کرپشن اور رشوت میں فرق
غریب آدمی کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتی ہے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
رضا ربانی کا شمار سنجیدہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے ، صلح کل مزاج کے آدمی ہیں ، اس لیے ان کے تعلقات ہر سیاستدان ہر جماعت سے خوشگوار ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد کرپٹ ہے، ان کی بات سو فیصد درست ہے لیکن وہ اگر یہ وضاحت کردیتے کہ کرپشن معاشرے کا ناگزیر حصہ تو بن گئی ہے لیکن عام آدمی اور خاص آدمی کی کرپشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عام آدمی اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے اور اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے رشوت لے لیتا ہے ۔
غریب آدمی کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتی ہے، اگر غریب آدمی کی آمدنی سے اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تو غریب آدمی کے لیے کرپشن کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن ہم غریب آدمی کی کرپشن کے حوالے سے کتنی ہی حمایت کریں برائی برائی ہی رہتی ہے خواہ وہ غریب آدمی کرے یا امیر آدمی کرے، البتہ اس حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے کہ غریب آدمی کی کرپشن اور امیر آدمی کی کرپشن میں کیا فرق ہے؟
جیسا کہ ہم نے وضاحت کردی ہے غریب آدمی کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہوتی ہے، مثلاً ایک غریب آدمی کی آمدنی یعنی تنخواہ یا اجرت اتنی نہیں ہوتی کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرسکے تو وہ اگر موقع ملے تو چھوٹی سی کرپشن کا ارتکاب کرکے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلیتا ہے، اسے ہم کرپشن کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ یہ کرپشن معاشی ناانصافی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کرپشن کو غریب آدمی کی جائز ضرورتیں جائز طریقوں سے پورا کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایسے غریب آدمی اگر بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کسی تھوڑی سی کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایسی کرپشن دولت کے ارتکاز کا ذریعہ نہیں بنتی۔ ہمارے ملک میں کروڑوں ایسے لوگ ہیں جنھیں معمولی کرپشن یعنی رشوت لینے کا سرے سے موقع ہی نہیں ملتا۔ مثلاً ہمارے ملک میں 6 کروڑ سے زیادہ مزدور ہیں جن کا تعلق فارمل یا انفارمل شعبوں سے ہے ان غریب مزدوروں کا سارا وقت اپنی ڈیوٹی کے انجام دینے میں گزر جاتا ہے اگر یہ مزدور اپنے کام میں ذرا تساہل برتتے ہیں تو جابر یا نگران ان کے کان کھینچتا ہے ۔
دن بھر محنت کرنے کے بعد یہ طبقہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ کرپشن کے بارے میں سوچے وہ کسی چھوٹی یا بڑی کرپشن کے بارے میں اس لیے سوچتا بھی نہیں کہ اس کام کے لیے سرے سے مواقعے ہی حاصل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہماری زرعی معیشت سے جڑا ہاری اور کسان ہے جو اندھیرے میں گھر سے نکل کر وڈیروں کی زمینوں پر پہنچ جاتا ہے اور رات کے اندھیرے میں تھکا ماندہ اپنے گھر پہنچتا ہے ،یہ دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہے جسے کرپشن کا سرے سے پتا ہی نہیں ہوتا وہ تو بس اتنا جانتا ہے کہ صبح منہ اندھیرے سے رات تک وڈیروں کے کھیتوں پر کام کرنا ہی اس کا مقدر ہے وہ اسی پر قانع ہوتا ہے یہ طبقات نہ کرپشن سے واقف ہوتے ہیں نہ کرپشن کے ارتکاب کے انھیں مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان اپنا سارا وقت روٹی کے حصول میں لگاتے ہیں اور روٹی کا حصول ہی ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب طبقات میں بھی کرپٹ لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی کرپشن اربوں کھربوں میں ہوتی ہے نہ ارتکاز زر کا ذریعہ بنتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے اور محکمہ پولیس کے لوگوں کو عام آدمی کے چھوٹے موٹے کام کرنے یا کرانے کا موقع ملتا ہے جس کا وہ سو پچاس ہزار دو ہزار معاوضہ یا رشوت لیتے ہیں لیکن یہ رشوت نہ کروڑوں میں ہوتی ہے نہ اربوں میں بس اتنی ہوتی ہے کہ گھر کا کام چلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے