وہی معاشرہ زندہ ہے جس میں قلم کار زندہ ہے مقررین
سوال اٹھانا محال ہوتا جارہا ہے، واقعات کو دبانے سے حادثات جنم لیتے ہیں، شمیم حنفی ودیگرکا اْردو کانفرنس سے خطاب
مستنصرحسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف،رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید کی بھی شرکت۔ فوٹو: فائل
ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اور تسلسل کے ساتھ ہونے والی آرٹس کونسل کی گیارہویں عالمی اْردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب و نقاد شمیم حنفی نے اپنے مقالے میں کہا کہ وہی معاشرہ زندہ ہے جس میں قلم کار زندہ ہے۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر عباس نیئر نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہ سوال اٹھانا محال ہوتا جارہا ہے جبکہ مسیحاؤں کے انتظار میں ہمارے دن رات کٹتے جا رہے ہیں انھوں نے کہاکہ جہاں واقعات کو دبا دیا جاتا ہے تو وہاں وہ عفریت کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
قبل ازیں عالمی اْردو کانفرنس کے حوالے سے آرٹس کونسل کی جانب سے نویں اور دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں پر مرتب کتب کی رونمائی بھی کی گئی، افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے اراکین میں بھارت سے آئی ہوئی نور ظہیر، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی سمیت مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید اور دیگر شامل تھے۔
نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہیے، انور مقصود
آرٹس کونسل کی عالمی اْردو کانفرنس کے پہلے دن تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف مزاح نگار انور مقصود نے اپنی خوبصورت گفتگو سے محفل کو زعفرانِ زار بنا دیا، انھوں نے سب سے پہلے محمد احمد شاہ کو بھرپور مبارکباد پیش کی کہ انھوں نے عالمی اْردو کانفرنس کے تسلسل کو توڑا نہیں بلکہ یہ کامیابی کے ساتھ مستقل جاری ہے۔
انھوں نے کہاکہ اس اْردو عالمی اْردو کانفرنس کی وجہ سے ہر سال کانفرنس کا ایک سال کم ہوجاتا ہے مگر احمد شاہ کی صدارت کا ایک سال بڑھ جاتا ہے، انھوں نے کہاکہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کراچی کو جتنا وقت دیا ہے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جتنی محنت کی ہے اگر اتنا وقت اور محنت یہ کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے کرتے تو وہ کب کا بن چکا ہوتا، انہوں نے کہاکہ میں سوچ رہا ہوں کہ احمد شاہ پر کتاب لکھوں مگر اس کتاب کا عنوان کیا لکھوں یہ سمجھ نہیں آرہا، سوچتا ہوں کہ کتاب کا نام رموزِ احمد شاہ، تذکرہِ احمد شاہ، نذرِ احمد شاہ، یادگارِ احمد شاہ یا تلاشِ احمد شاہ نام رکھوںاگر کتاب کا نام تلاشِ احمد شاہ لکھوں تو یہ کتاب مجھے اور احمد شاہ کی بیگم کو مل کرلکھنا پڑے گی۔
اس موقع پرانور مقصود نے اپنی گفتگو میں معروف شاعر جون ایلیا کا بھی تذکرہ کیا اور ازراہِ تفنن بتایا کہ جون ایلیا کو میں بھائی جون کہا کرتا تھا تو وہ مجھ سے کہتے کہ تم مجھے بھائی جون مت کہا کرو صرف جون کہا کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے آپ بھی مجھے انور مقصود صاحب کہا کریں، ایک نظر انھوں نے مجھے دیکھا اور کہنے لگے کہ میں تمہارے گھر بیٹھا ہوں اگر اپنے گھر میں ہوتا تو رکشے میں چلا جاتا۔ میرے گھر جب وہ آئے تو اپنی جیب سے دو ہلکے ہلکے گلاس نکالے اور کہنے لگے تمہارے گھر کے گلاس بہت بھاری ہیں لڑکیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
