ایوان خالی جیلیں بھر جائیںگی
سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کوئی عدالت مخالف فیصلہ کرتی ہے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کئی جمہوری اور فوجی حکومتیں اقتدار میں آئیں، اس دوران ایک بھی حکومت ایسی برسر اقتدار نہیں رہی، جس پر کرپشن کے حوالے سے الزامات نہیں لگائے گئے۔ احتساب کا آغاز ہوا ہے تو اربوں، کھربوں کی کرپشن کی کہانیاں میڈیا میں آ رہی ہیں۔ ان اربوں کھربوں کی کہانیوں کو پڑھ کر عوام ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا جمہوریت کا دوسرا نام کرپشن ہی ہے؟ احتسابی اداروں میں نامی گرامی حکمرانوں کے خلاف اربوں کھربوں کے ریفرنس داخل ہیں۔
ملزمان کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عالی مرتبت لوگ احتسابی اداروں میں قدم رنجہ فرما کر اور استغاثہ کے چند سوالات کے جواب دے کر ملک و قوم پر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں۔ ان اعلیٰ درجے کے ملزمان کو حاصل سہولتوں کا اندازہ ہمارے چیف جسٹس کے اس انکشاف سے ہوتا ہے کہ احتسابی ملزمان کو حاصل سہولتوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالی مرتبت ملزمان جیلوں میں نہیں بلکہ فائیو اسٹار سہولتوں سے بھرے ہوئے عالی شان کمروں میں نئی زندگی کا مزہ لے رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مغل شہنشاہوں کے دور میں عالی مرتبت بادشاہوں اور شہنشاہوں کو بھی وہ سہولتیں وہ ناقابل بیان عیش وعشرت کے سامان میسر نہ تھے جو اب جمہوریت کے بادشاہوں کو میسر ہیں۔
جن اکابرین نے ملزموں اور مجرموں کے لیے تعزیزی قوانین ایجاد کیے، ان کا مقصد یہ تھا کہ سزاؤں کے مستحق ملزموں کو جرائم کی طرف جانے سے روکا جائے لیکن جدید دور کے جدید انسان نے جیلوں کی زندگی کو بھی اس قدر پر تعیش بنا دیا ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ملزمان بھی کسی حوالے سے جیل جانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ملزموں کے ساتھ اس طرح کا وی وی آئی پی سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں عام ملزموں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں احتساب کے ملزمان پر کہیں 462 ارب روپوں کی کرپشن کے الزامات عاید ہو رہے ہیں تو کسی پر ترقی یافتہ ملکوں میں اعلیٰ پائے کی رہائش گاہیں بنانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جیلیں کہیں جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہیں تو کہیں جنت کا۔
جماعت اسلامی کے امیر صاحب سراج الحق نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر حقیقی احتساب ہوا تو ایوان خالی اور جیلیں بھر جائیںگی۔ قوم چوروں اور لٹیروں کو جلد قانون کی گرفت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ مولانا نے کہاکہ جس نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا، اسے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا رہنا چاہیے۔ کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مولانا نے کہاکہ کرپشن پر جلد قابو نہ پایا گیا تو باقی ادارے بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھ جائیںگے۔ جواب آں غزل کے طور پر مسلم لیگ ن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر عدالتی فیصلہ نواز ، شہباز کے خلاف آتا ہے تو مسلم لیگ ن عدالتی فیصلے کے خلاف عوامی رابطہ مہم چلائے گی۔ پارٹی معاملات چلانے کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ میاں برادران کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عدالتی فیصلہ میاں برادران کے خلاف آتا ہے تو پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ میاں برادران کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں میاں حمزہ شہباز پارٹی کی اہم ذمے داریاں سنبھالیںگے ۔
