عبادات و معاملات

ہمیں اپنے حقوق اس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک ہم اپنے فرائض ادا نہیں کرلیتے۔

ہمیں اپنے حقوق اس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک ہم اپنے فرائض ادا نہیں کرلیتے۔ فوٹو : فائل

عبد کو اپنے معبود کی عبادت کرنا ہی ہوتی ہے، بہ رضا و رغبت یا بادل نہ خواستہ۔ کیوں کہ یہی اس کی زندگی کا مقصد اور یہی اس کی کام یاب زندگی کی ضمانت ہے۔

انسانی فریضوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ ان کی جزا و اجرت یا معاوضہ و محنتانہ جلد یا بدیر یہیں اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ کچھ فرائض ایسے ہیں کہ جن کا بدلہ اس زندگی میں نہیں بل کہ آنے والی زندگی میں دیا جا ئے گا۔ کچھ فریضے ایسے ہیں کہ جن کا تعلق بہ راہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ ان فریضوں میں سے اگر خدا نہ خواستہ کوئی فرض چھوٹ بھی جائے گا تو اللہ رب العالمین کی رحمت سے پوری امید ہے کہ ہمیں معاف کردیا جائے گا۔

کچھ فریضے ایسے بھی ہیں کہ جن کا تعلق اللہ کے کنبے یعنی اس کی مخلوق سے ہے۔ اس مخلوق میں صرف انسان ہی نہیں، بل کہ دیگر تمام مخلوقات بھی شامل ہیں۔ چاہے وہ جانور ہوں، حشرات الارض ہوں، پرندے ہوں یا جمادات و نباتات۔ سب اسی کی مخلوق ہیں، اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور یہ سب مخلوقات اسے بہت عزیز ہیں۔ اس ساری مخلوقات کا اسے بہت زیادہ احساس اور دھیان ہے۔ تمام کائناتیں اس کی توجہ اور تصرف میں ہیں۔ سب چیزیں اس کے احاطۂ قدرت و رحمت میں ہیں۔ تمام کائناتیں اس کے فضل کے حصار میں ہیں۔ ہر مخلوق اس کے کرم کی مرہون منت ہے۔ عبادت کا مقصد یہ ہے کہ حق ِ بندگی ادا ہو، مالک راضی ہوجائے، زندگی گزارنے کا طریقہ، سلیقہ اور ڈھنگ آجائے اور ہمارے پیارے راہ و راہ نما ﷺ خوش ہوجائیں۔


عبادت کا ثواب یہ ہے کہ اس دنیا میں اطمینان ِ قلب نصیب ہو، آخرت میں انعام کے طور پر جنت میں ساقی کوثرؐ کی قربت نصیب ہوجائے۔ عبادت کا سواد یہ ہے کہ جس طرح نماز میں صفیں برابر اور سیدھی ہوتی ہیں، اسی طرح عام زندگی میں بھی وہی اتفاق و اتحاد، اخوت و محبت، خلوص و یگانگت اور مساوات و بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے، احساس ِتعلق پیدا ہو، خلوص ِ نیت، عاجزی و وقار نصیب ہو، سپاہیانہ جلال اور خاکسارانہ تمکنت حاصل ہو، ہمہ وقت خود کو حالت ِ نماز میں محسوس کریں۔ ایک نماز سے دوسری نماز تک کا سارا وقفہ نماز کو قائم کرنے میں کوشاں و مصروف ہوں۔

عبادت کا مقصد کہاں تک پورا ہوتا ہے اور عبادت کا ثواب کتنا ملے گا؟ یہ کوئی کیسے جان سکتا ہے؟ البتہ تیسری بات جو نماز کے لطف کی ہے۔ یہ مقصد کہاں تک پورا ہوتا ہے، اس بات کا اندازہ ہم اپنی روزمرہ زندگی سے لگا سکتے ہیں۔

اگر آپ کے دل میں دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا، اگر کسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کا احساس نہیں جاگتا، اگر کسی کی خاطر کچھ کر گزرنے کی تڑپ نہیں ابھرتی، اگر کچھ اچھا کر دکھانے کی امنگ انگڑائیاں نہیں لیتی اور اگر زندگی کو جینے کا ڈھنگ نہیں آتا تو یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری نمازوں میں کوئی خشوع اور خضوع نہیں ہے۔ ہماری عبادت میں کہیں کوئی کجی ہے۔ جب ہم خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو گویا پھر بھی وہاں نہیں ہوتے۔ ہم بہ ظاہر تو اپنے خدا کے سامنے ہوتے ہیں مگر اپنے قلب و ذہن میں ہزاروں بت لیے ہوتے ہیں۔ کہیں خواہشات کا بت تو کوئی نیک نامی کا بت، کبھی لذت و راحت کا بت تو کہیں عزت و مرتبت کا بت، کیا یہ شرک نہیں ہے؟ کیا یہ بت پرستی نہیں ہے؟

آئیے یہ بت پرستی چھوڑنے کا عہد کرلیں اور آج سے اپنے خدائے وحدہ لاشریک، بے مثل و لاثانی اور حقیقی پروردگار کی عبادت کریں اور اپنی خواہشات کے بہ جائے صرف اپنے پالن ہار کی پوجا کریں۔ خالصتا خلوص نیت سے اس کی بندگی کریں تاکہ بندہ ہونے اور بندہ کہلانے کا حق ادا ہو اور ساتھ ہی ان فرائض کی ادائی کا بھی عزم ِ صمیم کریں کہ جو اس کی مخلوق کے حوالے سے ہم پر عاید ہوتے ہیں۔ نیز یہ بات بھی ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے حقوق اس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک ہم اپنے فرائض ادا نہیں کرلیتے، اپنے حقوق چھین کر حاصل کرنے کے بہ جائے ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنے فرائض ادا کرلیے ہیں؟ کیا ہم خدا کے اور اس کی مخلوق کے مجرم تو نہیں۔
Load Next Story