ہربوئی کے جنگلات بھی حکومتی توجہ کے منتظر ہیں

ہرسال شجرکاری کے نام پربلوچستان میں ہزاروں درخت لگائے جاتے ہیں مگر افسوس، ہربوئی میں کہیں پر بھی شجر کاری نہیں کی جاتی

بلوچستان کے علاقے ہربوئی میں صنوبر کے یہ قدیم جنگلات بے دریغ کٹائی کے باعث آج معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہربوئی بلوچستان کے ضلع قلات میں واقع ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو سطح سمندر سے 9000 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی خوب صورتی کی اہم وجہ یہاں موجود صنوبر کے نادر درخت، قدرتی چشمے، قیمتی جڑی بوٹیاں، پہاڑی چرند پرند اور جانور ہیں۔ ماہرین صنوبر کے ان درختوں کو ''زندہ رکاز'' (Living Fossil) بھی کہتے ہیں کیونکہ ان میں سے کئی درخت بہت پرانے ہیں۔ صنوبر کے یہ نایاب درخت سطح سمندر سے 7000 تا 8000 فٹ کی بلندی پر، کم مٹی کے پتھریلے علاقوں میں اگتے ہیں اور دوسرے درختوں کے مقابلے میں ان کی نشوونما بہت ہی کم رفتار پر ہوتی ہے۔

عموماً کہا جاتا ہے کہ یہ درخت سالانہ 25 ملی میٹر کی رفتار سے بڑھتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے ضلع زیارت میں بھی صنوبر کے درخت موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ہربوئی، زیارت کی طرح حکومتی توجہ حاصل کرنے سے اب تک محروم رہا ہے، اور طویل عرصے سے جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کو درپیش خطرے میں مزید تیزی آرہی ہے۔



محکمہ جنگلات کے مطابق یوں تو ہربوئی کے جنگلات کا سلسلہ ڈغاری تحصیل دشت، ضلع مستونگ سے لے کر ضلع خضدار کی تحصیل زہری تک 200000 ایکڑ تک پھیلا ہوا ہے، مگر ضلع قلات میں درختوں کا یہ سلسلہ 55230 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ ہربوئی میں کرگزی کے مقام پر پہاڑوں کے اوپر قلات کے پولیٹکل ایجنٹ کےلیے 1904 میں ایک ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا تھا جو ان دنوں خستہ حالت میں ہے۔ یہیں پر خان آف قلات کی رہائش گاہ، مسجد اور چند کوارٹر بھی بنے ہوئے ہیں۔ ہربوئی کی نمایاں آبادیوں میں روبدار، تخت، جوہان، گزگ، شیخڑی، گیڈی، نرمک، بولخے، گیڈ بست، کاریز یوسفی، کاریز کلان، سور، اسکلکو، ککوی، خیسار، چکل، عالی دشت، خطرینزان، سرخین، لہڑ، ھادرکش، ٹینٹالی، بغرکش، کپوتو، امیری، دونی، نیچارہ اور چند دیگر شامل ہیں۔



بلوچستان کے معروف محقق اور ادیب، پناہ بلوچ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ''ہربوئی میں صنوبر کے درختوں کے علاوہ یہاں پر زیتون، بادام، انجیر، اور درخت مسواک کے علاوہ گل لالہ، زیرہ، جھنڈ بیری، دھتورہ، بھنگرہ، عناب، اجوائن خراسانی، جنگلی پودینہ، سیاہ چوب، گڈیلی، رتن جوت، ہرمل، اسپغول، خفص بندی، زم ہراب، کالی تل، گاوزبان، کریات، مارموت، جل جمنی بوٹی، جنگلی پوست کے علاوہ سینکڑوں دیگر جڑی بوٹیاں اور درجنوں دیگر درخت پائے جاتے ہیں۔'' پناہ بلوچ کا یہ دعوی ہے کہ جتنی قدرتی جڑی بوٹیاں اس وادی میں یکجا مل جاتی ہیں، کسی اور جگہ پر ممکن نہیں۔



یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہربوئی کے اس جنگل میں پہاڑی بکرے، دنبے، عقاب، چکور، تیتر، سیسو اور پہاڑی خرگوش سمیت دیگر کئی جانور پائے جاتے ہیں۔



ہزاروں ایکڑ پر موجود یہ جنگل کسی نعمت سے کم نہیں، مگر بد قسمتی سے اس جنگل کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو بلوچستان نہ صرف ایک عظیم اثاثے سے محروم ہوجائے گا بلکہ ماحول پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ماہرین کا دعوی ہے کہ ہربوئی میں موجود صنوبر کے درخت بہت کم ہی دنیا کے دیگر جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔ یونیسکو اور حکومت پاکستان سمیت صوبائی حکومت نے ہر دور میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر ہربوئی کے نایاب جنگل کو نظر انداز کیا ہے۔ یونیسکو کی بین الاقوامی ہم آہنگی کونسل نے زیارت کو عالمی نیٹ ورک برائے بایواسفیئر ریزروز میں شامل کرلیا ہے مگر ہربوئی کو نظرانداز کردیا گیا، حالانکہ ہربوئی میں موجود درخت ہزاروں سال پرانے ہیں جنہیں چھوڑ کر زیارت میں دوبارہ شجر کاری کی گئی ہے۔




جہاں بلوچستان کے دیگر مسائل کے حوالے سے میڈیا کا کردار قابل تعریف نہیں، وہاں جنگلات اور جنگلی حیات کے حفاظت اور انہیں درپیش مسائل کے حوالے سے بھی میڈیا پر خاموشی ہی رہی ہے۔ ماسوائے چند مقامی اخباروں کے، قومی پریس و میڈیا میں نہ اس پر لکھا گیا ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام منعقد ہوا جس میں مقامی لوگوں کو درپیش مسائل اور جنگلات کے معاملے پر بات کی جائے۔

ضلع قلات اور جنگلات کے گرد و نواح میں لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ علاقہ سرد ہونے کی وجہ سے لوگ صنوبر کے درخت کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 2005 کے اوائل میں آٹھ انچ قطر کی 90 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن بچھائی گئی مگر 47 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا منصوبہ بھی کسی کام کا نہیں۔ سردیوں میں نقطہ انجماد کا درجہ حرارت رکھنے والے اس علاقے کے لوگ شدید غربت کا شکار بھی ہیں اور گیس دستیاب نہ ہونے کی وجہ لوگوں کا انحصار ہربوئی کے جنگلات پر ہی ہے۔

ایک طرف جہاں وسائل کی کمی اور مسائل کے انبار ہیں، وہیں محکمہ جنگلات کا کردار بھی قابل تعریف نہیں۔ ایک طرف محکمہ جنگلات غیرفعال ہے تو دوسری طرف حکومت کا سلوک بھی امتیازی ہے کیونکہ محکمہ جنگلات قلات کے مطابق ان کے پاس نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ ہزاروں ایکڑ جنگل کی حفاظت کےلیے صرف چھ یا سات گارڈز اور گیم واچرز ہیں جبکہ پورے ضلع کا اسٹاف صرف پچاس افراد کے قریب ہے۔ اس کے برعکس، زیارت میں صرف 400 کے قریب گیم واچرز اور گارڈز تعینات کیے گئے ہیں۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا کہ آنے والے وقتوں میں نہ صرف ماحول پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے بلکہ پانی کی سطح مزید گرتی چلی جائے گی۔ ویسے بھی موجودہ خشک سالی کی وجہ سے نہ صرف پانی کی سطح پر گہرا اثر پڑا ہے بلکہ ہزاروں سال پرانے درخت بھی اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ محکمہ جنگلات قلات کے مطابق کئی دہائیوں سے حکومت کی طرف سے کوئی ورک پلان نہیں بنا جس کے تحت ہربوئی کے جنگلات کا مشاہدہ کیا جائے، اور ان میں کمی یا اضافے کا جائزہ لیا جاسکے۔

