کلامِ اقبال کی نئے سرے سے تدوین کی ضرورت ہے

استاد اور محقق، محمد سعید کے حالات و خیالات

اردو کے محقق کو پیٹ کاٹ کر تحقیق کرنا پڑتی ہے، استاد اور محقق، محمد سعید۔ فوٹو : فائل

تحقیق و تدوین کو ایسا چراغ کہہ سکتے ہیں، جس سے کئی چراغ اور جلتے ہیں۔

معروف درس گاہ ''لمز'' کے رسالے ''بنیاد''میں آرتھر کونن ڈائل کی ایک کہانی The Brown Hand کا ترجمہ ''دست بریدہ بھوت'' کے عنوان سے چھپا، جو سعادت حسن منٹوکے قلم سے تھا۔ کئی برس یہ ترجمہ ''ہمایوں'' میں دفن رہا، پھر منٹو کے محقق محمد سعید اپنے معلوماتی نوٹ کے ساتھ اسے سامنے لے آئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، یہ ترجمہ عربی زبان و ادب کے عالم اور معروف اردو ادیب، ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظر سے گزرا، تو انھوں نے اس ترجمے سے تحریک پاکر ''بنیاد'' ہی میں '' آرتھر کونن ڈائل اور روحانیت'' کے عنوان سے مضمون لکھ ڈالا۔

اس سے آرتھر کونن ڈائل کے چاہنے والے کو یہ تو معلوم ہوا کہ شرلاک ہومز کا لافانی کردار تخلیق کرنے والا ان کا محبوب مصنف روحانیت میں بھی درک رکھتا تھا، تو دوسری طرف اہل ذوق نے یہ بھی جانا کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کا دائرہ علم کیسے کیسے موضوعات تک پھیلا ہے۔ اس تمہید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ بھولی بسری تحریروں کا سامنے آنا کس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ تو خیرایک تحریر تھی، لیکن محمد سعید تو منٹو کی 62 نادر تحریروں کو'' نوادرات منٹو '' میں پیش کرچکے ہیں۔ منٹوکی رسالوں میں دفن ایسی تحریروں کا ایک اور مجموعہ بھی تیار ہے۔

محمد سعید جو گذشتہ بارہ برس سے گورنمنٹ کالج میں اردو کے استاد ہیں، ان کا اصل ہنر تحقیق و تدوین ہے۔ تدوین کا کام ان کی طبیعت سے لگا کھاتا ہے۔ ایم فل کا مقالہ انھوں نے امتیاز علی خان عرشی کے تدوین کردہ دیوان غالب، جو نسخہ عرشی کے نام سے معروف ہے، کے متعلق لکھا۔ فن تدوین اور نسخہ عرشی کے بارے میں گفت گو کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا،''تدوین کی عمرتحقیق سے کم ہے۔ تحقیق کی عمر سو سوا سو سال ہے ، اس لحاظ سے تدوین کی عمرآدھی بنتی ہے۔ 1937میں مکاتب غالب کی تدوین کا جو کام مولانا عرشی نے کیا، اس سے اردو میں باقاعدہ تدوین کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ آثار ملتے ہیں۔

مولانا عرشی کے تدوین شدہ دیوان غالب کو اردو تدوین کا نقش اول کہا جاتا ہے۔ مثلاً حافظ محمود شیرانی نے مجموعہ نغز کی تدوین کی۔ اردو تحقیق کی معراج ، غالبیاتی تحقیق اور غالبیاتی تحقیق کی معراج میں دیوان غالب نسخہ عرشی کو کہتا ہوں۔ میں نے اپنے مقالے میں بتایا کہ کن اصولوں کی بنیاد پر انہوں نے تدوین کی۔ کون سے اصول متعارف کرائے اور کیا وہ خود ان اصولوں پر کاربند رہ سکے ہیں یا نہیں۔''محمد سعید کے خیال میں تحقیق میں آئیڈیل صورت حال ممکن بھی نہیں ہے، خصوصاً اردو میں۔ ''پاکستان میں اردو زبان و ادب کے بارے میں تحقیق کرنا ممکن نہیں کہ جس متن پر تحقیق کرنا ہوتی ہے وہ ملتا نہیں۔ لائبریریاں مسائل پیدا کرتی ہیں۔ قلمی نسخے حاصل کرنا عذاب ہے۔ کوئی ادارہ نہیں جو محققین کو سپورٹ کر سکے۔ پیٹ کاٹ کر تحقیق کرنا پڑتی ہے۔''

