سیاست دوراں

ہندوستان پر ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکمرانی انسانوں کی تقسیم کے فلسفے کے خلاف تھی

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

جنگوں کی پوری تاریخ کو کھنگال ڈالیں ، پتا یہی چلے گا کہ جنگ دراصل انسانوں کی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ جنگیں ہی نہیں بلکہ دنیا میں پائی جانے والی بے شمار برائیاں اور خون خرابے انسانوں کی رنگ ، نسل ، زبان ، قومیت جیسی بے معنی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تقسیم کے حامی بھی کسی نہ کسی رنگ ، نسل زبان وغیرہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ عموماً پر امن لوگ ہوتے ہیں ۔ اس قسم کے پہچانی حوالوں یعنی انسانی شناخت کے حوالوں کو وہ نفرت ، جنگ ، خون خرابے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر انسانوں اور انسانیت کے دشمن ہیں اور دکھ یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی انسانی شناخت کا چولا اوڑھے رہتے ہیں۔

جنگ اور امن پوری انسانی تاریخ میں مرکزی موضوع کی طرح موجود رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان جنگوں کی سفاکی جنگوں کے نقصانات کو دیکھنے کے باوجود جنگوں میں کیوں الجھتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کو لے لیں ایک ہزار سال تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ ایک ہزار سال کا عرصہ نسبتاً امن کا عرصہ رہا ۔ اس عرصے میں 12 فیصد مسلمان 88 فیصد ہندوؤں پر حکومت کرتے رہے ، لیکن خون خرابے کا وہ حال نہ تھا جو 1947 کے بعد پیدا ہوا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک روایات بھائی بندی کے کلچر میں بندھے ہوئے تھے۔

ہندوستان پر ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکمرانی انسانوں کی تقسیم کے فلسفے کے خلاف تھی، دوسرے ہزاروں سال کا ساتھ خون خرابے اور نفرتوں کی راہ روکے کھڑا تھا۔ تیسرے مذہبی سیاست کرنے والے نسبتاً کمزور تھے ۔ بدقسمتی یہ رہی کہ تقسیم کے بعد وہ عناصر آزاد ہوگئے جو مذہبی منافرت کی سیاست کرتے تھے۔ یہ گندہ منافرت میں ڈوبا ہوا عنصر آزاد ہوا اور پٹیل جیسی متعصب قیادت اسے میسر آئی ریاستی اختیارات جب متعصب قیادت کے ہاتھوں میں آئے تو شیطان آزاد ہوا اور اپنی شیطانیت سے برصغیر میں مذہبی تفاوت کی ایسی آگ لگا دی کہ اس آگ میں کہا جاتا ہے 22 لاکھ انسان اس لیے جل گئے کیونکہ ان کی شناخت مسلمان تھی۔

1947 بہت پرانا دور نہیں تھا اس دور میں بھی وہی انسان تھے جو 1947 سے پہلے موجود تھے۔ پھر کیا ہوا کہ پورے برصغیر میں آگ لگ گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان نہیں تھے؟ جی ہاں وہ مسلمان ہی تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ انسان بھی تھے۔ جب انسانیت ، مذہبیت پر غالب رہتی ہے جب انسان ، ہندو ، مسلمان سکھ عیسائی کی شناخت کو پیچھے رکھتا ہے تو مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرسکتا ہے اور جب ہندو آگے اور انسان پیچھے چلا جاتا ہے تو ہندو مسلمان کا اور مسلمان ہندو کا دشمن بلکہ جانی دشمن بن جاتا ہے۔ ہر دین ہر دھرم میں انسان کے ساتھ شیطان بھی ہوتے ہیں جب کسی ملک میں دین دھرم کا بول بالا انسانیت کا منہ کالا ہوتا ہے تو زمین سے ہندو مسلمان اگ آتے ہیں ہندو اور مسلمان کا وجود اس وقت تک بے ضرر رہتا ہے جب تک انسانیت زندہ ہوتی ہے ۔


