نئی حکومت احتیاط سے کام کرے

ہماری اپوزیشن کے لیے دو ماہ کا عرصہ دو صدیوں کی طرح طویل لگ رہا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

نئی حکومت کو وجود میں آئے ہوئے مشکل سے دو ماہ ہورہے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں دو ماہ کا عرصہ دو منٹ کی حیثیت رکھتا ہے، ہماری اپوزیشن کے لیے دو ماہ کا عرصہ دو صدیوں کی طرح طویل لگ رہا ہے ہر طرف سے حکومت پر تنقید کے تیر برسائے جارہے ہیں اور ہمارا آزاد میڈیا اپوزیشن کی تنقید کو پہلی سرخی بناکر عوام کے ذہنوں کو حکومت کے خلاف سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری کلچر میں میڈیا آزاد ہوتا ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے لیکن میڈیا کے اکابرین اور لکھاریوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی کو نظر میں رکھ کر نئی دو ماہ کی حکومت پر تنقید کریں، ماضی کی حکومتوں نے دس سال میں جو کارنامے انجام دیے ملک بھر میں کرپشن کی ہے ، اس گند کے صاف کرنے میں دو ماہ تو کیا دو سال بھی کم ہیں۔

نئی حکومت میں نئے اور ناتجربہ کار لیکن ایماندار لوگ آئے ہیں۔ وہ سابقہ گند کو آہستہ آہستہ صاف کر رہے ہیں اور ایمانداری کے ساتھ ایک قومی جذبے کے ساتھ کام کررہے ہیں، کرپشن کے حوالے سے سابق حکومت کے کئی اکابرین نیب کی تحویل میں ہیں، نیب ایک اعلیٰ آزاد احتسابی ادارہ ہے اور اس کی طرف سے جن سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے اس کا الزام حکومت پر لگاکر اسمبلیوں کے اندر اور باہر سخت احتجاج کرنا جمہوریت کے منافی ہے۔

سابقہ حکومت کے اہم جگہوں پر بٹھائے ہوئے لوگوں یعنی بیورو کریسی، سابقہ حکومت کے خلاف جو انکشافات کررہی ہے اس کے تناظر میں حکومت کی طرف سے جو اقدامات کیے جارہے ہیں اس کا ذمے دار موجودہ حکومت کو ٹھہراکر احتجاج کے نام پر حکومت کی کارکردگی کی راہ میں روڑے اٹکانا کسی حوالے سے بھی جمہوریت نہیں کہلاسکتا۔

موجودہ حکومت نا تجربہ کار ہے نہ انتظامیہ پر ابھی اسے کنٹرول حاصل ہوسکا ہے ۔اس صورتحال میں بے بہا وسائل استعمال کرکے نئی حکومت کے لیے سخت مشکلات پیدا کرنا کسی طرح بھی جمہوریت کی تعریف میں نہیں آتا۔ ایسی دو ماہ کی حکومت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرنا خاندانی حکومت کے مفاد کی بات تو ہوسکتی ہے ، کسی طرح جمہوری رویہ، جمہوری روایت نہیں کہا جاسکتا۔


ہمارے ملک اور ملک کے عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ یہاں برسوں سے چند خاندان ہی اقتدار پر قابض ہیں اور اس طویل اقتدار کی وجہ سے اشرافیہ حکمرانوں کی یہ نفسیات بن گئی ہے کہ حکمرانی ان ہی کا حق ہے اس نام نہاد حق حکمرانی میں پہلی بار ایک مڈل کلاس حکومت نے کھنڈت ڈالی ہے ۔اشرافیہ اس مڈل کلاس حکمران کی حکمرانی میں زندہ رہنے کو اپنی توہین سمجھتی ہے، عشروں کی حکمرانی کی وجہ سے جمہوریت کو یرغمال بناکر ایک سکہ شاہی وجود میں لائی گئی ہے۔

اس سکہ شاہی کی جڑیں دولت کے پانی سے اس قدر مضبوط کردی گئی ہیں کہ مڈل کلاس کی دولت اور وسائل سے محروم نئی حکومت کے لیے اس اشرافیائی حکومت کی جڑیں کاٹنا آسان ہے۔ نئی حکومت کے اراکین حکومتی تجربات اور اس کے اسرار سے ناواقف ہیں اور دولت کے ترازو میں تلنے والے بھی نہیں۔ ان کمزوریوں کی وجہ سے نئی حکومت کا ماضی کی خرانٹ حکومت سے مقابلہ کرنا ایک مشکل ٹاسک ہے۔

نئی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت چلانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں سوائے کھربوں ڈالر قرض کے۔ قرض میں سر سے پیر تک ڈوبی ہوئی حکومت نئی حکومت کو ورثے میں ملی ہے ایسی مقروض حکومت عوام کو کیسے ریلیف دے سکتی ہے۔ قرض خواہ سر پر تلوار لیے کھڑے ہیں۔ ہر سال آٹھ ارب ڈالر قرض میں ادا کرنا ہے، قرض ادا کرنا لازمی ہے۔ حکومت آٹھ ارب ڈالر کا انتظام کرے یا عوام کو ریلیف دے؟

ڈالر کی قیمت کو آسمان پر پہنچادیاگیا ہے جس کی وجہ سے قرضوں میں خود بخود اربوں ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے ان مصائب سے نکلنے کے لیے حکومت کے پاس تیل اور گیس جیسی روز مرہ استعمال کی چیزوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ایک فطری بات ہے۔ اگر ماضی کی حکومت کھربوں نئی حکومت کو ورثے میں نہ دیتی اور نئی حکومت کو اس بد دیانتانہ قرض کی ادائیگی میں 8 ارب ڈالر سالانہ ادا نہ کرنا پڑتا تو یقینا نئی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوتی۔

تاہم نئی حکومت ایک غلطی کررہی ہے معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے ایسی اشیا پر ٹیکس لگارہی ہے جو عوام کو روز مرہ استعمال کی اشیا میں مثلاً گیس اور پٹرول ان چیزوں کی اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافے سے مہنگائی میں اضافہ لازمی ہے۔ ملک کا بچہ بچہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ مٹھی بھر اشرافیہ قوم کی 80 فی صد دولت پر قابض ہے اور بادشاہوں کی زندگی گزار رہی ہے یہ دولت عوام کی ہے اسے بد دیانت اشرافیہ کے قبضے سے نکالنا ایک جائز قومی ضرورت ہے۔

اشرافیہ اربوں کی قیمت کے محلوں میں رہتی ہے اربوں کی لگژری گاڑیوں میں سفر کرتی ہے، بیرونی دوروں پر کروڑوں عوامی سرمایہ خرچ کرتی ہے ان محلوں، ان قیمتی گاڑیوں اور اربوں کی عوامی دولت پر اگر ٹیکس لگادیا جائے تو اتنا سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے کہ پٹرول اورگیس جیسی عوامی ضرورتوں کی قیمتوں میں اضافے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر حکومت یہ جائز قدم نہیں اٹھاتی تو تاریخ گواہ ہے کہ ایسی معاشی نا انصافیوں کے خلاف آخر کار عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی ایک زندہ مثال انقلاب فرانس ہے۔ کیا ہماری اشرافیہ از خود عوامی دولت سے قبضہ چھوڑتی ہے یا انقلاب فرانس کا سامنا کرتی ہے۔
Load Next Story