تفتیشی صحافت
ضرورت ہے کہ میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق خود ترتیب دے، جھوٹی سچی خبریں گھڑنے کے بجائے معیاری خبر،مکالمے اور تبصرے کو فروغ دے
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق خود ترتیب دے۔ فوٹو: انٹرنیٹ
کیا پاکستانی صحافت محض جھوٹی سچی خبروں، سطحی تبصروں، اور بے جان تجزیوں تک محدود ہوچکی ہے؟ چینلوں اور اخبارات کا ایک انبوہ ہے جو پل پل کی خبر دینے کی قیامت خیز دوز میں ہر طرح کی حدود و قیود پھلانگ رہا ہے۔ باوجود عقابی نگاہ کا دعویٰ کرنے کے، بدعنوان عناصر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی منی لانڈرنگ کرتے رہے، ادارے و شخصیات پشت پناہ رہیں، لیکن میڈیا بے خبری کی چادر تانے سویا رہا۔ ایسے میں لامحالہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں صحافت محض آزادی رائے کے نام پر ٹسوے بہانا رہ گئی ہے یا پھر غیراعلانیہ چوتھا ریاستی ستون ہونے کے ناتے، ملکی مسائل کے حل میں اس کا کوئی کردار بھی ہے؟
باب ووڈ ورڈ کا نام تفتیشی صحافت میں بطور استعارہ مستعمل ہے۔ 1970 کی دہائی میں، جب وہ اپنے اوائلِ جوانی میں تھا، تو واشنگٹن پوسٹ جیسے معتبر صحافتی ادارے سے منسلک ہوا۔ 1972 میں باب اور صحافی کارل برنسٹین کو ایک سیاسی اسکینڈل پر حقائق کھوجنے کی ذمہ داری ملی۔ امریکی ری پبلکن صدر نکسن کی صدارت کا پہلا دور تھا اور دوسرے دور کی مچلتی خواہش؛ اسی مقصد کے پیش نظر فنڈز اکٹھے کیے جارہے تھے۔ نکسن پر اقتداری طاقت کا نشہ طاری ہوا تو راہ میں حائل کانٹوں کو ہٹانے کی ٹھانی۔ معاشی لحاظ سے صدر نکسن کا پہلا دور قابل ذکر نہ تھا۔ انہی دنوں شکست خوردہ امریکا، ویت نام کی جنگ سے نکلا تھا۔ جنگی اخراجات کے باعث امریکی معیشت دباؤ کا شکار تھی۔ افراط زر بلند جبکہ اجرتوں پر قانونی گرفت تھی۔ معاشی جمود کی کیفیت طاری تھی۔ جہاں عوام حکومت سے نالاں وہیں اپوزیشن گلے کی ہڈی ثابت ہو رہی تھی۔ سیاسی اور معاشی صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ صدر نکسن کی دوسری مدت کےلیے حالات سازگار نہیں۔
صدر نکسن نے اس کا وہی روایتی حل نکالا جو تیسری دنیا کی جمہوریتوں کا خاصّہ ہے: یعنی ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرنا۔ امریکی ریاستی اداروں میں سیاسی مداخلت کے امکانات اگرچہ کم ہی ہوتے ہیں لیکن صدر کا کسی حد تک صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ مقتدر عہدوں پر تعیناتیاں کرسکے۔ نکسن نے امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی، سی آئی اے اور انٹرنل ریونیو سروس (وزارت خزانہ کا ذیلی ادارہ) کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے من پسند افراد کا تقرر کیا۔ صدر کی سیاسی آشیرباد سے اداروں نے جال بُنا۔ 17 جون 1972 کے روز، جب رات خاصی ڈھل چکی، پانچ نقاب پوش ڈیموکریٹ جماعت کے صدر دفتر، ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی میں دبے پاؤں داخل ہوئے۔ یہ دفتر واشنگٹن کے علاقے ''واٹرگیٹ کمپلیکس'' میں واقع ہے۔ ان کا ہدف بھاری کیش وہاں رکھنا تھا۔ طے یہ کیا گیا کہ صبح کسی پہر تحقیقاتی ایجنسیاں، میڈیا ٹیموں کے ہمراہ وہاں چھاپہ ماریں گی اور اس قدر بھاری رقوم کی برآمدگی کا الزام ڈیموکریٹ کے راہنماؤں پر دھر دیا جائے گا۔