انور مقصود نے جون ایلیا کا حلیہ بتاتے ہوئے کہاکہ ان کے بال وبال، سرآشفتہ، آنکھیں منتظر، دماغ شہرِ جمال، صحت خواب و خیال، قدآور، ہاتھ قلم، غصہ لبریز ، دل پیمانہ، دور سے دیکھو تو مسئلہ، مردوں کی محفل میں پرسکون اور عورتوں کی محفل میں پھدکتا افلاطون، اس موقع پر انور مقصود نے ازارہِ تفنن تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جون ایلیا کا مرنے کے بعد انھیں خط موصول ہوا ہے جس میں وہ مجھے لکھتے ہیں کہ جانی، جہاں اب میں ہوں وہاں بجلی نہیں ہے صرف ایمان کی روشنی ہے، یہاں کئی شاعر اور کئی ادیب موجود ہیں ہم اکثر یہاں مشاعرے کی محفل بھی سجاتے ہیں۔
ایک بار جب مشاعرے کی محفل سجائی گئی تو غالب کی شاعری پر میر نے واہ کہا تو میں نے میر سے کہا کہ آپ نے غالب کی شاعری پر واہ کہا ہے تو وہ کہنے لگے کہ میری کمر میں درد ہے میں آہ کہنا چاہ رہا تھا مگر منہ سے واہ نکل گیا، ہمارے پاس مشتاق احمد یوسفی بھی آچکے ہیں یوسفی صاحب کو دیکھ کر حوریں بھی مسکرا رہی ہیں یوسفی صاحب اپنے گوشے میں رہنے کے بجائے کسی شاعرہ کے گھر مقیم ہیں، ایک دن جب مشاعرہ منعقد کیاگیا تو ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی میں نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو غالب نے کہاکہ میر کو پکڑ کر رکھو ہوا تیز چل رہی ہے۔
مشاعرے میں میر اور غالب کے پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ تم بھی اپنے اشعار سنا تو میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ غالب اور میر کے بعد میں کچھ سناؤں تو وہ کہنے لگے کہ تم پیدا بھی تو ہمارے بعد ہوئے تھے، جون ایلیا نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ جو ملک میں چھوڑ کر آیا ہوں وہاں بہادر بہت ہیں مگر بہادروں کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔
میری ملاقات یہاں فیض احمد فیض سے بھی ہوئی، فیض مجھ سے کہنے لگے کہ پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے، میں نے کہا ہاں پہلے لاہور میں جشن بہاراں ہوتا تھا اب فیض میلہ ہورہا ہے، انھوں نے کہاکہ میں سیاسی تبدیلی کی بات کررہا ہوں ، نیا پاکستان صرف اسی طرح بن سکتا ہے کہ تم اپنے وزیراعظم عمران خان کو کہو کہ پرانے پاکستان کو ملک ریاض کو بیچ دے ، نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہیے، جون ایلیا نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہر بڑے سیاستدان کے لیے اچھا بے ایمان ہونا ضروری ہے مگر عمران چونکہ ایماندار ہے اسی لیے مشکل میں ہے۔
جون ایلیا نے گفتگو کو شاعری بنا دیا تھا، پیرزادہ قاسم
آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اْردو کانفرنس کے پہلے دن دوسرے اجلاس میں معروف شاعر جون ایلیا کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔
جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ دْنیا بھر میں جہاں جہاں اْردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں جون ایلیا کو بہت اچھی طرح جانا اور پہچانا جاتا ہے دْنیا بھر میں شعر وادب میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جون ایلیا کو بہت زیادہ پڑھ رہے ہیں، جون ایلیا کے اشعار زندگی کے معاملات کے ساتھ ساتھ براہِ راست دل پر اثر کرنے والے ہیں، جون ایلیا چونکہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے لہٰذا انھوں نے جو تراجم کیے ہیں وہ ان کی شخصیت کو ایک عالمانہ شان کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جون ایلیا نے درحقیقت گفتگو کو شاعری بنادیا تھا۔
معروف ادیب شکیل عادل زادہ نے کہاکہ جون ایلیا کی نثر پر بھی توجہ دینی چاہیے، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ''سمندر کے کنارے تجارت فروغ پاتی ہے اور دریا کے کنارے تہذیب'' ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ''جہالیت کو ہمارے سماج میں جتنی رعایت دی گئی ہے شاید اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی''، اقبال حیدر نے کہاکہ میر تقی میر کے اسلوب کا نمائندہ شاعر جون ایلیا ہے۔
