مزدور کو حصے دار ہونا چاہیے
اس استحصالی نظام کے خلاف عوامی بغاوت روئی کی طرح اندر ہی اندر پھیل رہی ہے۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
انسان ذرا غور سے اپنے اردگرد نظر ڈالے تو ظلم اور ناانصافی کے ایسے ایسے منظر نظر آتے ہیں کہ بے حس سے بے حس انسان بھی مشتعل ہوجاتا ہے لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ جن کو ان مناظر سے مشتعل ہونا چاہیے وہ نظریں جھکائے گزر جاتا ہے۔ دنیا میں انسان نے صدیوں کے مشاہدات اور محسوسات کے بعد زندہ رہنے کے جو اصول بنائے ہیں ، ان میں انصاف کا پہلو سرے سے نظر نہیں آتا۔ اس مسئلے پر غورکرنے سے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ کیا انصاف ہے؟ کیا ناانصافی ہے؟ مثلاً ایک صنعت کو لے لیں اس میں تین بنیادی عوامل ہوتے ہیں۔ ایک سرمایہ، دوسرا محنت، تیسرا منافع۔ اس مسئلے پر غور کرتے وقت اس نظام کو لازماً پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، جس نظام میں ہم رہ رہے ہیں۔
مثلاً سرمایہ دارانہ نظام میں انصاف اور ناانصافی کا تعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس نظام میں انصاف اور ناانصافی کا تعین کرنے کا اختیارکس کے پاس ہے؟ صنعتی شعبے میں پیداوارکے تین عوامل ہوتے ہیں، وہی سرمایہ، محنت، انتظامیہ۔ ان تینوں عوامل میں سرمایہ فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے حالانکہ پیداوارکا اصلی اور حقیقی عامل محنت ہی ہوتی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی صنعت سے ہوتا ہے۔ سرمایہ اس کی حفاظت کے بغیر ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ اپنی حفاظت خود نہیں کرتا، اس کا سلسلہ کسی فیکٹری کسی ریاست تک دراز رہتا ہے۔ اس پورے نامنصفانہ نظام کو انصاف کے دائرے میں لانے کے لیے ایک بہت پھیلا ہوا قانون اور انصاف کا نظام بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس طویل نظام پر نظر ڈالیں پہلے اس حقیقت پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انصاف اور ناانصافی کا معیار کیا ہے۔
ایک کارخانے میں سو مزدورکام کرتے ہیں، ان کی اجتماعی محنت سے ایک دن میں پانچ کروڑکی پیداوار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پانچ کروڑ روپوں میں تقسیم کا کیا طریقہ ہو؟ مزدورکو اپنی اجرت طے کرنے کا کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا۔ مزدور کی اجرت کے تعین کا پورا اختیارمالک یعنی سرمایہ دارکو ہوتا ہے۔ مالک مزدوروں کو مشکل سے اپنے منافعے کا 10 فیصد دیتا ہے ، باقی نوے فیصد منافع مختلف ناموں سے خود لے لیتا ہے، اس ناانصافی یا کھلے استحصال کا کوئی پوچھنے والا نہیں جس کا نتیجہ مزدوروں کے اقتصادی استحصال کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، یہ استحصال کسی ایک ملز یا کارخانے میں نہیں ہوتا بلکہ جہاں مزدور اور سرمایہ دار ہوگا وہاں لازماً یہ استحصال ہوگا جس کو روکنا اس نظام میں تو ممکن نہیں اور اس اقتصادی ظلم کو اس وقت تک روکا نہیں جاتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مالکان کو منافعے کے تعین کا اختیار ہے تو مزدور کو اپنی اجرت یا تنخواہ کے تعین کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟
پاکستان میں فارمل اور انفارمل مزدور طبقے کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے، یہ ساڑھے چھ کروڑ مزدور انتہائی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ میڈیا کے مطابق ہر سال بھوک سے لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں غریب علاج سے محرومی کی وجہ سے موت کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں، ہر سال لاکھوں حاملہ خواتین مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ کیا کوئی ایک سرمایہ دار بھوک، بیماری سے جان سے جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب سرمایہ دارانہ استحصال ہے جنگوں میں موت کا شکار ہونے والے بھی غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ وہ ایک ساتھ ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا قتل عام کھلے عام نظر آتا ہے۔ مزدور ایک ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مارے نہیں جاتے بلکہ ایک ایک کرکے بھوک بیماریوں کا شکار ہوکر موت کی وادی میں اترتے جاتے ہیں لہٰذا ان کی موت عوام اور خواص کی نظر میں نہیں آتی ۔ ایک ریڈی ریفرنس کے طور پر سندھ میں تھرپارکرکی مثال دی جاسکتی ہے جہاں بھوک سے اب تک سیکڑوں معصوم بچے جان سے جا چکے ہیں۔
جب میڈیا میں ان المیوں کی خبریں آتی ہیں تو حکمران طبقات انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے فرماتے ہیں کہ بچے بھوک سے نہیں، بیماری سے فوت ہو رہے ہیں۔ دنیا میں سوائے کینسر کے کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ کیا تھر میں موت کا شکار ہونے والے ہزاروں بچے کینسرکا شکار ہوکر مر رہے ہیں؟ تو پھر وہ کون سی بیماری ہے جو تھرکے ہزاروں معصوم بچوں کو کھا چکی ہے اور اب بھی کھا رہی ہے؟ لیکن حکمران طبقات کو اس المیے کی کوئی پرواہ نہیں وہ اپنی عیش وعشرت کی دنیا میں کھویا ہوا ہے جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے یہ کھلے ظلم جاری رہیں گے حکمران صفائی پیش کرتے رہیں گے کہ تھر کے بچے بھوک سے نہیں بیماری سے موت کا شکار ہو رہے ہیں ۔
دو سو سال کے لگ بھگ بعد اس ظالمانہ نظام کے خلاف مارکیز اور اینجلز نے سوشلزم کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا جو دنیا کے عوام میں اس تیزی سے مقبول ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام اور ان کے خالقوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ کیونکہ اس نظام نے نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے لوٹ مار اور استحصال کے پرکاٹ دیے تھے۔ اب نہ کوئی غریب عوام اور مزدوروں کو بے تحاشا لوٹ سکتا تھا نہ غریب عوام بھوک بیماری سے موت کے منہ میں جاسکتے تھے۔
یہ انسانی تاریخ کا ایسا ظالمانہ نظام ہے جو بالادست طبقات کو اربوں کھربوں روپوں کی لوٹ مارکے مواقعے فراہم کرتا ہے اور عوام کے عتاب کو ریاستی طاقت سے کچل دیتا ہے، لیکن اس استحصالی نظام کے خلاف عوامی بغاوت روئی کی طرح اندر ہی اندر پھیل رہی ہے جب یہ آگ بھڑک اٹھے گی تو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم کو جلا دے گی۔
مثلاً سرمایہ دارانہ نظام میں انصاف اور ناانصافی کا تعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس نظام میں انصاف اور ناانصافی کا تعین کرنے کا اختیارکس کے پاس ہے؟ صنعتی شعبے میں پیداوارکے تین عوامل ہوتے ہیں، وہی سرمایہ، محنت، انتظامیہ۔ ان تینوں عوامل میں سرمایہ فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے حالانکہ پیداوارکا اصلی اور حقیقی عامل محنت ہی ہوتی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی صنعت سے ہوتا ہے۔ سرمایہ اس کی حفاظت کے بغیر ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ اپنی حفاظت خود نہیں کرتا، اس کا سلسلہ کسی فیکٹری کسی ریاست تک دراز رہتا ہے۔ اس پورے نامنصفانہ نظام کو انصاف کے دائرے میں لانے کے لیے ایک بہت پھیلا ہوا قانون اور انصاف کا نظام بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس طویل نظام پر نظر ڈالیں پہلے اس حقیقت پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انصاف اور ناانصافی کا معیار کیا ہے۔
