہ تیزی سے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گی اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئی تو پھر کرپٹ اشرافیہ کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملے گا، نئی حکومت عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

عمران حکومت نے کچھ ایسے کام کیے ہیں جن کا مثبت نفسیاتی اثر عوام پر ہوگا، لیکن اصل کام عوام کے ان مسائل کو حل کرنا ہے جنھیں سابقہ حکومتوں نے اپنی ''اہم مصروفیات'' کی وجہ سے مستقل پینڈنگ میں ڈال رکھا تھا۔ یہ سچ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو کنگال کرکے رکھ دیا ہے اور بیرونی اور اندرونی بھاری قرضوں سے ملک کی کمر جھکی ہوئی ہے۔ عمران حکومت کو اسی بدتر صورتحال میں اپنا راستہ بنانا ہے، کیونکہ اشرافیائی مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام اب تھک گئے ہیں، اب وہ ریلیف چاہتے ہیں۔
Load Next Story