سندھ حکومت کو الٹی میٹم

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سندھ حکومت کو ایک ماہ میں کراچی کے حالات بہتر بنانے کا وقت دیا ہے جسے ...

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سندھ حکومت کو ایک ماہ میں کراچی کے حالات بہتر بنانے کا وقت دیا ہے جسے وفاق کا صوبہ سندھ کو الٹی میٹم سمجھا گیا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یہ بہت ناگوار گزرا ہے جسے صدر کے پریس سیکریٹری فرحت اللہ بابر نے سندھ کے معاملے میں مداخلت اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کو ایسا الٹی میٹم بلوچستان حکومت کو بھی دینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اس سلسلے میں سینیٹ میں جو بیان دیا ہے اس پر ان کی اصول پرستی پر کئی سوالات اٹھے ہیں۔ انھیں پیپلز پارٹی میں ایک اصول پرست اور سلجھا ہوا رہنما سمجھا جاتا ہے مگر لگتا ہے کہ ان کے اصولوں کا معیار الگ الگ ہے۔ وہ پی پی کی حکومت میں اپنے خود ساختہ اصولوں پرکار بند رہے اور شاید من پسند عہدہ یا وزارت نہ ملنے پر وزارت سے مستعفی بھی ہوئے مگر انھوں نے اپنی حکومت میں وہ کچھ بولنا ضروری نہیں سمجھا جو وہ اب اپوزیشن میں بیٹھ کر بولنے لگے ہیں۔

انھوں نے حال ہی میں سینیٹ میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ایک غیر تصدیق شدہ بیان پر انھیں شہنشاہ قرار دیا ہے اور سندھ میں بدامنی کے وزیر داخلہ کے حقیقت پسندانہ بیان کو غیر آئینی اور سندھ میں مداخلت قرار دیا ہے۔آئینی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے کردار پر خود پیپلز پارٹی میں بھی کڑی تنقید ہوئی تھی اور ان کے خلاف اس وقت کے گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے سخت بیان دیا تھا۔

پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت میں رضا ربانی کو سینیٹ میں چیئرمین تو کیا قائد ایوان بھی نہیں بنایا تھا مگر حکومت ختم ہونے کے بعد انھیں پی پی نے سینیٹ میں اپنا پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے۔ پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ سندھ حکومت کو الٹی میٹم نہیں دے سکتے۔ اس سلسلے میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کے بیان کو سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھا جائے۔ کراچی میں روزانہ 15 سے 20 لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے اگر کراچی میں امن نہیں ہو گا تو پورا ملک مشکل میں ہو گا۔

یہ درست ہے کہ کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت گری، لسانی و فرقہ واریت اور بھتہ خوری حال ہی میں شروع نہیں ہوئی اور یہ سالوں سے نہیں بلکہ کئی عشروں سے ہو رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں اس میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ پی پی کی گزشتہ حکومت ایک مضبوط حکومت تھی جس کی سندھ میں اپوزیشن نہایت کمزور اور برائے نام تھی۔ سندھ حکومت کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں صدر مملکت اور وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل تھی۔


کراچی میں 85 فیصد نمایندگی کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی سندھ حکومت کی حلیف تھی اور فنکشنل لیگ و این پی پی بھی سندھ حکومت میں شامل تھیں مگر سندھ میں جان بوجھ کر ایسا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا گیا تھا جو مضبوط نہیں تھا اور مرحوم پیر پگاڑا نے بھی کہا تھا کہ سندھ میں نام کا ایک مگر عملی طور پر 4 وزرائے اعلیٰ ہیں جس کے نتیجے میں کراچی 5 سالوں میں شدید بدامنی کی لپیٹ میں رہا اور بھتہ خوری اس قدر بڑھی کہ تاجر اور صنعت کار بھی سڑکوں پر آ کر احتجاج پر مجبور ہوئے۔