یہ بات ریاست کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ چند دیانت دار افراد اگر تہیہ کرلیں تو ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عین یہی بات ایک ادارے پر صادق آتی ہے۔ یعنی سماج کا صدقہ ''A few good men'' (چند اچھے اور دیانت دار افراد) کے سر ہوتا ہے۔ واٹرگیٹ اسکینڈل کے تانے بانے جب بُنے جارہے تھے تو باوجود رازداری کے اس کی بھنک ایف بی آئی کے ایک نچلی سطح کے عہدہ دار کو پڑ گئی۔ خفیہ ذرائع سے یہ بات واشنگٹن پوسٹ تک پہنچائی گئی۔ پوسٹ نے باب اور کارل کو کیمرہ مینوں کی ٹیم کے ساتھ ایک خفیہ مقام پر تعینات کیا تاکہ اس واردات کی ریکارڈنگ بطور شہادت محفوظ ہو۔ نقاب پوش ابھی اپنی واردات میں مصروف ہی تھے کہ واشنگٹن پوسٹ کی ٹیم نے انہیں جالیا... اور باقی سب تاریخ ہے۔
اسکینڈل طشت ازبام ہوا۔ بڑے بڑے پردہ نشین جغادری بے نقاب ہوئے۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو حدت لامحالہ بالانشینوں تک بھی پہنچی۔ صدر نکسن کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کے خلاف مواخذے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ تحقیقات کا دائرہ وسیع تر ہوا تو نکسن انتظامیہ کے قریب چار درجن افراد کو قانونی تھپیڑوں کا سامنا کرنا پڑا۔
واٹرگیٹ اسکینڈل بہت معروف ہوا، بہت کچھ لکھا گیا۔ اسی موضوع پر 1976ء میں ''All the President´s men'' کے نام سے ایک مشہور فلم بھی بنی۔ واٹرگیٹ اسکینڈل نے تفتیشی صحافت کی راہ ہموار کی اور اس بات پر مہر ثبت کی کہ صحافت اگر صحیح معنوں میں کی جائے تو منہ زور اشرافیہ کے مفادات پر مؤثر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔
امریکی صحافت میں تفتیش اور حقائق کھوجنے کا کیا مقام ہے؟ زیادہ دور نہ جائیے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی کا ایک تازہ واقعہ لے لیجیے۔ صدر ٹرمپ آئے دن اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل نیویارک ٹائمز کے تین صحافیوں نے صدر ٹرمپ کی وراثتی دولت بارے ایک لاکھ قانونی دستاویزات کی پورا ایک سال لگا کر عرق ریزی کی۔ تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صدر نے 1990 کی دہائی میں ٹیکس قوانین میں موجود سقم سے اپنا ٹیکس بچایا۔ آمدن کے بارے میں معلومات چھپائیں لہذا اقتدار کا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔
پاکستانی میڈیا کس قدر باخبر اور تحقیق پر یقین رکھتا ہے؟ اس کی ایک مثال کچھ سال قبل ایک نئے نشریاتی ادارے کے پس پردہ عوامل سے دی جاسکتی ہے۔ تفتیشی صحافت کے دعویدار، نام نہاد بڑے صحافی ''پرکشش پیکیج'' دیکھ کر کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے اوسان ہی کھو بیٹھے۔ بنیادی بات پر غور کرنا بھول گئے کہ آخر اس قارونی ریل پیل کے ذرائع کیا ہیں؟ وہ تو بھلا ہو نیویارک ٹائمز کے ایک معتوب صحافی کا جس نے یہ عقدہ کھولا کہ دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں تقسیم کرکے ملکی ناک کٹوانے والے اب دھڑلے سے میڈیا کا کاروبار بھی کیے جاتے ہیں۔ یعنی عالم بے خبری دیکھیے کہ میڈیا کی ناک کے نیچے بدعنوانی اور دھوکہ دہی کا پرنالہ بہتا رہا؛ اور میڈیا کھوکھلے دعووں پر مُصِر رہا۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بڑے چینل یا اخبار نے بغض معاویہ میں سیاسی لیڈروں کی ذاتی زندگی کو سرعام اچھالا، چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا، اور کسی اخلاقی یا تہذیبی حد کا پاس نہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ میڈیا خود زیرعتاب ہے، تو سول سوسائٹی ساتھ ہے نہ عوام!