اس حوالے سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کوئی عدالت مخالف فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن کی کوئی جماعت عدالتی فیصلے خلاف عوامی رابطہ مہم چلا سکتی ہے۔ یہ بات ایک سنگین سوال کی طرح ذہن میں اس لیے آ رہی ہے کہ جمہوری ملکوں میں عدالتی فیصلوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے جس ممکنہ فیصلے کا ذکر میاں برادران کر رہے ہیں وہ حکومت یا کوئی سیاسی جماعت نہیں کر رہی ہے بلکہ ملک کی معزز عدلیہ کر رہی ہے۔ کیا کسی سیاسی جماعت کو یا جماعتوں کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت کو ٹف ٹائم دیں اور عوامی رابطہ مہم شروع کر دیں۔ ماضی کے انتہائی خطرناک فیصلوں کی روشنی میں جب 9 ستاروں نے مہم چلائی تھی تو اس کا نتیجہ کس قدر خطرناک نکلا تھا۔
پاکستان مستقل ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے ملک میں محب وطن سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ذاتی اور جماعتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں لیکن ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے عمومی ہنگامی حالات کے دوران ذاتی اور جماعتی مفادات کو اہمیت دی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست قومی مفادات کو بائی پاس کرتی رہی ہے اور ملک کو سنگین مشکلات میں دھکیلتی رہی؟ اس کلچر نے ملک کے بالادست اداروں کو سنگین قومی مسائل میں دھکیل دیا، اس کا ایک خطرناک اثر یہ ہوا کہ عدلیہ کا احترام متاثر ہوتا رہا۔
سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح اقتدار ہوتا ہے لیکن اس پہلی ترجیح کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخ سیاسی مفادات سے بھری ہوئی ہے اور ان ہی مفادات کو اولیت دینے کی وجہ سے ملک بار بار عدم استحکام کا شکار رہا۔ اس ملک کے مدبرین بار بار یاد دلاتے رہے کہ جب تک سیاسی مفادات کو قومی مفادات کے تابع نہیں رکھا جائے گا ملک بار بار قومی حادثات سے دو چار ہوتا رہے گا۔ اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ سیاست دان ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے رہے۔ اس کلچر نے قومی اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ جن ملکوں میں قومی ادارے کمزور ہوئے ہیں ان ملکوں میں فطری طور پر قومی مفادات متاثر ہوئے ہیں 71 سال بعد ہی سہی ہمارے سیاست دانوں کو قومی اداروںکو مضبوط بنانا ہو گا ورنہ ملک بار بار عدم استحکام کا شکار ہوتا رہے گا۔
ملزمان کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عالی مرتبت لوگ احتسابی اداروں میں قدم رنجہ فرما کر اور استغاثہ کے چند سوالات کے جواب دے کر ملک و قوم پر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں۔ ان اعلیٰ درجے کے ملزمان کو حاصل سہولتوں کا اندازہ ہمارے چیف جسٹس کے اس انکشاف سے ہوتا ہے کہ احتسابی ملزمان کو حاصل سہولتوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالی مرتبت ملزمان جیلوں میں نہیں بلکہ فائیو اسٹار سہولتوں سے بھرے ہوئے عالی شان کمروں میں نئی زندگی کا مزہ لے رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مغل شہنشاہوں کے دور میں عالی مرتبت بادشاہوں اور شہنشاہوں کو بھی وہ سہولتیں وہ ناقابل بیان عیش وعشرت کے سامان میسر نہ تھے جو اب جمہوریت کے بادشاہوں کو میسر ہیں۔
جن اکابرین نے ملزموں اور مجرموں کے لیے تعزیزی قوانین ایجاد کیے، ان کا مقصد یہ تھا کہ سزاؤں کے مستحق ملزموں کو جرائم کی طرف جانے سے روکا جائے لیکن جدید دور کے جدید انسان نے جیلوں کی زندگی کو بھی اس قدر پر تعیش بنا دیا ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ملزمان بھی کسی حوالے سے جیل جانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ملزموں کے ساتھ اس طرح کا وی وی آئی پی سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں عام ملزموں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں احتساب کے ملزمان پر کہیں 462 ارب روپوں کی کرپشن کے الزامات عاید ہو رہے ہیں تو کسی پر ترقی یافتہ ملکوں میں اعلیٰ پائے کی رہائش گاہیں بنانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جیلیں کہیں جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہیں تو کہیں جنت کا۔
