مولانا بھاشانی مرحوم اور مزدور

مولانا بھاشانی ان دنوں اپنی آتشیں تقاریر کی وجہ سے مزدوروں میں بہت مقبول تھے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

یہ غالباً 1968 کی بات ہے مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان سے کراچی آئے تھے اور نیپ کے سینئر رہنما مسیح الرحمن کے گھر بلوچ کالونی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم تقریباً روز ہی مولانا سے ملتے تھے اور سیاسی مسائل خصوصاً مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن دوست مسیح الرحمن کے گھر بیٹھے ان سے گفتگو کررہے تھے کہ اچانک مولانا نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا کل لانڈھی میں مزدوروں کا جلسہ کرا سکتے ہو۔

اس فرمائشی سوال پر ہم سٹپٹاگئے کیونکہ اس وقت تک لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں ہماری تنظیم متحدہ مزدور فیڈریشن کا کوئی یونٹ نہیں تھا لیکن ان کی فرمائش کو پورا کرنا بھی ضروری تھا۔ سو ہم نے حامی بھرلی، وہ بہت خوش ہوئے، ہم نیشنل عوامی پارٹی میں شامل تھے جس کا دفتر غالباً منگھوپیر کے علاقے میں تھا۔ ہمارے قریبی دوستوں میں علاؤ الدین عباسی، وحید صدیقی، کنیز فاطمہ وغیرہ شامل تھے۔

ہم نے فوری انھیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ دوست کچھ پریشان ہوئے کہ لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے مزدوروں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن طے یہ ہوا کہ دوسرے دن 7 بجے ہم ایک ملز کے گیٹ پر کھڑے ہوکر مزدوروں کو بھاشانی صاحب کی خواہش سے آگاہ کریںگے۔ سو دوسرے دن ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملز کے گیٹ پر موجود تھے۔ جنرل شفٹ کے مزدور ملز کے باہر کام پر جانے کے لیے کھڑے تھے۔ علاؤالدین عباسی مرحوم کی گاڑی کی چھت پر کھڑے ہوکر دوستوں سے تقاریر شروع کردیں۔

مولانا بھاشانی ان دنوں اپنی آتشیں تقاریر کی وجہ سے مزدوروں میں بہت مقبول تھے۔ ایوب خان کی حکومت کے مظالم سے مزدور بہت مشتعل تھے جب مزدوروں کو بتایاگیا کہ کل مولانا بھاشانی لانڈھی آئیںگے اور مزدوروں سے خطاب کریںگے تو مزدوروں کا جوش دیدنی تھا۔ فضا بھاشانی زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی، جنرل شفٹ کے مزدور ملز میں داخل ہوئے ملز بند کرادی گئی اور یہاں سے مزدور جلوس کی شکل میں ملیں اور کارخانے بند کراتے ہوئے ہزاروں مزدوروں کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچے۔ جلسے کا بڑا میدان جسے 89 کا میدان کہاجاتا تھا پچاس ہزار مزدوروں سے اٹ گیا تھا۔

ہم نے جلسے کو پرکشش بنانے کے لیے معروف شعرا جون ایلیا، سعید رضا سعید وغیرہ کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی، اس زمانے میں سعید رضا سعید کی نظم ''سائیگاں سے منگھوپیر تلک'' مزدوروں میں بہت مقبول تھی۔ مولانا بھاشانی کی صدارت میں جلسے کا آغاز ہوا۔ سعید رضا کی نظم سائیگاں سے منگھوپیر تلک پر 50 ہزار مزدور جھوم اٹھے اور امریکی سامراج مردہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ پھر جون ایلیان کے کلام نے مزدوروں میں بیداری کی لہر پیدا کردی، پچاس ہزار مزدوروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر بھاشانی صاحب جھوم اٹھے۔ جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے بھاشانی مزدوروں میں بہت مقبول تھے۔