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق خود ترتیب دے۔ جھوٹی سچی خبریں گھڑنے کے بجائے معیاری خبر، مکالمے، اور تبصرے کو فروغ دے۔ کسی جماعت یا شخصیت کی طرف داری سے اجتناب کرے۔ اپنی کمٹمنٹ نظریئے، ملک، اور قوم سے کرے۔ اوسط سطحی باتوں کو چھوڑ حقیقی مسائل کی نشاندہی کرے کہ اسی میں ملک و قوم کی فلاح مضمر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
باب ووڈ ورڈ کا نام تفتیشی صحافت میں بطور استعارہ مستعمل ہے۔ 1970 کی دہائی میں، جب وہ اپنے اوائلِ جوانی میں تھا، تو واشنگٹن پوسٹ جیسے معتبر صحافتی ادارے سے منسلک ہوا۔ 1972 میں باب اور صحافی کارل برنسٹین کو ایک سیاسی اسکینڈل پر حقائق کھوجنے کی ذمہ داری ملی۔ امریکی ری پبلکن صدر نکسن کی صدارت کا پہلا دور تھا اور دوسرے دور کی مچلتی خواہش؛ اسی مقصد کے پیش نظر فنڈز اکٹھے کیے جارہے تھے۔ نکسن پر اقتداری طاقت کا نشہ طاری ہوا تو راہ میں حائل کانٹوں کو ہٹانے کی ٹھانی۔ معاشی لحاظ سے صدر نکسن کا پہلا دور قابل ذکر نہ تھا۔ انہی دنوں شکست خوردہ امریکا، ویت نام کی جنگ سے نکلا تھا۔ جنگی اخراجات کے باعث امریکی معیشت دباؤ کا شکار تھی۔ افراط زر بلند جبکہ اجرتوں پر قانونی گرفت تھی۔ معاشی جمود کی کیفیت طاری تھی۔ جہاں عوام حکومت سے نالاں وہیں اپوزیشن گلے کی ہڈی ثابت ہو رہی تھی۔ سیاسی اور معاشی صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ صدر نکسن کی دوسری مدت کےلیے حالات سازگار نہیں۔
صدر نکسن نے اس کا وہی روایتی حل نکالا جو تیسری دنیا کی جمہوریتوں کا خاصّہ ہے: یعنی ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرنا۔ امریکی ریاستی اداروں میں سیاسی مداخلت کے امکانات اگرچہ کم ہی ہوتے ہیں لیکن صدر کا کسی حد تک صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ مقتدر عہدوں پر تعیناتیاں کرسکے۔ نکسن نے امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی، سی آئی اے اور انٹرنل ریونیو سروس (وزارت خزانہ کا ذیلی ادارہ) کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے من پسند افراد کا تقرر کیا۔ صدر کی سیاسی آشیرباد سے اداروں نے جال بُنا۔ 17 جون 1972 کے روز، جب رات خاصی ڈھل چکی، پانچ نقاب پوش ڈیموکریٹ جماعت کے صدر دفتر، ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی میں دبے پاؤں داخل ہوئے۔ یہ دفتر واشنگٹن کے علاقے ''واٹرگیٹ کمپلیکس'' میں واقع ہے۔ ان کا ہدف بھاری کیش وہاں رکھنا تھا۔ طے یہ کیا گیا کہ صبح کسی پہر تحقیقاتی ایجنسیاں، میڈیا ٹیموں کے ہمراہ وہاں چھاپہ ماریں گی اور اس قدر بھاری رقوم کی برآمدگی کا الزام ڈیموکریٹ کے راہنماؤں پر دھر دیا جائے گا۔
یہ بات ریاست کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ چند دیانت دار افراد اگر تہیہ کرلیں تو ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عین یہی بات ایک ادارے پر صادق آتی ہے۔ یعنی سماج کا صدقہ ''A few good men'' (چند اچھے اور دیانت دار افراد) کے سر ہوتا ہے۔ واٹرگیٹ اسکینڈل کے تانے بانے جب بُنے جارہے تھے تو باوجود رازداری کے اس کی بھنک ایف بی آئی کے ایک نچلی سطح کے عہدہ دار کو پڑ گئی۔ خفیہ ذرائع سے یہ بات واشنگٹن پوسٹ تک پہنچائی گئی۔ پوسٹ نے باب اور کارل کو کیمرہ مینوں کی ٹیم کے ساتھ ایک خفیہ مقام پر تعینات کیا تاکہ اس واردات کی ریکارڈنگ بطور شہادت محفوظ ہو۔ نقاب پوش ابھی اپنی واردات میں مصروف ہی تھے کہ واشنگٹن پوسٹ کی ٹیم نے انہیں جالیا... اور باقی سب تاریخ ہے۔
