سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اپوزیشن

پاکستان کا جمہوری نظام دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں سے کچھ مختلف ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

سرمایہ دارانہ جمہوریت پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اپوزیشن یعنی حزب اختلاف کے ایک تنقیدی ادارے کو جنم دیا ۔ حزب اختلاف کا مقصد حکومت کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ٹھہرا، یہ ذمے داری حزب اختلاف پر اس لیے ڈالی گئی کہ حکومت کی غلطیوں اور نا اہلیوں کی نشان دہی کرکے حکومت کو اپنی اصلاح کرنے پر راضی یا مجبورکیا جائے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے سرپرستوں نے یہ کھیل نیک نیتی سے نہیں کھیلا بلکہ اس کا اصل مقصد عوام کو یہ تاثر دینا تھا کہ جمہوریت کو بے لگام نہیں چھوڑا گیا بلکہ اس کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔

اس ادارے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اس ادارے کے دائرۂ کار کو بامعنی نہیں بنایا گیا نہ اس کا وہ مقصد رکھا گیا جو حکومت کی اصلاح میں کام آسکے عملی طور پر یہ ادارہ نمائشی اور عوام کی نفسیاتی تشفی کا کام انجام دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حزب اختلاف کا اصل کام حکومت کو بلیک میل کرنا ہوتا ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ حزب اختلاف قوم و ملک کے اجتماعی مفاد کے حصول کے بجائے ذاتی اور جماعتی مفادات کی تکمیل میں مصروف رہتی ہے ، اگر حکومت اور حزب اختلاف عوام سے مخلص ہوں تو بلاشبہ عوام کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ذاتی اور جماعتی مفادات کو اولیت حاصل ہوتی ہے، یعنی اس جمہوریت میں عام طور پر حزب اختلاف عوامی مسائل حل کرنے میں وہ دلچسپی لیتی نظر نہیں آتی جو اسے لینی چاہیے۔

حزب اختلاف کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت کم متحد رہتی ہے کیونکہ وہ قومی مفاد کی لڑائی سے بہت جلد باہر آکر ذاتی اور جماعتی مفادات کو اپنا مقصد بنالیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت عموماً ذاتی اور جماعتی مفادات کے محور پر گھومتی ہے۔ حزب اختلاف کا اصل کام قومی مفاد کے کاموں میں حکومتوں کی حمایت کرنا اور قومی مفاد سے متصادم پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں آزاد ممبر بھی ہوتے ہیں جن کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کچھ ممبران اپنی پارٹی سے اختلاف کی وجہ سے یا تو کسی اور فائدہ بخش جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں یا آزاد رکن کی حیثیت سے قوم کی خدمت انجام دیتے ہیں۔

پاکستان کا جمہوری نظام دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں سے کچھ مختلف ہے، ہماری جمہوریت میں ہمیشہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو اولیت دی جاتی ہے قومی اور عوامی مفادات کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کو رسوا کرنے، قومی اور عوامی مفادات کی بے حرمتی کرنے کا ایک سب سے بڑا مظاہرہ بھٹو کے خلاف تحریک میں کیا گیا۔ 1977 میں بھٹو کے خلاف تحریک انتخابات میں بعض پولنگ اسٹیشنز میں مبینہ بد عنوانیوں کے خلاف چلائی گئی یہ اس تحریک کا ظاہری مقصد یا عذر تھا اصل مسئلہ بھٹوکو اقتدار سے ہٹانا تھا، اگر بھٹو حکومت نے پنجاب کی بعض سیٹوں پر دھاندلی کی تھی تو حزب اختلاف اگر ایماندار ہوتی تو اپنی تحریک کو ان سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کے مطالبے تک محدود رکھتی لیکن تحریک کا اصل مقصد بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا، سو حزب اختلاف نے تحریک کو سارے ملک میں پھیلادیا۔


پاکستان کا جمہوری نظام دنیا کے دیگر ملکوں کے جمہوری نظاموں سے مختلف اس لیے ہے کہ اس ملک میں قیام پاکستان کے بعد سے جاگیرداروں نے سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یوں پاکستانی جمہوریت بالا دست طبقات کی یرغمال بن کر رہ گئی۔ حکمرانوں کی غلط کاریوں اور بے لگام لوٹ مارکا سلسلہ اس قدر دراز ہوتا رہا کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنی پڑی۔ 5 سال یعنی 2008 سے 2013اور 2013 سے 2018 تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ باری باری پانچ پانچ سال حکومت کرتے رہے ان دس سالوں میں لوٹ مار کے ایسے مظاہرے کیے گئے کہ ملک کھربوں ڈالرکا مقروض ہوکر رہ گیا ہماری اپوزیشن اس اربوں ڈالر کے اندرونی اور بیرونی قرض کو 3 ماہ کی عمرانی حکومت کے سر منڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ہماری اشرافیہ ایسی مچھلی ہے جو پانی یعنی اقتدارکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی جب سے عمران حکومت اقتدار میں آئی ہے ہماری اشرافیہ یعنی حکومت میں رہنے والی دونوں جماعتیں ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ رہی ہیں ۔ ماضی میں دونوں کی خرید و فروخت اور منتخب نمایندوں کی وفاداریاں تبدیل کرکے حکومتوں کو بدل دیا جاتا تھا، اس بار شومئی قسمت یہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ادارے نے کرپٹ اشرفیہ کے خلاف ڈنڈا اٹھالیا ہے اور سابق حکمران مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔

اس کے باوجود عمران حکومت کو گرانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں لیکن میڈیا میں سابق حکمرانوں کی کرپشن کی جو داستانیں آرہی ہیں ان داستانوں نے عوام کو سابق حکمرانوں سے اس قدر بد ظن کر دیا ہے کہ عوام ان کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں، اب اپنے سیاسی مقصد کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانا ممکن نہیں۔ اس کا متبادل سابق حکمرانوں نے یہ نکال لیا ہے کہ پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانات کے ذریعے حکومت کے خلاف اس قدر زہر اگلا جا رہا ہے کہ بے چارے عوام کنفیوز ہورہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں تاجر برادری اور معزز شہریوں سے ملاقات کے دوران کہاکہ ہمارے حکومت میں آنے کے پہلے دن سے ہماری حکومت گرانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ کو ہٹانے کا پروپیگنڈا کر کے تاجر برادری کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے کہاکہ حکومت ایک مختلف سوچ لے کر آتی ہے، ہم شہر قائد کو دوبارہ معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کردیںگے۔

ملک میں مہنگائی کے ساتھ بعض اشیا کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی ایسی مجبوری ہے جو سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے، قوم کو ان کے حقائق کا ادراک ہونا چاہیے۔ ہماری موجودہ حکومت کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے منفی پروپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، آج کی دنیا پروپیگنڈے کی دنیا ہے۔ اگر حکومت اپنے میڈیا فرنٹ کو مضبوط اور فعال نہ بناسکی تو اپوزیشن عوام کو گمراہ کرسکتی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ایک مہنگائی، سرمایہ دارانہ نظام کی لائی ہوئی ہے دوسری مہنگائی منافع خور تاجروں کی لائی ہوئی ہے۔ حکومت اس مصنوعی مہنگائی کو سخت اقدامات کے ذریعے روک سکتی ہے، جو کام حکومت آسانی سے کرسکتی ہے وہ بلا تاخیر کرے تاکہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا جواز ختم ہوسکے کاش حکمران طبقہ ذہانت سے کام لے۔
Load Next Story