لاہور کی فضاؤں میں ہوگی رنگوں کی برسات اور بو کاٹا کی گونج
بسنت کا تہوار منانے سے قبل بڑے پیمانے پر شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے،انہیں محفوظ تہوار منانے سے متعلق آگاہ کیاجائے
پنجاب میں آخری مرتبہ بسنت کا تہوار 2009 میں منایا گیا تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ
لاہور کے نام سے کون آشنا نہیں۔ یہ پاکستان کا وہ خطہ ہے جو اپنی ثقافت، جوش و خروش، اخوت، رواداری، رنگ برنگے تہواروں اور اس میں بسنے والے زندہ دل لوگوں کی بدولت ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ دنیا میں چاہے نفسانفسی اور سیاسی تناؤ نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، لیکن زندہ دلان لاہور میں زندگی کی رنگینیاں آج بھی راج کرتی ہیں۔ پنجاب کے کھیتوں اور کھلیانوں میں جہاں سرسوں پھوٹتی، وہیں فضا میں رنگ بھر جایا کرتے تھے۔ ہر طرف گیندے کے پیلے اور نارنجی پھول راہگیروں کو آمد بہار کا پیغام سناتے تھے۔ ساتھ ہی ثقافت کاروباری سرگرمیوں کی بھی خوب آبیاری کرتی۔ یوں لاہور کے نیلگوں آسمان پر رنگ برنگی گڈیاں اور پتنگیں اڑا کرتی تھیں۔
مٹی اور اینٹوں سے بنائی گئی پرانی چھتوں پر نئے زمانے کے لڑکے بالے، کم سن دوشیزائیں اور پرانے وقتوں کے بزرگ، سبھی مل کر آسمان کی وسعتوں پر پتنگ اڑایا کرتے تھے۔ اسٹاپو کی ٹک ٹک کے ساتھ بو کاٹا کا شور بلند ہوتا تھا۔ کھانوں کی ایسی بھینی خوشبو آتی کہ دل و دماغ معطر ہوجاتے۔ پھر زمانہ بدلا، محبتوں کے اس تہوار پر مادہ پرستی کی پرچھائیاں چھا گئیں اور رنگوں سے سجے آسمان کو نظر لگ گئی۔ ایک جانب شہر لاہور کے بازاروں میں بارود کی بو پھیلنے لگی تو دوسری جانب مادہ پرست افراد نے ڈور کاٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنا شروع کردیئے؛ اور اس موسم کی پیلاہٹ، سرخی میں تبدیل ہوگئی۔
خوشی میں جہاں موسیقی کی تیز آوازوں نے ماحول کو آلودہ کیا، وہیں ہوائی فائر نگ، چھتوں سے گرنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات سامنے آنے لگے۔ بازار میں آنے والی نت نئی ڈوروں نے شہر کی شاہراہوں کو قتل گاہیں بنا دیا اور اس تہوار کی شہ رگ بھی کاٹ دی۔ درحقیقت اس کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں، بیوروکریٹ، میڈیا کے ادارے، بڑے بڑے بینک، فلم اور کھیلوں کی دنیا کے ستارے، یہاں تک کہ بسنت کے انتظامات کرنے والے ادارے بھی شامل ہوگئے؛ اور ممنوعہ مواد کی حامل قاتل ڈوروں، کلچ، کیمیکل ڈوروں اور دیگر اشیاء کا بے تحاشا استعمال شروع ہو گیا۔ لہذا ایک دوسرے کی پتنگ کاٹنے کےلیے پتنگ باز موٹی اور کیمیکل والی ڈور کا استعمال کرنے لگے۔ یہی بسنت پر پابندی کی اصل وجہ بنی۔
انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے بجائے اور پتنگ بازی سے وابستہ کاروبار کو بحال رکھنے کےلیے قانون بنا کر نافذ کرنے کے بجائے پولیس، بیوروکریسی اور حکومت وقت نے اپنی روایتی نا اہلی برقرار رکھتے ہوئے اس تہوار پر ہی پابندی لگا دی۔ حالانکہ یہ کسی صورت مناسب نہیں کہ اگر کسی کھیل یا ثقافتی تہوار میں ایسی چیز در آئے تو بجائے اس کے کہ اس کی روک تھام کی جائے اور اس سے بچاؤ کے طریقے متعارف کروا کر منصوبہ بندی کی جائے، اس کھیل یا ثقافت ہی کو سرے سے ہی مٹا دیا جائے۔ یہ تو کوئی حل نہیں ہوا۔ اس طرح تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ بسنت ختم ہونے سے ایک تہوار ہی ختم نہیں ہوا، بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک تاریخ اور ایک ثقافت کو زندہ درگور کر دیا گیا۔
پنجاب میں آخری مرتبہ بسنت کا تہوار 2009 میں منایا گیا تھا۔ اس وقت تو الیکٹرونک میڈیا نے بھی اپنے قدم مکمل مضبوطی سے جما لیے تھے۔ ایسے بڑے ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرکے لوگوں میں نہ صرف شعور کو اجاگر کیا جاسکتا تھا بلکہ کیمیکل اور دھاتی ڈور کے بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے خلاف اقدامات کرکے ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا سکتی تھی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اب جبکہ لاہور کے قدیم تہوار ایک بار پھر منانے کےلیے ہمارے خوش گفتار وزیراعلیٰ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے، جسے ثقافتی حلقے اور زندہ دل لاہوریئے بھی خوب سراہ رہے ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بہار کی آمد پر رنگینی سے لطف اندوز ہونے کےلیے عام شہریوں کو بھی زندگی جینے کا موقع دیا جائے۔
