عمران فاروق کیس ن لیگ اسے ’’کور ایشو‘‘ سمجھتی ہے طارق چوہدری
پی ٹی آئی کسی معاملے میں پرسنل نہیں صرف صاف و شفاف تحقیقات چاہتی ہے، ڈاکٹر سبرینہ
ایم کیو ایم کیلیے ٹرننگ پوائنٹ ہے، تجزیہ کار زاہد حسین ،جی ایم جمالی،لائیوود طلعت میں گفتگو فوٹو : فائل
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر فضل چوہدری نے کہاہے کہ ہماری پولیس اور برطانوی پولیس میں بہت فرق ہے۔
برطانوی پولیس جب تک کسی مسئلے میں مکمل شواہد اکٹھے نہ کرلے تب تک کوئی قدم نہیں اٹھاتی،اس میں کوئی شک نہیں معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے ، الطاف حسین کا نام آتا ہے تو پھر ایم کیو ایم کا نام آتا ہے، اگر ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو پاکستان کا نام آتا ہے، ایکسپریس نیوز کے پروگرام لائیو ود طلعت میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ن لیگ اس معاملے کو کور ایشو سمجھتی ہے، بہت سی باتیں ابھی سامنے نہیں لائی جاسکتیں۔ ہمارے ہاں ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں جتنے برطانیہ میں مضبوط ہیں، وہاں کے ادارے میرٹ پر تفتیش کرتے ہیں اور جو صحیح رپورٹ ہوتی ہے وہی سامنے لائی جاتی ہے۔ پاکستان میں پولیس میں بھرتی سے لیکر آخر تک معاملات لمحہ فکریہ ہیں، پاکستان کے معاشرے میں تبدیلی آنیوالی ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ کے گھر پر چھاپہ پڑا لیکن کسی نے خبر نہیںچلائی لیکن اب اس پر پروگرام ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ الطاف حسین کے معاملے پر میڈیا کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے،کچھ چھپانا چاہیے نہ کچھ اضافہ کرنا چاہیے۔کراچی میں ایم کیوایم کے چاہنے والے کم اور اس کے خوف کے زیرسایہ زندگی گذارنے والے زیادہ ہیں۔ سائوتھ ویسٹ برطانیہ پی ٹی آئی کی عہدیدار ڈاکٹر سبرینہ نے کہاکہ پی ٹی آئی صرف انصاف اور شفاف تحقیقات چاہتی ہے ۔ہم کسی معاملے میں پرسنل نہیں ہونا چاہتے، کوئی اور جماعت ایم کیو ایم پر نہیں بولتی اس لیے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے زیادہ فوکس کیا ہوا ہے،تحریک انصاف نے بی بی سی کی ڈاکومنٹری سے قبل ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ایم کیو ایم پر جتنے بھی الزامات لگتے رہے ان میں اتنی شدت نہیں تھی جتنی اس مرتبہ برطانوی میڈیا میں سامنے آ رہی ہے،ایم کیو ایم، پاکستان میں لگنے والے الزامات کو رد کر سکتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
ابھی تک کسی کو گرفتار تو نہیں کیا گیا لیکن تحقیقات جاری ہیں برطانیہ میں منی لانڈرنگ کیس اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات ہورہی ہیں۔مغرب میں ان دنوں منی لانڈرنگ کو سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے ۔برطانوی میڈیا اور پولیس نے جو بھی کیا ہے وہ بہت جانچ پڑتال کرکے کیا ہے کیونکہ وہاں پر قانون مضبوط ہے اور میڈیا بھی کسی کیخلاف کسی ٹھوس شواہد کے بغیر رپورٹ نہیں کرتا۔ برطانیہ میں ایم کیو ایم کو بہت پروجیکشن ملی تھی ان کو ویزے بھی ملے اور دیگر سہولتیں بھی لیکن ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ہے،کراچی میں خوف کی فضا الیکشن میں ٹوٹ گئی ہے۔ اب میڈیا کے لیے بھی آسان ہوگیا ہے کہ ایم کیو ایم کو کسی پروگرام میں ڈسکس کرسکے، لیکن میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار جی ایم جمالی نے کہا ایم کیو ایم کو پہلی بار اتنی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے،کیونکہ اب تک جو بھی الزامات لگے وہ پاکستان میں ہی لگے اور ان کی تردید بھی کی جاتی رہی لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے باہر سے ایم کیو ایم کی لیڈرشپ الزامات کی زد میں ہے،اگر الطاف حسین کیخلاف برطانیہ میں کچھ ہوتا ہے تو یقینی طورپر کراچی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہو گا ، یہاں پر صورتحال کو کنٹرول کرنا شائد حکومت کے لیے مشکل ہو جائے،ایم کیو ایم تو اس کو میڈیا ٹرائل کہتی ہے لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کے بیانات میں ابہام نظر آتا ہے،ایم کیو ایم کے حوالے سے معاملات پر میڈیا کو بہت ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کراچی میں لوگ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں ایم کیو ایم کا سیٹ اپ بہت مضبوط ہے ،کراچی کی صورتحال بہت خراب ہے کئی انتہا پسند گروپ متحرک ہیں ان میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں اور بھی عوامل موجود ہیں ،کراچی کی آبادی 2کروڑ سے زائد اورپولیس اہلکاروں کی تعداد صرف 27 ہزار ہے۔