جون ایلیا تک پہنچے اور انہیں سمجھنے کے لیے کھلے ذہن کی ضرورت ہے،شاہد رسام نے کہاکہ جون ایلیا کی ذات کے کئی رنگ ہیں جون ایلیا کا کینوس بہت وسیع ہے، عباس نقوی نے کہاکہ جون ایلیا بہت اچھے پرفارمر تھے، یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کے اشعار کو خوبصورت انداز میں پڑھا اور سامعین سے داد وصول کی۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر عباس نیئر نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہ سوال اٹھانا محال ہوتا جارہا ہے جبکہ مسیحاؤں کے انتظار میں ہمارے دن رات کٹتے جا رہے ہیں انھوں نے کہاکہ جہاں واقعات کو دبا دیا جاتا ہے تو وہاں وہ عفریت کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
قبل ازیں عالمی اْردو کانفرنس کے حوالے سے آرٹس کونسل کی جانب سے نویں اور دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں پر مرتب کتب کی رونمائی بھی کی گئی، افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے اراکین میں بھارت سے آئی ہوئی نور ظہیر، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی سمیت مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید اور دیگر شامل تھے۔
نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہیے، انور مقصود
آرٹس کونسل کی عالمی اْردو کانفرنس کے پہلے دن تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف مزاح نگار انور مقصود نے اپنی خوبصورت گفتگو سے محفل کو زعفرانِ زار بنا دیا، انھوں نے سب سے پہلے محمد احمد شاہ کو بھرپور مبارکباد پیش کی کہ انھوں نے عالمی اْردو کانفرنس کے تسلسل کو توڑا نہیں بلکہ یہ کامیابی کے ساتھ مستقل جاری ہے۔
انھوں نے کہاکہ اس اْردو عالمی اْردو کانفرنس کی وجہ سے ہر سال کانفرنس کا ایک سال کم ہوجاتا ہے مگر احمد شاہ کی صدارت کا ایک سال بڑھ جاتا ہے، انھوں نے کہاکہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کراچی کو جتنا وقت دیا ہے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جتنی محنت کی ہے اگر اتنا وقت اور محنت یہ کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے کرتے تو وہ کب کا بن چکا ہوتا، انہوں نے کہاکہ میں سوچ رہا ہوں کہ احمد شاہ پر کتاب لکھوں مگر اس کتاب کا عنوان کیا لکھوں یہ سمجھ نہیں آرہا، سوچتا ہوں کہ کتاب کا نام رموزِ احمد شاہ، تذکرہِ احمد شاہ، نذرِ احمد شاہ، یادگارِ احمد شاہ یا تلاشِ احمد شاہ نام رکھوںاگر کتاب کا نام تلاشِ احمد شاہ لکھوں تو یہ کتاب مجھے اور احمد شاہ کی بیگم کو مل کرلکھنا پڑے گی۔
اس موقع پرانور مقصود نے اپنی گفتگو میں معروف شاعر جون ایلیا کا بھی تذکرہ کیا اور ازراہِ تفنن بتایا کہ جون ایلیا کو میں بھائی جون کہا کرتا تھا تو وہ مجھ سے کہتے کہ تم مجھے بھائی جون مت کہا کرو صرف جون کہا کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے آپ بھی مجھے انور مقصود صاحب کہا کریں، ایک نظر انھوں نے مجھے دیکھا اور کہنے لگے کہ میں تمہارے گھر بیٹھا ہوں اگر اپنے گھر میں ہوتا تو رکشے میں چلا جاتا۔ میرے گھر جب وہ آئے تو اپنی جیب سے دو ہلکے ہلکے گلاس نکالے اور کہنے لگے تمہارے گھر کے گلاس بہت بھاری ہیں لڑکیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
انور مقصود نے جون ایلیا کا حلیہ بتاتے ہوئے کہاکہ ان کے بال وبال، سرآشفتہ، آنکھیں منتظر، دماغ شہرِ جمال، صحت خواب و خیال، قدآور، ہاتھ قلم، غصہ لبریز ، دل پیمانہ، دور سے دیکھو تو مسئلہ، مردوں کی محفل میں پرسکون اور عورتوں کی محفل میں پھدکتا افلاطون، اس موقع پر انور مقصود نے ازارہِ تفنن تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جون ایلیا کا مرنے کے بعد انھیں خط موصول ہوا ہے جس میں وہ مجھے لکھتے ہیں کہ جانی، جہاں اب میں ہوں وہاں بجلی نہیں ہے صرف ایمان کی روشنی ہے، یہاں کئی شاعر اور کئی ادیب موجود ہیں ہم اکثر یہاں مشاعرے کی محفل بھی سجاتے ہیں۔