پاکستان کے چھ کروڑ مزدور اور دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں کو سارا دن روٹی کے لیے محنت کرنا پڑتا ہے انھیں کرپشن کا نہ وقت ملتا ہے نہ موقع۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہوگا وہاں کرپشن ہوگی لیکن اس کرپشن کا تعلق ارتکاز زر سے ہے جس کا مشاہدہ ہم آج پاکستان میں کر رہے ہیں اور ہر سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے ملک میں دیکھ سکتے ہیں آج ہمارے ملک میں سیاستدانوں پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات میں عدالتوں اور احتسابی اداروں میں کیسز چل رہے ہیں۔ میڈیا کرپشن کی ان داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ان میں اکثریت منتخب نمایندوں کی ہے جو قانون ساز اداروں میں رونق افروز ہیں۔ یہ ہے ہماری جمہوریت اور اسی جمہوریت کے تحفظ میں سیاستدان جان لڑانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے یہ عاشقین جمہوریت کے محافظ ہیں یا کرپشن کے؟
یہ جان لیوا اور غریب طبقات کی دشمن بیماری صرف اشرافیہ کو لاحق ہے اور اشرافیہ تک ہی محدود ہے ۔ غریب طبقات مزدور اور کسان رات دن محنت کرکے دولت کے جو انبار لگاتے ہیں وہ کرپشن کے ذریعے اشرافیہ کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ غریب محنت کرنے کے باوجود اپنی محنت کی کمائی سے محروم رہتا ہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع اس لیے ہوا کہ وڈیرے اور جاگیردار سیاست اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اب اقتدار اشرافیہ کے قبضے سے نکل گیا ہے اور اشرافیہ کی لوٹ مار کے اندرون ملک اور بیرون ملک کھربوں روپوں کا پتا چل رہا ہے کھربوں روپوں کے مالک آج احتساب کی زد میں ہیں اور اپنے کردہ گناہوں سے بچنے کے لیے اسی جمہوریت کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان عوام دشمن کرپٹ طبقات کی لوٹ مار کا ذریعہ بنی رہی۔
رضا ربانی کا شمار ملک کے سنجیدہ اور بردبار سیاستدانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد کرپٹ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو تو سرے سے کرپشن کے مواقعے ہی حاصل نہیں اور غریب طبقات اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اگر موقع ملے تو چھوٹی موٹی جو رشوت لے لیتے ہیں اسے کرپشن نہیں کہا جاسکتا۔ کرپشن کا نظارہ آج ملک کے 21 کروڑ عوام اشرافیہ کے ملکی بیرون ملک بینکوں اور اربوں کی جائیدادوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
غریب آدمی کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتی ہے، اگر غریب آدمی کی آمدنی سے اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تو غریب آدمی کے لیے کرپشن کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن ہم غریب آدمی کی کرپشن کے حوالے سے کتنی ہی حمایت کریں برائی برائی ہی رہتی ہے خواہ وہ غریب آدمی کرے یا امیر آدمی کرے، البتہ اس حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے کہ غریب آدمی کی کرپشن اور امیر آدمی کی کرپشن میں کیا فرق ہے؟
جیسا کہ ہم نے وضاحت کردی ہے غریب آدمی کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہوتی ہے، مثلاً ایک غریب آدمی کی آمدنی یعنی تنخواہ یا اجرت اتنی نہیں ہوتی کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرسکے تو وہ اگر موقع ملے تو چھوٹی سی کرپشن کا ارتکاب کرکے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلیتا ہے، اسے ہم کرپشن کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ یہ کرپشن معاشی ناانصافی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کرپشن کو غریب آدمی کی جائز ضرورتیں جائز طریقوں سے پورا کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایسے غریب آدمی اگر بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کسی تھوڑی سی کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایسی کرپشن دولت کے ارتکاز کا ذریعہ نہیں بنتی۔ ہمارے ملک میں کروڑوں ایسے لوگ ہیں جنھیں معمولی کرپشن یعنی رشوت لینے کا سرے سے موقع ہی نہیں ملتا۔ مثلاً ہمارے ملک میں 6 کروڑ سے زیادہ مزدور ہیں جن کا تعلق فارمل یا انفارمل شعبوں سے ہے ان غریب مزدوروں کا سارا وقت اپنی ڈیوٹی کے انجام دینے میں گزر جاتا ہے اگر یہ مزدور اپنے کام میں ذرا تساہل برتتے ہیں تو جابر یا نگران ان کے کان کھینچتا ہے ۔
