کھیل کے میدان میں

شکیل فاروقی  منگل 20 نومبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر دور کے اپنے مخصوص تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے جس دور میں شعور کی آنکھ کھولی اس دور میں پڑھائی کو کھیل کود پر نمایاں ترجیح دی جاتی تھی۔ چنانچہ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہمارے کانوں نے اپنے بڑوں سے دو ہی الفاظ سنے، پڑھاکو اور کھلنڈرا۔ ہمارے بزرگ اکثر یہ شعر پڑھ کر پڑھائی لکھائی کی اہمیت پر زور دیا کرتے تھے:

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب

اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب معاملہ الٹ جائے گا اور کھلاڑی پڑھاکو کو میلوں کوسوں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔ آج کے دور میں کھلاڑیوں کو جس قدر عزت، شہرت اور دولت حاصل ہے پڑھاکو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بے چارے پڑھے لکھے ادھر ادھر تلاش معاش کے چکر میں خاک چھانتے اور بے کار دن بھر اپنی جوتیاں چٹخاتے ہوئے پھرتے ہیں۔ بقول میر صاحب:

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

پڑھے لکھوں کی ناقدری، درگت اور حالت زار کے حوالے سے بچپن میں اکثر سنے ہوئے ایک مشہور فلمی گانے کے یہ بول ہمیں یاد آرہے ہیں:

عیش کرلو دوستو کالج کی دیواروں میں

کل سے لکھے جاؤگے سب کے سب بیکاروں میں

کھلاڑی چند برسوں کے اندر جتنا زیادہ کما لیتا ہے، بڑے سے بڑا پڑھا لکھا عمر بھر کی محنت و مشقت کے بعد بھی شاید اتنا نہ کماسکے۔ دولت کی دیوی کے علاوہ شہرت و عزت کی دیوی اس پر الگ مہربان ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کو اپنے ملک کا سفیر بھی کہا جاتا ہے، جو ایک اضافی اعزاز ہے، گویا آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ جب کوئی کھلاڑی راستے سے گزر رہا ہوتا ہے تو لوگ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور چاہنے والے اس کے آٹوگراف لے کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کا نام دنیا بھر میں جتنا روشن کیا ہے اتنا شاید کسی اور نے نہیں کیا۔ یہ کھلاڑی ہماری آن، ہماری شان اور ہماری پہچان بن گئے ہیں۔ ہمارے ان مایہ ناز کھلاڑیوں کی یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ مختصر اور محدود کالم محض ان کے نام گنوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اس لیے صرف علامت یا مثال کے طور پر ہاکی کے حوالے سے اصلاح الدین ، سمیع اللہ ، کلیم اللہ،محمد حنیف ، اسکواش کے حوالے سے جہانگیر خان و جان شیر خان جب کہ کرکٹ کے حوالے سے عمران خان، جاوید میاں داد اور وسیم اکرم کے ناموں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ ناسپاسی اور ناانصافی ہوگی اگر وطن عزیز میں کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے ایئرمارشل نور خان (مرحوم) کا خاص طور پر تذکرہ نہ کیا جائے اور ان کی گراں قدر خدمات کو خراج تحسین نہ پیش کیا جائے۔ بے شک ان کا دور کھیلوں کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے روشن، سنہری اور یادگار دور تھا۔

واقعی ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے اور نور خان جیسے جوہری کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انھوں نے بیش قیمت ہیرے تلاشے بھی اور تراشے بھی۔ ان انمول ہیروں میں عمران خان کا نام سرفہرست ہے، جنھیں کرکٹ کے کھیل نے نہ صرف شہرت کے بام عروج تک بلکہ وزارت عظمیٰ کے بلند ترین منصب تک پہنچایا۔ عمران خان کے حوالے سے ہمیں بھارت کے نام ور کرکٹر سنیل گواسکر سے لیا گیا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جو ہم نے ریڈیو پاکستان سے بھارت کے لیے نشر ہونے والی ہندی سروس کے لیے اس وقت لیا تھا جب بھارت کی کرکٹ ٹیم ان کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر کراچی آئی ہوئی تھی۔ ہم نے سنیل گواسکر سے جب یہ سوال کیا کہ آپ کا آئیڈیل کون ہے؟ تو ان کا برجستہ جواب تھا ’’عمران خان‘‘۔ افسوس کہ گواسکر عمران خان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف برداری کی تقریب میں بوجوہ شرکت نہ کرسکے۔