ہڑتالیں ہوئیں، حکومتی حلیف متحدہ بھی بھتہ خوری پر شدید احتجاج کرتی رہی۔ بھتہ نہ دینے پر درجنوں تاجر قتل ہوئے، بھتہ خوری کے باعث کراچی کی صنعتیں دوسرے شہروں میں منتقل اور بند ہو گئیں مگر سندھ حکومت صرف زبانی طور پر دعوے ہی کرتی رہی اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا اور وفاقی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی رہی اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھی کراچی آ کر بڑے بڑے دعوے اور سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے مگر قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ روکی جا سکی اور نہ بھتہ خوری پر قابو پایا جا سکا اور رضا ربانی دیکھتے رہے۔ وجہ یہ تھی کہ بھتہ خوروں کی سر پرستی میں ساری پارٹیاں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف رہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ملٹری ونگز، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور موجود تھے کہ طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں نے کراچی میں مورچے سنبھال لیے۔

گزشتہ سندھ حکومت کے معاملات میں رحمٰن ملک ہی نہیں بابر اعوان اور دوسرے وزیر بھی مداخلت کرتے رہے مگر رضا ربانی، خورشید شاہ اور فرحت اللہ بابر نے کوئی اعتراض کیا نہ ہی کوئی دکھاوے کا بیان دیا۔

اب سندھ میں تو پی پی کی حکومت ہے مگر وفاق میں پی پی کی حکومت نہیں اور صدر زرداری بھی 3 ماہ کے مہمان رہ گئے ہیں۔ ملک کے جو حالات ہیں ان میں قوم سیاسی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وفاقی حکومت ایسا کرنا چاہتی ہے۔ ابھی کچھ ہوا نہیں۔ وزیر داخلہ نے بھی سندھ حکومت کو الٹی میٹم کی تردید کر دی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپوزیشن لیڈر کے بیان سے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کراچی میں امن کے قیام کے لیے سندھ کی حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت خود بھی سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بدامنی سے پریشان ہے اور وزیر اعظم نے اسی وجہ سے بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں بنوائی۔

یہ وہی نواز شریف ہیں جنہوں نے کراچی میں قتل و غارت گری اور بدامنی کے باعث اپنے ہی مسلم لیگی وزیر اعلیٰ کی حکومت ختم کی تھی اور اگر کراچی میں موجودہ بدامنی برقرار رہی تو وفاقی حکومت کب تک خاموش تماشائی بنی رہے گی اور کراچی کو بدامنی کی آگ میں جلنے کے لیے چھوڑ کر ملکی معیشت کی تباہی دیکھتی رہے گی؟ نئی وفاقی حکومت کے صرف 19 دنوں میں کراچی میں 3 ہڑتالیں اور پی پی حکومت میں متحدہ کے 3 ارکان اسمبلی قتل کیے جا چکے ہیں۔ اب سندھ میں پی پی کی تنہا حکومت ہے۔ متحدہ، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل اور پی ٹی آئی کب تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ دیکھتے رہیں گے؟ کراچی کے صنعت کار اور تاجر کب تک بھتہ دیتے رہیں گے؟ اور عشروں سے جاری کراچی کی یہ بدامنی کون روکے گا؟ پی پی کی سندھ حکومت اب تک اس سلسلے میں ناکام رہی ہے۔ سابق وفاقی حکومت نے تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت چند ماہ ہی برداشت کی تھی اور پنجاب میں گورنر راج لگا دیا تھا اور اس وقت اصول پرست میاں رضا ربانی اور دیگر پی پی رہنماؤں نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے اور اپنی حکومت کے غلط فیصلے پر کوئی احتجاج کیا تھا نہ بیان بازی کی تھی۔

ماضی میں پی پی دور میں ہی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں گورنر راج لگایا گیا تھا۔ گورنر راج غیر آئینی نہیں مگر اس کے امکان کو صرف اور صرف سندھ حکومت روک سکتی ہے اور اسے ہر حالت میں کراچی میں امن قائم کر کے دکھانا ہو گا اور کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ عناصر اور بھتہ خوروں کے خلاف کسی بھی سیاسی مفاد اور امتیاز کے بغیر کارروائی کر کے انھیں دیانت داری سے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گا وگرنہ پی پی رہنماؤں کی بیان بازی دھری رہ جائے گی۔
Load Next Story