دن بھر محنت کرنے کے بعد یہ طبقہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ کرپشن کے بارے میں سوچے وہ کسی چھوٹی یا بڑی کرپشن کے بارے میں اس لیے سوچتا بھی نہیں کہ اس کام کے لیے سرے سے مواقعے ہی حاصل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہماری زرعی معیشت سے جڑا ہاری اور کسان ہے جو اندھیرے میں گھر سے نکل کر وڈیروں کی زمینوں پر پہنچ جاتا ہے اور رات کے اندھیرے میں تھکا ماندہ اپنے گھر پہنچتا ہے ،یہ دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہے جسے کرپشن کا سرے سے پتا ہی نہیں ہوتا وہ تو بس اتنا جانتا ہے کہ صبح منہ اندھیرے سے رات تک وڈیروں کے کھیتوں پر کام کرنا ہی اس کا مقدر ہے وہ اسی پر قانع ہوتا ہے یہ طبقات نہ کرپشن سے واقف ہوتے ہیں نہ کرپشن کے ارتکاب کے انھیں مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان اپنا سارا وقت روٹی کے حصول میں لگاتے ہیں اور روٹی کا حصول ہی ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب طبقات میں بھی کرپٹ لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی کرپشن اربوں کھربوں میں ہوتی ہے نہ ارتکاز زر کا ذریعہ بنتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے اور محکمہ پولیس کے لوگوں کو عام آدمی کے چھوٹے موٹے کام کرنے یا کرانے کا موقع ملتا ہے جس کا وہ سو پچاس ہزار دو ہزار معاوضہ یا رشوت لیتے ہیں لیکن یہ رشوت نہ کروڑوں میں ہوتی ہے نہ اربوں میں بس اتنی ہوتی ہے کہ گھر کا کام چلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے پاکستان کے چھ کروڑ مزدور اور دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں کو سارا دن روٹی کے لیے محنت کرنا پڑتا ہے انھیں کرپشن کا نہ وقت ملتا ہے نہ موقع۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہوگا وہاں کرپشن ہوگی لیکن اس کرپشن کا تعلق ارتکاز زر سے ہے جس کا مشاہدہ ہم آج پاکستان میں کر رہے ہیں اور ہر سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے ملک میں دیکھ سکتے ہیں آج ہمارے ملک میں سیاستدانوں پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات میں عدالتوں اور احتسابی اداروں میں کیسز چل رہے ہیں۔ میڈیا کرپشن کی ان داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ان میں اکثریت منتخب نمایندوں کی ہے جو قانون ساز اداروں میں رونق افروز ہیں۔ یہ ہے ہماری جمہوریت اور اسی جمہوریت کے تحفظ میں سیاستدان جان لڑانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے یہ عاشقین جمہوریت کے محافظ ہیں یا کرپشن کے؟
یہ جان لیوا اور غریب طبقات کی دشمن بیماری صرف اشرافیہ کو لاحق ہے اور اشرافیہ تک ہی محدود ہے ۔ غریب طبقات مزدور اور کسان رات دن محنت کرکے دولت کے جو انبار لگاتے ہیں وہ کرپشن کے ذریعے اشرافیہ کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ غریب محنت کرنے کے باوجود اپنی محنت کی کمائی سے محروم رہتا ہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع اس لیے ہوا کہ وڈیرے اور جاگیردار سیاست اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اب اقتدار اشرافیہ کے قبضے سے نکل گیا ہے اور اشرافیہ کی لوٹ مار کے اندرون ملک اور بیرون ملک کھربوں روپوں کا پتا چل رہا ہے کھربوں روپوں کے مالک آج احتساب کی زد میں ہیں اور اپنے کردہ گناہوں سے بچنے کے لیے اسی جمہوریت کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان عوام دشمن کرپٹ طبقات کی لوٹ مار کا ذریعہ بنی رہی۔
رضا ربانی کا شمار ملک کے سنجیدہ اور بردبار سیاستدانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد کرپٹ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو تو سرے سے کرپشن کے مواقعے ہی حاصل نہیں اور غریب طبقات اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اگر موقع ملے تو چھوٹی موٹی جو رشوت لے لیتے ہیں اسے کرپشن نہیں کہا جاسکتا۔ کرپشن کا نظارہ آج ملک کے 21 کروڑ عوام اشرافیہ کے ملکی بیرون ملک بینکوں اور اربوں کی جائیدادوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