حکومت عوام کو لازماً ریلیف دے
احتساب کی زد میں آنے کے خوف سے ہماری اشرافیہ غریب لوگوں حتیٰ کہ مرحومین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال رہی ہے۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن جیتنے کے بعد عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ وعدے اگرچہ حکومت کی نا اہلی سے نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پورے نہ ہوسکے لیکن عوام ان پیچیدہ مسائل کو کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے ان کا بس ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ نئی حکومت نے ہمیں کسی قسم کا کوئی ریلیف دینے کے بجائے ہم پر مہنگائی کے بوجھ لاد دیے ۔
غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہے، وہ اس راز سے واقف نہیں کہ ساری دنیا میں جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دیتی ہیں لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آمرانہ حکومتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں عوام کو ریلیف دیا۔ پرویز مشرف ایک فوجی آمر کہلاتے تھے لیکن ان کے دور حکومت میں آٹا 16 روپے کلو ملتا تھا۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال لازمی طور پر ذہن میں آتا ہے لیکن جس جمہوریت میں اس قسم کے سوالات کرنا بھی غیر جمہوری ہوجاتا ہے اس ملک کی جمہوریت پر عوام فاتحہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔
بہر حال اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ کسی فوجی حکومت کے دوران کرپشن کا کلچر اس قدر مضبوط نہ تھا جو جمہوری حکومتوں کے دوران پاکستان میں رہا ہے۔ دراصل عوام کی فلاح پر خرچ کیا جانے والا کھربوں روپے کرپشن کی نظر ہوجائے تو عوام کی فلاح کے لیے کیسے ہو۔ عوام چونکہ اس راز سے واقف نہیں ہوتے لہٰذا حکومت وقت سے ان کا گلہ غلط نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو اسے ترکے میں صرف کھربوں کا قرض ملا ۔ اس قرض کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 8 ارب ڈالر ہر سال قرضوں کے سود میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس ناگوار حقیقت سے ساری سیاسی پارٹیاں جن میں اپوزیشن بھی شامل ہے اچھی طرح واقف ہیں لیکن بڑی ڈھٹائی سے اپنی بدعنوانیوں کا ملبہ عمران حکومت پر ڈال رہی ہے، اس قسم کے الزام لگانے والوں میں مقدس لوگ بھی شامل ہیں۔ آخرت سے عوام کو ڈرانے والے کیا اپنی آخرت سے واقف نہیں؟
ہم عمران حکومت کے کسی رکن یا کارکن تک سے واقف نہیں، صرف اس جماعت کے رہنماؤں کے بیانات نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہماری اس حکومت سے ہمدردی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت برسر اقتدار آئی ہے ، جس کی پیشانی پر اشرافیہ کا دھبہ نہیں ہے نہ ابھی تک اس کے ہاتھ کرپشن کی سیاہی سے کالے ہوئے ہیں۔ جس روز اس حکومت کی پیشانی کرپشن کے سیاہ دھبوں سے آلودہ ہوگی، ہمارا قلم اسی طرح اس حکومت کے خلاف اٹھے گا جس طرح آج ماضی کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف اٹھ رہا ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں اگرچہ طبقاتی استحصالی نظام کو تو ختم نہیں کرسکیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا تحفہ ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوری حکومتیں اپنے منشورکے مطابق عوام کو ریلیف دے رہی ہیں۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہاجاتا ہے لیکن اس المیے کو کیا کہیں کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کارندوں کے ہاتھ بھی کرپشن سے سیاہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کرپشنسے بھرا ہوا ہے یہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے، یہ ہر سرمایہ دارانہ جمہوریت کا المیہ ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملک بھی اس سیاہی سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں صرف ایک ہی نظام ایسا آیا تھا جس کا دامن کرپشن کی کالک سے بچا ہوا تھا، اس کی بڑی اور اصل وجہ یہ تھی کہ اسی نظام میں نجی ملکیت کی وہ آزادی نہیں تھی جو سرمایہ دارانہ نظام میں قانونی اور آئینی طور پر جائز قرار دی جاتی ہے۔ اسی لا محدود حقِ ملکیت کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی دولت کا اسی فی صد حصہ دو فی صد سے کم اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتا ہے اور 98 فی صد عوام ساری زندگی دو وقت کی روٹی کے حصول کی جد وجہد میں گزارتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے لا محدود حق نجی ملکیت کے خلاف تحریک چلانی چاہیے جو غربت کی اصل وجہ ہے۔
بلاشبہ یہ دولت کی غلط تقسیم کا نتیجہ ہے جو پاکستان میں بھی غربت کی اصل وجہ ہے لیکن ہماری نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں بھی غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا راستہ نکالے۔ ہماری نئی حکومت کرپشن کے خلاف اقدامات کررہی ہے اگر صرف کرپٹ ایلیٹ سے اس کی ناجائز دولت واپس لے لی جائے تو ملک کے 21 کروڑ عوام غربت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ایک بھی بڑے مگرمچھ سے ابھی تک ناجائز دولت نہیں چھینی جاسکی، صرف کرپٹ اشرافیہ کے خلاف عدالتوں میں ریفرنسوں سے عوام کو تسلی دی جارہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے قانون میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں آدھی عمر گزر جاتی ہے اور ملزم آزادی سے اپنا کام چلاتا رہتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ احتساب کی زد میں آنے کے خوف سے ہماری اشرافیہ غریب لوگوں حتیٰ کہ مرحومین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال رہی ہے اور نکال رہی ہے کیونکہ احتسابیوں کی نظر مزدوروں، فالودہ بیچنے والوں کے اکاؤنٹس پر نہیں جاتی۔ ان سارے المناک حقائق کے باوجود حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ آٹا، گھی، تیل، سبزی، گوشت وغیرہ عام استعمال کی اشیاکی قیمتیں کم کرے، خواہ اس کے لیے فوری طور سے سبسڈی سے ہی کیوں کام چلانا پڑے، اس کے ساتھ لٹیروں سے ناجائز دولت حاصل کرنے میں قانون کو آڑے آنے نہ دے ۔
غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہے، وہ اس راز سے واقف نہیں کہ ساری دنیا میں جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دیتی ہیں لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آمرانہ حکومتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں عوام کو ریلیف دیا۔ پرویز مشرف ایک فوجی آمر کہلاتے تھے لیکن ان کے دور حکومت میں آٹا 16 روپے کلو ملتا تھا۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال لازمی طور پر ذہن میں آتا ہے لیکن جس جمہوریت میں اس قسم کے سوالات کرنا بھی غیر جمہوری ہوجاتا ہے اس ملک کی جمہوریت پر عوام فاتحہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔
بہر حال اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ کسی فوجی حکومت کے دوران کرپشن کا کلچر اس قدر مضبوط نہ تھا جو جمہوری حکومتوں کے دوران پاکستان میں رہا ہے۔ دراصل عوام کی فلاح پر خرچ کیا جانے والا کھربوں روپے کرپشن کی نظر ہوجائے تو عوام کی فلاح کے لیے کیسے ہو۔ عوام چونکہ اس راز سے واقف نہیں ہوتے لہٰذا حکومت وقت سے ان کا گلہ غلط نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو اسے ترکے میں صرف کھربوں کا قرض ملا ۔ اس قرض کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 8 ارب ڈالر ہر سال قرضوں کے سود میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس ناگوار حقیقت سے ساری سیاسی پارٹیاں جن میں اپوزیشن بھی شامل ہے اچھی طرح واقف ہیں لیکن بڑی ڈھٹائی سے اپنی بدعنوانیوں کا ملبہ عمران حکومت پر ڈال رہی ہے، اس قسم کے الزام لگانے والوں میں مقدس لوگ بھی شامل ہیں۔ آخرت سے عوام کو ڈرانے والے کیا اپنی آخرت سے واقف نہیں؟
ہم عمران حکومت کے کسی رکن یا کارکن تک سے واقف نہیں، صرف اس جماعت کے رہنماؤں کے بیانات نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہماری اس حکومت سے ہمدردی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت برسر اقتدار آئی ہے ، جس کی پیشانی پر اشرافیہ کا دھبہ نہیں ہے نہ ابھی تک اس کے ہاتھ کرپشن کی سیاہی سے کالے ہوئے ہیں۔ جس روز اس حکومت کی پیشانی کرپشن کے سیاہ دھبوں سے آلودہ ہوگی، ہمارا قلم اسی طرح اس حکومت کے خلاف اٹھے گا جس طرح آج ماضی کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف اٹھ رہا ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں اگرچہ طبقاتی استحصالی نظام کو تو ختم نہیں کرسکیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا تحفہ ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوری حکومتیں اپنے منشورکے مطابق عوام کو ریلیف دے رہی ہیں۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہاجاتا ہے لیکن اس المیے کو کیا کہیں کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کارندوں کے ہاتھ بھی کرپشن سے سیاہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کرپشنسے بھرا ہوا ہے یہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے، یہ ہر سرمایہ دارانہ جمہوریت کا المیہ ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملک بھی اس سیاہی سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں صرف ایک ہی نظام ایسا آیا تھا جس کا دامن کرپشن کی کالک سے بچا ہوا تھا، اس کی بڑی اور اصل وجہ یہ تھی کہ اسی نظام میں نجی ملکیت کی وہ آزادی نہیں تھی جو سرمایہ دارانہ نظام میں قانونی اور آئینی طور پر جائز قرار دی جاتی ہے۔ اسی لا محدود حقِ ملکیت کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی دولت کا اسی فی صد حصہ دو فی صد سے کم اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتا ہے اور 98 فی صد عوام ساری زندگی دو وقت کی روٹی کے حصول کی جد وجہد میں گزارتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے لا محدود حق نجی ملکیت کے خلاف تحریک چلانی چاہیے جو غربت کی اصل وجہ ہے۔
بلاشبہ یہ دولت کی غلط تقسیم کا نتیجہ ہے جو پاکستان میں بھی غربت کی اصل وجہ ہے لیکن ہماری نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں بھی غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا راستہ نکالے۔ ہماری نئی حکومت کرپشن کے خلاف اقدامات کررہی ہے اگر صرف کرپٹ ایلیٹ سے اس کی ناجائز دولت واپس لے لی جائے تو ملک کے 21 کروڑ عوام غربت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ایک بھی بڑے مگرمچھ سے ابھی تک ناجائز دولت نہیں چھینی جاسکی، صرف کرپٹ اشرافیہ کے خلاف عدالتوں میں ریفرنسوں سے عوام کو تسلی دی جارہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے قانون میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں آدھی عمر گزر جاتی ہے اور ملزم آزادی سے اپنا کام چلاتا رہتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ احتساب کی زد میں آنے کے خوف سے ہماری اشرافیہ غریب لوگوں حتیٰ کہ مرحومین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال رہی ہے اور نکال رہی ہے کیونکہ احتسابیوں کی نظر مزدوروں، فالودہ بیچنے والوں کے اکاؤنٹس پر نہیں جاتی۔ ان سارے المناک حقائق کے باوجود حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ آٹا، گھی، تیل، سبزی، گوشت وغیرہ عام استعمال کی اشیاکی قیمتیں کم کرے، خواہ اس کے لیے فوری طور سے سبسڈی سے ہی کیوں کام چلانا پڑے، اس کے ساتھ لٹیروں سے ناجائز دولت حاصل کرنے میں قانون کو آڑے آنے نہ دے ۔