انسان کا خون بہانے کے لیے ہزار بہانے ہوتے ہیں اور جب بہانے باز طاقتور ہوتے ہیں تو انسان کا خون پانی بن جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کے مقابلے میں آج انسان نے بہت ترقی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلاشبہ بیسویں صدی کے انسان کے مقابلے میں اکیسویں صدی کے انسان نے بہت ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی مادی ہے، مادی ترقی نے انسان کی روحانی یعنی اخلاقی اور انسانی ترقی کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ ماضی میں بقر عید پر کھلے عام گائے ذبح کی جاتی تھی اور ہندو اس رسم یا مذہبی فرض میں خوشی سے شامل رہتا تھا۔ آج اگرکوئی مسلمان کسی اور کام کے لیے بھی گائے بیل لے جاتا ہے تو اسے گائے بیل کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے۔

اگر یہ ترقی ہے تو انسان نے ہندوستان کے انسان نے بلاشبہ بہت ترقی کی ہے ہمارے دیہی علاقوں میں کہا جاتا ہے ہندو لڑکیوں سے مسلمان شادیاں کر رہے ہیں ، ہندوستان کے شہروں میں جن میں ہندوستان کا پائے تخت دلی بھی شامل ہے بین المذاہب شادیاں دھڑلے سے ہو رہی ہیں اور ان کے خلاف کوئی خون خرابا بھی نہیں ہو رہا ہے اگر یہ خبریں درست ہیں تو کیا ہم اس ٹرینڈ کو انسان کی ترقی کا نام دیں یا قابل نفرت فعل کہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں سورج کی حرارت اتنی شدید ہونے والی ہے کہ انسان بیٹھے بیٹھے انڈے کی طرح ابل جائے گا۔ اگر انسان کا مقدر یہی ہے اور کوئی بڑے سے بڑا زمینی ماہر اس ہونی کو نہیں روک سکتا اور سورج کی حدت بلا تفریق ہر انسان کو جلا دے گی تو ہم آج دین دھرم کے نام پر ایک دوسرے کو کاٹ کر کیوں ایک دوسرے کے قاتل بن رہے ہیں؟

ہم اکیسویں صدی سے گزر رہے ہیں ہم انسانی معاشروں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشرہ ہونے کا اعجاز رکھتے ہیں۔ لیکن ہم نے اتنے ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں کہ ان میں سے دو فیصد بھی استعمال کرلیں تو کرہ ارض سے جاندارکا وجود ہی مٹ جائے گا۔ ہمارے سر میں وہی بھیجہ ہے جو مذہبی اکابرین اور حکما کے سر میں ہے ،کیا ہمارے بھیجے میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر سورج کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو جائے کہ کرہ ارض اس کے خطرے کی زد میں آجائے تو کیا سورج انسان کو جلاکر خاک کرنے سے پہلے اس کا حسب و نسب ذات پات زبان اور قومیت پوچھے گا؟ ہم زمین پر بڑے تیس مارخاں بنے رہتے ہیں ایٹمی ہتھیار بناکر ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے ہیں۔ کیا سورج اگر آگ اگلنے لگے تو کیا وہ نام پوچھ کر آگ اگلے گا؟

زمین کو وجود میں آئے ہوئے اب چار ارب سال ہو رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو زمین ابھی ساڑھے تین ارب سال زندہ رہے گی۔ کیا انسان نے زمین کی امکانی ساڑھے تین ارب سال زندگی گزارنے کے اسباب اور سہولتیں پیدا کرلی ہیں؟ یہ اسکول میں بچوں کو پڑھائے جانے والے خیالی اسباق میں وہ حقیقتیں ہیں جن کا سامنا آنے والے انسانوں کو کرنا پڑے گا۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق زمین کو فنا ہونے میں ابھی ساڑھے تین ارب سال باقی ہیں کیا ہم ماضی کے بے مقصد قتل و غارت کے پیش نظر کرہ ارض پر رہنے والے انسان کو ایک پرامن ، نفرتوں، عداوتوں، جنگوں سے پاک زندگی دے کر فخرکریں گے کہ ہم نے انسانی تاریخ کا وہ کام کیا ہے جس پرگزرے ہوئے، موجود اور آنے والے انسان فخرکرسکیں؟
Load Next Story