جماعت اسلامی کے امیر صاحب سراج الحق نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر حقیقی احتساب ہوا تو ایوان خالی اور جیلیں بھر جائیںگی۔ قوم چوروں اور لٹیروں کو جلد قانون کی گرفت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ مولانا نے کہاکہ جس نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا، اسے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا رہنا چاہیے۔ کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مولانا نے کہاکہ کرپشن پر جلد قابو نہ پایا گیا تو باقی ادارے بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھ جائیںگے۔ جواب آں غزل کے طور پر مسلم لیگ ن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر عدالتی فیصلہ نواز ، شہباز کے خلاف آتا ہے تو مسلم لیگ ن عدالتی فیصلے کے خلاف عوامی رابطہ مہم چلائے گی۔ پارٹی معاملات چلانے کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ میاں برادران کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عدالتی فیصلہ میاں برادران کے خلاف آتا ہے تو پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ میاں برادران کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں میاں حمزہ شہباز پارٹی کی اہم ذمے داریاں سنبھالیںگے ۔
اس حوالے سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کوئی عدالت مخالف فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن کی کوئی جماعت عدالتی فیصلے خلاف عوامی رابطہ مہم چلا سکتی ہے۔ یہ بات ایک سنگین سوال کی طرح ذہن میں اس لیے آ رہی ہے کہ جمہوری ملکوں میں عدالتی فیصلوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے جس ممکنہ فیصلے کا ذکر میاں برادران کر رہے ہیں وہ حکومت یا کوئی سیاسی جماعت نہیں کر رہی ہے بلکہ ملک کی معزز عدلیہ کر رہی ہے۔ کیا کسی سیاسی جماعت کو یا جماعتوں کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت کو ٹف ٹائم دیں اور عوامی رابطہ مہم شروع کر دیں۔ ماضی کے انتہائی خطرناک فیصلوں کی روشنی میں جب 9 ستاروں نے مہم چلائی تھی تو اس کا نتیجہ کس قدر خطرناک نکلا تھا۔
پاکستان مستقل ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے ملک میں محب وطن سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ذاتی اور جماعتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں لیکن ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے عمومی ہنگامی حالات کے دوران ذاتی اور جماعتی مفادات کو اہمیت دی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست قومی مفادات کو بائی پاس کرتی رہی ہے اور ملک کو سنگین مشکلات میں دھکیلتی رہی؟ اس کلچر نے ملک کے بالادست اداروں کو سنگین قومی مسائل میں دھکیل دیا، اس کا ایک خطرناک اثر یہ ہوا کہ عدلیہ کا احترام متاثر ہوتا رہا۔
سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح اقتدار ہوتا ہے لیکن اس پہلی ترجیح کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخ سیاسی مفادات سے بھری ہوئی ہے اور ان ہی مفادات کو اولیت دینے کی وجہ سے ملک بار بار عدم استحکام کا شکار رہا۔ اس ملک کے مدبرین بار بار یاد دلاتے رہے کہ جب تک سیاسی مفادات کو قومی مفادات کے تابع نہیں رکھا جائے گا ملک بار بار قومی حادثات سے دو چار ہوتا رہے گا۔ اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ سیاست دان ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے رہے۔ اس کلچر نے قومی اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ جن ملکوں میں قومی ادارے کمزور ہوئے ہیں ان ملکوں میں فطری طور پر قومی مفادات متاثر ہوئے ہیں 71 سال بعد ہی سہی ہمارے سیاست دانوں کو قومی اداروںکو مضبوط بنانا ہو گا ورنہ ملک بار بار عدم استحکام کا شکار ہوتا رہے گا۔