یوں تو محکمہ جنگلات کو ایک 'فورس' (طاقت) تصور کیا جاتا ہے مگر اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محکمہ جنگلات قلات کے افسران کو شکایت ہے کہ جب بھی ہربوئی کے جنگلات میں معدنیات کی تلاش کی جاتی ہے تو ان سے اجازت تک نہیں لی جاتی؛ کیونکہ ان کے کام کی وجہ سے سیکڑوں درخت کٹتے ہیں اور ماحول متاثر ہوتا ہے۔



سال 17-2016 کے دوران بھی معدنیات کی تلاش کے دوران سیکڑوں درختوں کو کاٹا گیا بلکہ پورے جنگل اور دشوار گزار راستوں پر نئے راستے بنائے گئے جس سے درختوں کو کاٹنے اور پھر جانوروں اور گاڑیوں کے ذریعے لانے میں مزید آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ ماضی کی نسبت ان دنوں درختوں کی کٹائی میں تیزی آئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر معدنیات تلاش کرنے والی کمپنیاں اسی طرح اپنی کھوج میں لگی رہیں تو نہ صرف یہ جنگل مزید غیر محفوظ ہوگا بلکہ دنیا صنوبر کے ایک نایاب جنگل اور جنگلی حیات سے محروم ہوجائے گی؛ کیونکہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ قومی اثاثے ان کمپنیوں اور چند مفاد پرستوں کےلیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد صرف معدنیات نکالنا ہے۔ ان سے پھیلنے والے اثرات، مقامی لوگوں کی غربت، تعلیم اور صحت سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ اس کی واضح مثالیں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی، سیندک، ریکوڈک اور گوادر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

یوں تو ہرسال شجر کاری کے نام پر بلوچستان سمیت ضلع قلات میں بھی ہزاروں درخت لگائے جاتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہربوئی میں کہیں پر بھی شجر کاری نہیں کی جاتی۔ ان پہاڑوں میں بے شمار ایسے چشمے ہیں جن کا پانی ضائع ہورہا ہے۔ اگر ان کے اردگرد نئے درخت لگائے جائیں تو اس سے ماحول میں خوبصورتی پیدا ہوگی۔ دوسری جانب اگر حکومت نیک نیتی سے جنگلات کی حفاظت کا عزم کرلے تو ممکن ہے کہ سوئی گیس اور بجلی کی بہتر بحالی کی صورت میں صنوبر کے درختوں کو کاٹنے کی ضرورت نہ پڑے۔

گزشتہ دنوں مقامی اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک بار پھر ہربوئی کے پہاڑوں میں سیسمک سرگرمیوں اور کنوؤں کی کھدائی کی باتیں ہورہی ہیں جس کےلیے پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی درخواست بھی قبول کرلی گئی ہے۔ اس حوالے سے ادارہ تحفظ ماحولیات حکومت بلوچستان سے این او سی کے حصول کےلیے پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی درخواست بھی قبول کرلی گئی ہے۔ اس حوالے سے 2 اکتوبر کو سرینا ہوٹل کوئٹہ میں عوامی رائے جاننے کےلیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، دلچسپی رکھنے والے اور متاثرہ افراد، اور عوام الناس کو شرکت کی دعوت دی گئی۔



ہوسکتا ہے پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کو این او سی مل جائے، مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہربوئی کے جنگلات کی حفاظت کس حد تک کی جائے گی یا کیا اقدامات اختیار کیے جائیں گے جن سے یہ جنگلات محفوظ رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے سرگرم بین الاقوامی، ملکی اور حکومتی ادارے ہربوئی جیسے نایاب جنگلوں کی حفاظت کےلیے اقدامات کریں۔ کسی بھی طرح کی معدنیات تلاش کرنے یا اس حوالے سے مزید کام کرنے کی صورت میں حکومت کی یہ پہلی اور اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان اداروں کو ان قیمتی اثاثوں کی حفاظت کا پابند کریں تاکہ زمین کے یہ زیور ہمیشہ قائم و دائم رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story