برطانوی پولیس جب تک کسی مسئلے میں مکمل شواہد اکٹھے نہ کرلے تب تک کوئی قدم نہیں اٹھاتی،اس میں کوئی شک نہیں معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے ، الطاف حسین کا نام آتا ہے تو پھر ایم کیو ایم کا نام آتا ہے، اگر ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو پاکستان کا نام آتا ہے، ایکسپریس نیوز کے پروگرام لائیو ود طلعت میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ن لیگ اس معاملے کو کور ایشو سمجھتی ہے، بہت سی باتیں ابھی سامنے نہیں لائی جاسکتیں۔ ہمارے ہاں ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں جتنے برطانیہ میں مضبوط ہیں، وہاں کے ادارے میرٹ پر تفتیش کرتے ہیں اور جو صحیح رپورٹ ہوتی ہے وہی سامنے لائی جاتی ہے۔ پاکستان میں پولیس میں بھرتی سے لیکر آخر تک معاملات لمحہ فکریہ ہیں، پاکستان کے معاشرے میں تبدیلی آنیوالی ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ کے گھر پر چھاپہ پڑا لیکن کسی نے خبر نہیںچلائی لیکن اب اس پر پروگرام ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ الطاف حسین کے معاملے پر میڈیا کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے،کچھ چھپانا چاہیے نہ کچھ اضافہ کرنا چاہیے۔کراچی میں ایم کیوایم کے چاہنے والے کم اور اس کے خوف کے زیرسایہ زندگی گذارنے والے زیادہ ہیں۔ سائوتھ ویسٹ برطانیہ پی ٹی آئی کی عہدیدار ڈاکٹر سبرینہ نے کہاکہ پی ٹی آئی صرف انصاف اور شفاف تحقیقات چاہتی ہے ۔ہم کسی معاملے میں پرسنل نہیں ہونا چاہتے، کوئی اور جماعت ایم کیو ایم پر نہیں بولتی اس لیے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے زیادہ فوکس کیا ہوا ہے،تحریک انصاف نے بی بی سی کی ڈاکومنٹری سے قبل ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ایم کیو ایم پر جتنے بھی الزامات لگتے رہے ان میں اتنی شدت نہیں تھی جتنی اس مرتبہ برطانوی میڈیا میں سامنے آ رہی ہے،ایم کیو ایم، پاکستان میں لگنے والے الزامات کو رد کر سکتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
ابھی تک کسی کو گرفتار تو نہیں کیا گیا لیکن تحقیقات جاری ہیں برطانیہ میں منی لانڈرنگ کیس اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات ہورہی ہیں۔مغرب میں ان دنوں منی لانڈرنگ کو سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے ۔برطانوی میڈیا اور پولیس نے جو بھی کیا ہے وہ بہت جانچ پڑتال کرکے کیا ہے کیونکہ وہاں پر قانون مضبوط ہے اور میڈیا بھی کسی کیخلاف کسی ٹھوس شواہد کے بغیر رپورٹ نہیں کرتا۔ برطانیہ میں ایم کیو ایم کو بہت پروجیکشن ملی تھی ان کو ویزے بھی ملے اور دیگر سہولتیں بھی لیکن ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ہے،کراچی میں خوف کی فضا الیکشن میں ٹوٹ گئی ہے۔ اب میڈیا کے لیے بھی آسان ہوگیا ہے کہ ایم کیو ایم کو کسی پروگرام میں ڈسکس کرسکے، لیکن میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار جی ایم جمالی نے کہا ایم کیو ایم کو پہلی بار اتنی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے،کیونکہ اب تک جو بھی الزامات لگے وہ پاکستان میں ہی لگے اور ان کی تردید بھی کی جاتی رہی لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے باہر سے ایم کیو ایم کی لیڈرشپ الزامات کی زد میں ہے،اگر الطاف حسین کیخلاف برطانیہ میں کچھ ہوتا ہے تو یقینی طورپر کراچی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہو گا ، یہاں پر صورتحال کو کنٹرول کرنا شائد حکومت کے لیے مشکل ہو جائے،ایم کیو ایم تو اس کو میڈیا ٹرائل کہتی ہے لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کے بیانات میں ابہام نظر آتا ہے،ایم کیو ایم کے حوالے سے معاملات پر میڈیا کو بہت ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کراچی میں لوگ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں ایم کیو ایم کا سیٹ اپ بہت مضبوط ہے ،کراچی کی صورتحال بہت خراب ہے کئی انتہا پسند گروپ متحرک ہیں ان میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں اور بھی عوامل موجود ہیں ،کراچی کی آبادی 2کروڑ سے زائد اورپولیس اہلکاروں کی تعداد صرف 27 ہزار ہے۔