اسکینڈل طشت ازبام ہوا۔ بڑے بڑے پردہ نشین جغادری بے نقاب ہوئے۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو حدت لامحالہ بالانشینوں تک بھی پہنچی۔ صدر نکسن کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کے خلاف مواخذے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ تحقیقات کا دائرہ وسیع تر ہوا تو نکسن انتظامیہ کے قریب چار درجن افراد کو قانونی تھپیڑوں کا سامنا کرنا پڑا۔
واٹرگیٹ اسکینڈل بہت معروف ہوا، بہت کچھ لکھا گیا۔ اسی موضوع پر 1976ء میں ''All the President´s men'' کے نام سے ایک مشہور فلم بھی بنی۔ واٹرگیٹ اسکینڈل نے تفتیشی صحافت کی راہ ہموار کی اور اس بات پر مہر ثبت کی کہ صحافت اگر صحیح معنوں میں کی جائے تو منہ زور اشرافیہ کے مفادات پر مؤثر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔
امریکی صحافت میں تفتیش اور حقائق کھوجنے کا کیا مقام ہے؟ زیادہ دور نہ جائیے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی کا ایک تازہ واقعہ لے لیجیے۔ صدر ٹرمپ آئے دن اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل نیویارک ٹائمز کے تین صحافیوں نے صدر ٹرمپ کی وراثتی دولت بارے ایک لاکھ قانونی دستاویزات کی پورا ایک سال لگا کر عرق ریزی کی۔ تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صدر نے 1990 کی دہائی میں ٹیکس قوانین میں موجود سقم سے اپنا ٹیکس بچایا۔ آمدن کے بارے میں معلومات چھپائیں لہذا اقتدار کا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔
پاکستانی میڈیا کس قدر باخبر اور تحقیق پر یقین رکھتا ہے؟ اس کی ایک مثال کچھ سال قبل ایک نئے نشریاتی ادارے کے پس پردہ عوامل سے دی جاسکتی ہے۔ تفتیشی صحافت کے دعویدار، نام نہاد بڑے صحافی ''پرکشش پیکیج'' دیکھ کر کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے اوسان ہی کھو بیٹھے۔ بنیادی بات پر غور کرنا بھول گئے کہ آخر اس قارونی ریل پیل کے ذرائع کیا ہیں؟ وہ تو بھلا ہو نیویارک ٹائمز کے ایک معتوب صحافی کا جس نے یہ عقدہ کھولا کہ دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں تقسیم کرکے ملکی ناک کٹوانے والے اب دھڑلے سے میڈیا کا کاروبار بھی کیے جاتے ہیں۔ یعنی عالم بے خبری دیکھیے کہ میڈیا کی ناک کے نیچے بدعنوانی اور دھوکہ دہی کا پرنالہ بہتا رہا؛ اور میڈیا کھوکھلے دعووں پر مُصِر رہا۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بڑے چینل یا اخبار نے بغض معاویہ میں سیاسی لیڈروں کی ذاتی زندگی کو سرعام اچھالا، چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا، اور کسی اخلاقی یا تہذیبی حد کا پاس نہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ میڈیا خود زیرعتاب ہے، تو سول سوسائٹی ساتھ ہے نہ عوام!
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق خود ترتیب دے۔ جھوٹی سچی خبریں گھڑنے کے بجائے معیاری خبر، مکالمے، اور تبصرے کو فروغ دے۔ کسی جماعت یا شخصیت کی طرف داری سے اجتناب کرے۔ اپنی کمٹمنٹ نظریئے، ملک، اور قوم سے کرے۔ اوسط سطحی باتوں کو چھوڑ حقیقی مسائل کی نشاندہی کرے کہ اسی میں ملک و قوم کی فلاح مضمر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