گواسکر کے علاوہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ایک اور سابق کپتان کپل دیو بھی بوجوہ اس پروقار تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ تاہم بھارت کے مقبول کرکٹ اور ٹی وی اسٹار سردار نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی والہانہ شرکت سے ساری کمی اور کسر پوری کردی۔ انھوں نے اس موقع پر زبردست خیرسگالی کے جذبات کا اظہار بھی کیا جس پر مودی سرکار ان سے شدید ناراض ہوگئی لیکن سردار جی نے ڈٹ کر مودی سرکار اور اس کے انتہا پسند حامیوں کا خوب مقابلہ کیا۔

عمران خان آج اپنی زندگی کے جس نقطہ عروج پر ہیں وہ کرکٹ کے کھیل ہی کی بدولت ہے۔ کرکٹ ان کے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوا۔ کرکٹ کے کھیل کو وطن عزیز میں سب کھیلوں سے زیادہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہے۔ حالانکہ ہاکی اور اسکواش کے میدان میں بھی پاکستان کے کھلاڑی نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں بلکہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرچکے ہیں۔ لیکن بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کھیلوں کو وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے یہ مستحق ہیں۔

پاکستان ہاکی ایک مدت دراز سے شدید عدم توجہی کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ مسلسل زوال پذیر ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن شدید ترین مالی بحران کے گرداب میں اس حد تک پھنسی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں اور ٹیم کے سفری اخراجات برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایشین چیمپئنز ٹرافی فائنل میں حصہ لینے والے قومی ہاکی کھلاڑیوں کا معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاسکا۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت کے شہر بھونیشور میں 28 نومبر تا چھ دسمبر منعقد ہونے والے 14 ویں ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان ہاکی ٹیم کی شرکت کے اخراجات بھی ایک پرائیویٹ کمپنی نے اٹھانے کی پیشکش کی ہے ورنہ تو پاکستان ہاکی ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں شرکت بھی کھٹائی میں پڑ گئی ہوتی۔ ہاکی کے کھیل سے حکومت کی بے حسی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔

ایک دور وہ بھی تھا جب ہاکی کے میدان میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا اور پاکستان ہاکی کا پاور ہاؤس کہلاتا تھا۔ پاکستان کو چار مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس نے آخری ورلڈ کپ 1994 میں سڈنی میں جیتا تھا۔ پھر اس پر ایسا زوال آیا کہ وہ 2014 میں ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لیے بھی کوالیفائی نہ کرسکا۔ جرمنی میں 2006 میں منعقدہ ورلڈ کپ میں تو پاکستان ہاکی ٹیم کی کارکردگی حد سے زیادہ خراب اور مایوس کن تھی۔ پاکستان ہاکی کے زوال کی یہ المناک کہانی برسوں پرانی ہے۔

یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ پاکستان ہاکی کے چیف سلیکٹر اور مایہ ناز کھلاڑی اصلاح الدین بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں پرامید ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیم میں عالمی ٹائٹل جیتنے کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر ’’ہمارے کھلاڑی دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرا کر حیران کرسکتے ہیں‘‘ کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں اور ان میں وہ عقابی روح پھونک دی ہے جس کی جانب علامہ اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

ہماری ہاکی ٹیم کی ماضی کی کارکردگی قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے مقابلے میں زیادہ شاندار ہے کیونکہ ہماری کرکٹ ٹیم نے تو ورلڈ کپ صرف ایک بار جیتا تھا جب کہ ہماری ہاکی ٹیم چار مرتبہ ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔ لہٰذا ہماری عظیم کرکٹر وزیر اعظم عمران خان سے پرزور اپیل ہے کہ وہ قومی ہاکی کے ساتھ ہونے والے سوتیلے پن کے سلوک کو بلاتاخیر ختم کرائیں اور پی سی بی کی طرح پی ایچ ایف کے معاملات اور حالات بھی درست کروائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