ایک بار جب مشاعرے کی محفل سجائی گئی تو غالب کی شاعری پر میر نے واہ کہا تو میں نے میر سے کہا کہ آپ نے غالب کی شاعری پر واہ کہا ہے تو وہ کہنے لگے کہ میری کمر میں درد ہے میں آہ کہنا چاہ رہا تھا مگر منہ سے واہ نکل گیا، ہمارے پاس مشتاق احمد یوسفی بھی آچکے ہیں یوسفی صاحب کو دیکھ کر حوریں بھی مسکرا رہی ہیں یوسفی صاحب اپنے گوشے میں رہنے کے بجائے کسی شاعرہ کے گھر مقیم ہیں، ایک دن جب مشاعرہ منعقد کیاگیا تو ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی میں نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو غالب نے کہاکہ میر کو پکڑ کر رکھو ہوا تیز چل رہی ہے۔
مشاعرے میں میر اور غالب کے پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ تم بھی اپنے اشعار سنا تو میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ غالب اور میر کے بعد میں کچھ سناؤں تو وہ کہنے لگے کہ تم پیدا بھی تو ہمارے بعد ہوئے تھے، جون ایلیا نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ جو ملک میں چھوڑ کر آیا ہوں وہاں بہادر بہت ہیں مگر بہادروں کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔
میری ملاقات یہاں فیض احمد فیض سے بھی ہوئی، فیض مجھ سے کہنے لگے کہ پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے، میں نے کہا ہاں پہلے لاہور میں جشن بہاراں ہوتا تھا اب فیض میلہ ہورہا ہے، انھوں نے کہاکہ میں سیاسی تبدیلی کی بات کررہا ہوں ، نیا پاکستان صرف اسی طرح بن سکتا ہے کہ تم اپنے وزیراعظم عمران خان کو کہو کہ پرانے پاکستان کو ملک ریاض کو بیچ دے ، نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہیے، جون ایلیا نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہر بڑے سیاستدان کے لیے اچھا بے ایمان ہونا ضروری ہے مگر عمران چونکہ ایماندار ہے اسی لیے مشکل میں ہے۔
جون ایلیا نے گفتگو کو شاعری بنا دیا تھا، پیرزادہ قاسم
آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اْردو کانفرنس کے پہلے دن دوسرے اجلاس میں معروف شاعر جون ایلیا کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔
جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ دْنیا بھر میں جہاں جہاں اْردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں جون ایلیا کو بہت اچھی طرح جانا اور پہچانا جاتا ہے دْنیا بھر میں شعر وادب میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جون ایلیا کو بہت زیادہ پڑھ رہے ہیں، جون ایلیا کے اشعار زندگی کے معاملات کے ساتھ ساتھ براہِ راست دل پر اثر کرنے والے ہیں، جون ایلیا چونکہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے لہٰذا انھوں نے جو تراجم کیے ہیں وہ ان کی شخصیت کو ایک عالمانہ شان کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جون ایلیا نے درحقیقت گفتگو کو شاعری بنادیا تھا۔
معروف ادیب شکیل عادل زادہ نے کہاکہ جون ایلیا کی نثر پر بھی توجہ دینی چاہیے، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ''سمندر کے کنارے تجارت فروغ پاتی ہے اور دریا کے کنارے تہذیب'' ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ''جہالیت کو ہمارے سماج میں جتنی رعایت دی گئی ہے شاید اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی''، اقبال حیدر نے کہاکہ میر تقی میر کے اسلوب کا نمائندہ شاعر جون ایلیا ہے۔
جون ایلیا تک پہنچے اور انہیں سمجھنے کے لیے کھلے ذہن کی ضرورت ہے،شاہد رسام نے کہاکہ جون ایلیا کی ذات کے کئی رنگ ہیں جون ایلیا کا کینوس بہت وسیع ہے، عباس نقوی نے کہاکہ جون ایلیا بہت اچھے پرفارمر تھے، یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کے اشعار کو خوبصورت انداز میں پڑھا اور سامعین سے داد وصول کی۔