بعض تجزیہ کاروں نے انسانی جانوں کی حفاظت کےلیے شہر میں موٹرسائیکل سواری پر پابندی عائد کرنے کی تجویز بھی دی ہے، اس تجویز کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اور ڈبل سواری پر پا بندی کے بجائے موٹرسائیکل کی مکمل سواری پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ میری نظر میں کسی تہوار پر ہی پابندی عائد کردینا حکمت نہیں، بلکہ حماقت ہے؛ اور یہ عمل مسائل سے دور بھاگنے کے مترادف ہے۔ مسائل کا سامنا کرنا اور ان کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا خاطر خواہ حل تلاش کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بسنت کا تہوار منانے سے قبل بڑے پیمانے پر شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے، انہیں محفوظ تہوار منانے سے آگاہ کیا جائے، اس کے بعد ہی بسنت منانے کا حتمی اعلان کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مٹی اور اینٹوں سے بنائی گئی پرانی چھتوں پر نئے زمانے کے لڑکے بالے، کم سن دوشیزائیں اور پرانے وقتوں کے بزرگ، سبھی مل کر آسمان کی وسعتوں پر پتنگ اڑایا کرتے تھے۔ اسٹاپو کی ٹک ٹک کے ساتھ بو کاٹا کا شور بلند ہوتا تھا۔ کھانوں کی ایسی بھینی خوشبو آتی کہ دل و دماغ معطر ہوجاتے۔ پھر زمانہ بدلا، محبتوں کے اس تہوار پر مادہ پرستی کی پرچھائیاں چھا گئیں اور رنگوں سے سجے آسمان کو نظر لگ گئی۔ ایک جانب شہر لاہور کے بازاروں میں بارود کی بو پھیلنے لگی تو دوسری جانب مادہ پرست افراد نے ڈور کاٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنا شروع کردیئے؛ اور اس موسم کی پیلاہٹ، سرخی میں تبدیل ہوگئی۔
خوشی میں جہاں موسیقی کی تیز آوازوں نے ماحول کو آلودہ کیا، وہیں ہوائی فائر نگ، چھتوں سے گرنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات سامنے آنے لگے۔ بازار میں آنے والی نت نئی ڈوروں نے شہر کی شاہراہوں کو قتل گاہیں بنا دیا اور اس تہوار کی شہ رگ بھی کاٹ دی۔ درحقیقت اس کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں، بیوروکریٹ، میڈیا کے ادارے، بڑے بڑے بینک، فلم اور کھیلوں کی دنیا کے ستارے، یہاں تک کہ بسنت کے انتظامات کرنے والے ادارے بھی شامل ہوگئے؛ اور ممنوعہ مواد کی حامل قاتل ڈوروں، کلچ، کیمیکل ڈوروں اور دیگر اشیاء کا بے تحاشا استعمال شروع ہو گیا۔ لہذا ایک دوسرے کی پتنگ کاٹنے کےلیے پتنگ باز موٹی اور کیمیکل والی ڈور کا استعمال کرنے لگے۔ یہی بسنت پر پابندی کی اصل وجہ بنی۔
انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے بجائے اور پتنگ بازی سے وابستہ کاروبار کو بحال رکھنے کےلیے قانون بنا کر نافذ کرنے کے بجائے پولیس، بیوروکریسی اور حکومت وقت نے اپنی روایتی نا اہلی برقرار رکھتے ہوئے اس تہوار پر ہی پابندی لگا دی۔ حالانکہ یہ کسی صورت مناسب نہیں کہ اگر کسی کھیل یا ثقافتی تہوار میں ایسی چیز در آئے تو بجائے اس کے کہ اس کی روک تھام کی جائے اور اس سے بچاؤ کے طریقے متعارف کروا کر منصوبہ بندی کی جائے، اس کھیل یا ثقافت ہی کو سرے سے ہی مٹا دیا جائے۔ یہ تو کوئی حل نہیں ہوا۔ اس طرح تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ بسنت ختم ہونے سے ایک تہوار ہی ختم نہیں ہوا، بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک تاریخ اور ایک ثقافت کو زندہ درگور کر دیا گیا۔
پنجاب میں آخری مرتبہ بسنت کا تہوار 2009 میں منایا گیا تھا۔ اس وقت تو الیکٹرونک میڈیا نے بھی اپنے قدم مکمل مضبوطی سے جما لیے تھے۔ ایسے بڑے ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرکے لوگوں میں نہ صرف شعور کو اجاگر کیا جاسکتا تھا بلکہ کیمیکل اور دھاتی ڈور کے بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے خلاف اقدامات کرکے ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا سکتی تھی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اب جبکہ لاہور کے قدیم تہوار ایک بار پھر منانے کےلیے ہمارے خوش گفتار وزیراعلیٰ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے، جسے ثقافتی حلقے اور زندہ دل لاہوریئے بھی خوب سراہ رہے ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بہار کی آمد پر رنگینی سے لطف اندوز ہونے کےلیے عام شہریوں کو بھی زندگی جینے کا موقع دیا جائے۔
بعض تجزیہ کاروں نے انسانی جانوں کی حفاظت کےلیے شہر میں موٹرسائیکل سواری پر پابندی عائد کرنے کی تجویز بھی دی ہے، اس تجویز کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اور ڈبل سواری پر پا بندی کے بجائے موٹرسائیکل کی مکمل سواری پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ میری نظر میں کسی تہوار پر ہی پابندی عائد کردینا حکمت نہیں، بلکہ حماقت ہے؛ اور یہ عمل مسائل سے دور بھاگنے کے مترادف ہے۔ مسائل کا سامنا کرنا اور ان کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا خاطر خواہ حل تلاش کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بسنت کا تہوار منانے سے قبل بڑے پیمانے پر شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے، انہیں محفوظ تہوار منانے سے آگاہ کیا جائے، اس کے بعد ہی بسنت منانے کا حتمی اعلان کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