امریکا نے سوشلزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کے لیے پسماندہ ملکوں کو بھاری امداد دینی شروع کی تھی۔ ایوب خان نے اس امریکی امداد سے ملک میں صنعتوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا اور کراچی سمیت ملک بھر میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ لیکن امریکی سامراج نے ایوب خان کو اس شرط پر امداد دی تھی کہ مزدوروں اور ٹریڈ یونین کو دباکر رکھا جائے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب خان کے دور سے صنعتی ترقی کا آغاز ہوا لیکن مالکان نے مزدوروں کو اس طرح کچل کر رکھ دیا کہ ان کی تنظیمیں سخت دباؤ کا شکار ہوکر رہ گئیں یعنی ملز مالکان نے ملوں کے اندر پرائیویٹ جیلیں بنادیں جہاں مالکان کی حکم عدولی پر سزائیں دے کر ان پرائیویٹ جیلوں میں رکھا جاتا تھا۔ مزدوروں کے اندر مالکان کے اس ظلم کے خلاف اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا۔

جب 1972 میں بھٹو برسر اقتدار آئے تو یہ لاوا پھٹ پڑا، ہر طرف ہڑتالیں، مطالبات، جلسے جلوس کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ کل تک مزدوروں کو غلام بناکر رکھنے والے مالکان کا حال یہ ہوا کہ وہ مزدور یونینوں کی اجازت کے بغیر اپنی ملوں میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ ایوب اور یحییٰ کے دور میں مزدوروں پر ظلم کرنے والے افسران گلوں میں رسی ڈال کر انھیں ملوں میں گھسیٹا جانے لگا، یہ ان مالکان کے خلاف مزدوروں کا رد عمل تھا جو کل تک چنگیز خان بنے ہوئے تھے۔

لیکن مزدوروں نے ایک غلطی کی کہ وہ مالکان کے ظلم کے رد عمل میں ہڑتالیں وغیرہ تو کرتے رہے مزدوروں کو منظم کرنے، ان میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جس کا نتیجتاً یہ نکلا کہ مزدور کسان راج کے نعرے دینے والے بھٹو کے دور میں ٹریڈ یونین ختم کردی گئی اور سیکڑوں مزدوروں اور رہنماؤں کو لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ ٹریڈ یونین نہ بن سکی۔

آج پچاس سال بعد یہ باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ بھٹو کے دور کے مقابلے میں آج مزدور طبقے کا حال اس حد تک برا ہے کہ کوئی مزدور ٹریڈ یونین کا نام نہیں لے سکتا۔ جو مزدور ٹریڈ یونین کا نام لیتا ہے، اسے کان پکڑ کر ملز سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ مالکان نے مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دینے سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام نافذ کردیا ہے، اس نظام میں مزدور ملز یا کارخانے کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ ٹھیکیدار کا ملازم ہوتا ہے، مزدور کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے۔ نہ اجرتیں مزدوروں کو ملوں کی طرف سے ملتی ہیں۔ ٹھیکیدار ہی مزدوروں کی اجرتیں مقرر کرتا ہے۔

ظلم کا یہ سلسلہ اب مزدوروں سے آگے وائٹ کالر اداروں حتیٰ کہ صحافیوں تک پہنچ گیا ہے، یہ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ مزدوروں کو وہ حقوق بھی نہیں دیے جارہے ہیں جس کے وہ قانوناً حق دار ہیں اور حیرت یہ ہے کہ وائٹ کالر جن میں صحافی بھی شامل ہیں، اس نا انصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھارہے ہیں، یہ ہیں طبقاتی نظام کے وہ مظالم جس کا رکھوالا سرمایہ دارانہ نظام ہے، ہمارے پڑوسی بھارت میں مزدور طبقات نسبتاً تنظیم ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جد وجہد کرتے ہیں۔

آج کل ملک میں جو حکومت ہے جو عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کی دعویدار ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر مزدور طبقے کو اس کے قانونی حقوق نہ دیے گئے اور مزدوروں کے سر سے ٹھیکیداری نظام کا پتھر نہیں ہٹایا گیا تو حالات 1972 جیسے نہ ہوجائیں کہ مالکان کو مزدوروں کی اجازت لے کر اپنی ملوں میں آنا پڑے۔
Load Next Story