ڈاکٹریٹ کے لیے انہوں نے رشید حسن خان کی شخصیت و فن کو چنا ہے۔ رشید حسن خان کے بارے میں بتاتے ہیں،''تدوین میں رشید حسن خان جیسا کام اردو میں کسی نے نہیں کیا۔ رشید حسن خان سے دل چسپی ایم اے میں شروع ہوئی، جب اُن کی تدوین کردہ 'باغ وبہار' اور 'فسانہ عجائب' پڑھی۔ بنیادی طور پر وہ مدون ہیں۔ اپنے کام پر وہ سند ہیں۔ انھوں نے متنوع موضوعات پر کام کیا۔ کچھ کام وہ نہیں کرسکے ،کوشش ہے کہ ان موضوعات کو آگے لے کر چل سکوں ۔'' کون سے ایسے موضوعات ہیں؟ ''مثلاً علامہ اقبال کے کلام کی تدوین ہے۔ رشید حسن خان نے اس کام کا خاکہ بنایا تھا اور معروف ماہر اقبالیات رفیع الدین ہاشمی کے ساتھ مل کر تدوین کرنا چاہتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ اقبال جیسے شاعر کا معتبر اور مستندکلام موجود نہیں ہے۔ ''

رشید حسن خان کن اصولوں پر کلام اقبال کی تدوین چاہتے تھے ؟ ''جن اصولوں پر انہوں نے دوسرے متن مدون کئے، مثلاً منشائے مصنف کو ہر صورت ترجیح دینا۔ کتابت کی غلطیوں، ایک سے زیادہ بار شائع ہونے کی وجہ سے، الحاقی کلام شامل ہوجانے کی وجہ سے، مختلف پبلشرز کی وجہ سے متن میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے مختلف ایڈیشنوں کا مطالعہ کیا جائے، تو بہت سی چیزوں کی درستی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں اقبال کا جو کلام اقبال اکیڈمی نے چھاپا ہے ، وہ سب سے بہتر ہے لیکن رشید حسن خان کا اس موضوع پر مضمون پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی صحت کے ساتھ چھاپنے کی ضرورت ہے۔ غالب میرا پسندیدہ شاعر ہے۔ نسخہ عرشی پر کام کیا ہے۔


غالب نے اپنی اردو شاعری میں جتنے الفاظ استعمال کئے ہیں، ان کی ایک وضاحتی لغت وہ مرتب کرنا چاہتے تھے۔ کسی بھی اردو شاعر پر ایسا کام پہلے نہیں ہوا۔ غالب پر خان صاحب کا یہ ادھورا کام مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ تدوین میں رشید حسن خان کا مقدار اور معیار کے لحاظ سے سب سے بڑا نام ہے۔'' محمد طفیل کے نام مختلف ادیبوں کے خطوط گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ذخیرے کا حصہ بنے تو محمد سعید کو مرتب کرتے وقت مزا آیا اور احساس ہوا کہ تنقید اور تحقیق کی بہ نسبت اُن میں تدوین کی صلاحیت زیادہ ہے، اور اس کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ تدوین کے کام پر مرکوز کر لی۔

منٹو کے بارے میں کام کی بنیاد یوں پڑی کہ ''2005 میں منٹوکی وفات کو پچاس برس ہوئے، مجھے محمد حسن عسکری اور منٹو نے مل کر جو رسالہ 'اردو ادب' نکالا تھا، اس پر مضمون لکھنا پڑا، اس سلسلے میں منٹو صاحب کی زندگی میں چھپی تحریریں ڈھونڈ رہا تھا۔ بہت سے رسائل دیکھے، جن میں ایسی تحریریں دیکھیں، جو منٹو کی کتابوں میں شامل نہیں تھیں، تو انھیں فوٹو کاپی کرالیا۔ اس سے خیال پیدا ہوا ، ایسی اور بھی تحریریں ہوسکتی ہیں ، اپنی تلاش کا دائرہ وسیع کردیا، جس کا نتیجہ ہے کہ 'نوادرات منٹو' سامنے آگئی، جس میں طبع زاد افسانے، منظوم ترجمے اور مضامین شامل ہیں۔ زیر ترتیب مجموعے میں چار پانچ افسانے، آٹھ دس مضامین، تراجم، غیر مدون خطوط ہیں۔ فلمی رسالے 'ڈائریکٹر' میں بھی منٹو کی تحریریں چھپتی رہی ہیں۔ 51ء کا فائل مل گیا ہے، جس میں منٹو صاحب کے کچھ خاکے چھپے ہیں۔ دوسرے شمارے کہیں سے مل نہیں پائے۔ اُن کی تلاش جاری ہے۔ ''

