عوام کو گمراہ کیا جا سکتا ہے

حکومت کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ حکومت نا اہل ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان میں ان گنت قلم کار دہائیوں سے پاکستان پر کرپٹ اشرافیہ کا قبضہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے کچھ تحفظات کے باوجود عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر خوش ہیں، اس کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی طرح تو اشرافیائی قبضہ ختم ہوا اور ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا شخص اقتدار میں آیا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام جو دہائیوں سے مسائل کی بھٹی میں جل رہے تھے، آج خوش ہیں کہ کرپٹ مافیا سے ان کی جان چھوٹ گئی، اس کے ساتھ ساتھ عوام یہ امید بھی کر رہے ہیں کہ حکومت انھیں ان کے مسائل سے نجات دلائے گی، جو تین نسلوں سے وہ جھیل رہے ہیں۔ عوام کی حکومت سے یہ امید تو سو فی صد بجا ہے لیکن عوام کو ان عذابوں پر نظر ڈالنا چاہیے جو اشرافیائی حکومت ان کے لیے چھوڑ گئی ہے۔

ان عذابوں میں سب سے بڑا عذاب اربوں ڈالر کا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے جس کا صرف سود سالانہ آٹھ ارب ڈالر ہے جس کی ادائیگی کے لیے وزیراعظم عمران خان مختلف دوست ملکوں کے دورے کر رہے ہیں۔ ہماری دریافت اشرافیہ میں ذرا برابر بھی انسانیت ہوتی تو وہ ان کا شکریہ ادا کرتی کہ وہ سابقہ حکومتوں کے عیاشیوں میں اڑائے ہوئے اربوں ڈالر دوست ملکوں سے لے کر سابقہ مہربانوں کے لیے ہوئے قرض ادا کر رہی ہے لیکن وہ شکریہ ادا کرنے کے بجائے کہہ رہی ہے کہ عمران خان دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ اس قسم کے بے ہودہ الزامات کا عوام نوٹس لے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اگرچہ سیاست کو بے آبرو بنا کر رکھ دیا گیا ہے لیکن وہ یہ لوگ جو سیاست کو سر بازار رسوا کر رہے تھے اب ان کے ہاتھ کسی حد تک بندھے ہوئے ہیں کہ ریاستی طاقت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے، لیکن ہمارے سروں پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام نے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کو بے آبرو کر کے رکھ دیا ہے۔

سعودی عرب کے 3 ارب ڈالر یقینا سود ادا کرنے میں استعمال ہوںگے لیکن اصل مسئلہ جس کا عوام سے تعلق ہے یہ ہے کہ جس منڈی کی معیشت کی بخشی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھرکر دیا ہے اس پر کس طرح قابو پایا جائے۔ حکومت کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ گھس کر سارے مسائل حل کرے جو بھی حکومت ہوتی یہی کرتی کہ ٹیکسوں اور بعض اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کیا کر سکتی ہے، سابقہ حکومتیں تو ہر کام لوٹ مار میں اضافے کے لیے کرتی آ رہی تھیں یہ حکومت ملک کو اشرافیہ کے کھائے ہوئے قرضے اتارنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔


حکومت کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ حکومت نا اہل ہے وہ مسائل سے نمٹنا نہیں جانتی عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے۔

حکومت پورے خلوص سے عوام کے مسائل حل کرنے، خاص طور پر مہنگائی میں کمی کرنے اور ٹیکسوں کو حد سے نہ بڑھنے دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن منافع مافیا جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیدوار ہے اسے نہ عوام کی پرواہ ہے نہ ملک کی وہ عوام کو ہر حال میں دونوں ہاتھوں سے لوٹنا چاہتی ہے وہ اس وقت تک اس عادت بد سے باز نہیں آئے گی جب تک اس کے ساتھ سختی نہ کی جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ تاجر مافیا کے علاوہ متعلقہ ادارے بھی منافع مافیا کے ساتھ شراکت دارکے طور پر سر گرم رہتے ہیں۔ حکومت کے ذمے دار حلقوں کے علم میں یہ حقیقت ہونا چاہیے کہ اگر حکومت منافع خوری کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کارروائیاں نہیں کرتی تو یہ مافیا بھی عوام کو چین لینے نہیں دے گی۔

اس حوالے سے عوام کو اس افسوسناک اورکھلی حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ سیاسی اشرافیہ ہر قیمت پر عمران حکومت کو جس قدر جلد ممکن ہو فارغ کرنا چاہتی ہے، اگر کرپشن کے کیس میں اشرافیہ پھنسی ہوئی نہ ہوتی تو یقینا اب تک لنکا ڈھا چکی ہوتی۔ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز برائے فروخت ہوتی ہے چونکہ اشرافیہ اربوں کھربوں کی مالک ہے، اس کے لیے ووٹ، وفاداری، دین دھرم سمیت ضرورت کی ہر چیز خریدنا کوئی مشکل نہیں، اگر اشرافیہ عدالتی الجھنوں میں مصروف نہ ہوتی تو اب تک کتنی ہی وفاداریاں خرید کر حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیتی ۔

سندھ میں سیاسی طاقت بٹی ہوئی ہے اس لیے ہماری اشرافیہ یہاں نقب نہیں لگا پا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگرچہ تحریک انصاف موجود ہے لیکن وہاں پیسہ استعمال ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں خرید و فروخت کی فضا بنتی ہے۔ اصل مسئلہ پنجاب کا ہے۔ پنجاب میں اشرافیہ کی جڑیں بہت مضبوط ہیں جب کہ بیورو کریسی میں بھی اشرافیہ بہت مضبوط ہے پنجاب کی بیورو کریسی کے مصدقہ اراکین کے رشتے اور تعلق حکمرانوں سے کس قدر قریبی ہیں اور ان قریبی تعلقات سے فائدہ اٹھاکر بیورو کریسی نے پنجاب میں اپنے قدم کس قدر مضبوطی سے جمائے ہیں اس کا اندازہ حالیہ پکڑ دھکڑ سے لگایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story