ایک کارخانے میں سو مزدورکام کرتے ہیں، ان کی اجتماعی محنت سے ایک دن میں پانچ کروڑکی پیداوار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پانچ کروڑ روپوں میں تقسیم کا کیا طریقہ ہو؟ مزدورکو اپنی اجرت طے کرنے کا کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا۔ مزدور کی اجرت کے تعین کا پورا اختیارمالک یعنی سرمایہ دارکو ہوتا ہے۔ مالک مزدوروں کو مشکل سے اپنے منافعے کا 10 فیصد دیتا ہے ، باقی نوے فیصد منافع مختلف ناموں سے خود لے لیتا ہے، اس ناانصافی یا کھلے استحصال کا کوئی پوچھنے والا نہیں جس کا نتیجہ مزدوروں کے اقتصادی استحصال کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، یہ استحصال کسی ایک ملز یا کارخانے میں نہیں ہوتا بلکہ جہاں مزدور اور سرمایہ دار ہوگا وہاں لازماً یہ استحصال ہوگا جس کو روکنا اس نظام میں تو ممکن نہیں اور اس اقتصادی ظلم کو اس وقت تک روکا نہیں جاتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مالکان کو منافعے کے تعین کا اختیار ہے تو مزدور کو اپنی اجرت یا تنخواہ کے تعین کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟
پاکستان میں فارمل اور انفارمل مزدور طبقے کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے، یہ ساڑھے چھ کروڑ مزدور انتہائی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ میڈیا کے مطابق ہر سال بھوک سے لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں غریب علاج سے محرومی کی وجہ سے موت کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں، ہر سال لاکھوں حاملہ خواتین مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ کیا کوئی ایک سرمایہ دار بھوک، بیماری سے جان سے جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب سرمایہ دارانہ استحصال ہے جنگوں میں موت کا شکار ہونے والے بھی غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ وہ ایک ساتھ ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا قتل عام کھلے عام نظر آتا ہے۔ مزدور ایک ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مارے نہیں جاتے بلکہ ایک ایک کرکے بھوک بیماریوں کا شکار ہوکر موت کی وادی میں اترتے جاتے ہیں لہٰذا ان کی موت عوام اور خواص کی نظر میں نہیں آتی ۔ ایک ریڈی ریفرنس کے طور پر سندھ میں تھرپارکرکی مثال دی جاسکتی ہے جہاں بھوک سے اب تک سیکڑوں معصوم بچے جان سے جا چکے ہیں۔
جب میڈیا میں ان المیوں کی خبریں آتی ہیں تو حکمران طبقات انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے فرماتے ہیں کہ بچے بھوک سے نہیں، بیماری سے فوت ہو رہے ہیں۔ دنیا میں سوائے کینسر کے کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ کیا تھر میں موت کا شکار ہونے والے ہزاروں بچے کینسرکا شکار ہوکر مر رہے ہیں؟ تو پھر وہ کون سی بیماری ہے جو تھرکے ہزاروں معصوم بچوں کو کھا چکی ہے اور اب بھی کھا رہی ہے؟ لیکن حکمران طبقات کو اس المیے کی کوئی پرواہ نہیں وہ اپنی عیش وعشرت کی دنیا میں کھویا ہوا ہے جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے یہ کھلے ظلم جاری رہیں گے حکمران صفائی پیش کرتے رہیں گے کہ تھر کے بچے بھوک سے نہیں بیماری سے موت کا شکار ہو رہے ہیں ۔
دو سو سال کے لگ بھگ بعد اس ظالمانہ نظام کے خلاف مارکیز اور اینجلز نے سوشلزم کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا جو دنیا کے عوام میں اس تیزی سے مقبول ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام اور ان کے خالقوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ کیونکہ اس نظام نے نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے لوٹ مار اور استحصال کے پرکاٹ دیے تھے۔ اب نہ کوئی غریب عوام اور مزدوروں کو بے تحاشا لوٹ سکتا تھا نہ غریب عوام بھوک بیماری سے موت کے منہ میں جاسکتے تھے۔
یہ انسانی تاریخ کا ایسا ظالمانہ نظام ہے جو بالادست طبقات کو اربوں کھربوں روپوں کی لوٹ مارکے مواقعے فراہم کرتا ہے اور عوام کے عتاب کو ریاستی طاقت سے کچل دیتا ہے، لیکن اس استحصالی نظام کے خلاف عوامی بغاوت روئی کی طرح اندر ہی اندر پھیل رہی ہے جب یہ آگ بھڑک اٹھے گی تو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم کو جلا دے گی۔