ان کے بہ قول، منٹو کے کلیات کی ابھی تک تدوین نہیں ہوئی، جو کام ہوا ہے، اسے تدوین نہیں کہا جاسکتا۔ منٹو کی سب سے اچھی سوانح علی ثناء بخاری نے لکھی ہے، جو دراصل ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے۔ منٹو تک پہنچنا ہے، توسارے منٹوکو پڑھنا پڑے گا۔ افسانوں کی بنیاد پر منٹو کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے خاکے، مضامین اور ڈرامے سب ہی کو پڑھنا ضروری ہے۔ شمس الحق عثمانی، پورا منٹو کے نام سے یہ کام کررہے ہیں۔

دوران گفت گو احمد ندیم قاسمی کے منٹو کے نام لکھے گئے خطوط کا ذکر نکل آیا۔ اِس ضمن میں کہنا ہے،''ان خطوط کی مجھے تلاش رہی۔ منٹو کی صاحب زادی نصرت جلال منٹو سے کہا کہ ان خطوط کو تلاش کیا جانا چاہیے۔ وہ خطوط تو منٹو کے گھر میں ہونا چاہییں۔ اس پر نصرت جلال منٹو کا کہنا تھا کہ قاسمی صاحب جب منٹو کے اپنے نام خطوط چھاپنا چاہتے تھے، تو وہ امی سے اپنے خط یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ وہ اپنے اور منٹو کے خطوط کو اکٹھا چھاپنا چاہتے ہیں، لیکن وہ خط چھپے نہیں۔ قاسمی صاحب کا 2006 میں انتقال ہوا، تو اُس سارے عرصے میں وہ یہ خطوط چھاپنے سے محترز رہے۔''

خطوط شایع نہ کرنے کی ممکنہ وجہ وہ یوں بیان کرتے ہیں،''مجھے ایک چیز محسوس ہوئی، میرا مشاہدہ رہا ہے، اس بنیاد پر بڑے ادب سے گزارش کرتا ہوں کہ ہر ادیب کے ہاں ایک احساس تفاخرآہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب زندگی کے آخری برسوں میں جس اسٹیج پر تھے، اس میں مجھے اُن کا احساس تفاخر عروج پر نظر آیا۔ قاسمی صاحب کے ہاں مجھے منٹوکی فلمی وابستگی کو ہدف تنقید بنانے کے پیچھے منٹو کا ادبی مقام گھٹانے کی کوشش نظر آئی۔ منٹو کے قاسمی صاحب کے نام خطوط پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب کا نیازمندانہ سلسلہ بہت بڑھا ہوا ہے۔ 55ء میں منٹو صاحب گزر گئے، جس کے بعد قاسمی صاحب کو ایک لمبا دور ملا۔ اِس میں ان کی عزت اور شہرت بلند رہی۔ میرا خیال ہے کہ انھیں مناسب نہیں لگا کہ ایسے خطوط سامنے لائیں، جن میں نیازمندی نظر آتی تھی۔''

حالات زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ محمد سعید 19اپریل1976کو شیخوپورہ کے گاؤں جوہد میں پیدا ہوئے۔ والد منصب علی کاشت کار تھے۔ سال ڈیڑھ کے تھے، جب باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ دو تین سال بعد محمد سعید کے تایا سے اُن کی والدہ کی شادی ہوگئی۔ پرائمری، مڈل اور میٹرک کا امتحان دیہات کے مقامی اسکولوں سے کیا۔

انٹر اور گریجویشن شیخوپورہ ڈگری کالج سے کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا۔ ستمبر 99ء میں ایم اے کیا۔ 4 اکتوبر 99ء کو وہ گورنمنٹ کالج میں وزٹنگ اورکچھ مہینے بعد بہ طور لیکچرار مستقل ہوگئے۔ 12سال سے اِس تاریخی درس گاہ سے وابستہ محمد سعید اس وقت اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ تدریس میں وہ کہتے ہیں کہ اپنی مرضی سے آئے۔ زندگی بھر کسی اور شعبے میں نوکری کے لیے درخواست نہیں دی۔ محمد سعید کی دسمبر 2008 میں شادی ہوئی، جو ارینج تھی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ n
Load Next Story