فردوس کو شاہکار فلم ’’ملنگی‘‘ نے کامیاب ہیروئن بنادیا
کیرئیر کا آغاز ہدایتکار نخشب جاچوری کی فلم ’’فانوس‘‘ میں ایک ثانوی کردارسے کیا
کیرئیر کا آغاز ہدایتکار نخشب جاچوری کی فلم ’’فانوس‘‘ میں ایک ثانوی کردارسے کیا۔ فوٹو: فائل
لاہور:
فردوس اپنے منفرد شباب وحسن کے حوالے سے پنجاب کے دیہات میں بسنے والی ایک ایسی حسینہ تھی جسے عرف عام میں ماجھے دی جٹی کہا جاتا ہے۔
یہ پنجابی مٹیار پہلی بار 1963 ء ہدایتکار نخشب جاچوری کی پاکستان میں پہلی فلم ''فانوس'' میں ایک ثانوی سے کردار میں پیش ہوئی جس میں رفیع پیرزادہ کے صاحبزادے سلمان پیرزادہ ہیرو تھے۔یہ فلم کثیر لاگت اور نخشب کی تمام تر توقعات کے برعکس بری طرح فلاپ ہوئی ۔ جہاں تک پنجابی فلموں کا تعلق ہے اس دور میں نغمہ فلمی افق پر چھائی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ایک اور اداکارہ شیریں نے قیامت ڈھائی ہوئی تھی ۔فردوس کا ان حالات میں قدم جمانا کافی مشکل تھا بہر حال شباب پروڈکشنز کی ایک فلم ''ملنگ'' میں علاؤ الدین کے ساتھ آئیں مگر یہ بھی ناکام رہی ۔
ہدایتکار ریاض احمد نے اسے اپنی ایک فلم ''غدار'' میں پیش کیا جس کی روایتی ہیروئن سلونی تھی پھر یہ ہدایتکار اشفاق ملک کی فلم '' لائی لگ'' میں علاو الدین کے مقابل ہیروئن آئیں۔ سلیم اشرفی کی فلم ''جھانجراں'' میں حبیب کے مقابل کام کیا مگر یہ بھی ناکام ہوگئی۔ اسی طرح ہدایتکار جعفر بخاری کی ''ہیرسیال'' بھی ناکام رہی جس میں یہ اکمل کے ساتھ رومانوی کردار میں پیش ہوئی تھی۔ حیدر چوہدری کی ایک فلم''ناچے ناگن باجے بین'' اوسط درجے کی رہی جس میں رانی اور سلونی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم ''من موجی'' نے شاندار کامیابی حاصل کی اس میںبھی فردوس سیکنڈ ہیروئن تھیں۔
چند ہفتوں بعد ہدایتکار رشید اختر کی ایک پنجابی فلم ''ملنگی'' میں یوسف خان کے مقابل رومانوی کردار کیا جو ایک سپرہٹ شاہکار فلم ثابت ہوئی ۔ جس میں ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا گیت '' ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں '' نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم کے بعد فردوس کامیاب ہیروئنوں کی صف میں شامل ہوگئیں۔ فردوس نے چاچا جی، دو مٹیاراں، اک سی ماںِ ، جنٹر مین، ماں پتر، اے پگ میرے ویر دی، پیدا گیر، دشمن ، دلدار، تہاڈی عزت دا سوال اے، حمیدا، بیٹی بیٹا، عشق نہ پچھے ذات، قول قرار ، جوانی مستانی، چن ویر، جگو، خون دا بدلہ خون، پگڑی سنبھال جٹا ، ہیرا موتی، بنارسی ٹھگ، اک دھی پنجاب دی ، سجن دشمن ، جاپانی گڈی، دنیا مطلب دی ، دلاں دے سودے، شیراں دے پتر شیر، ناجو، سجناں دور دیا، غیرت میرا ناںِ ، پنڈ دی کڑی ، پیار دے پلکھے، پنج دریا، مرزا جٹ، مراد بلوچ، یار تے پیار اور کلاسک فلم کا درجہ حاصل کرنیوالی فلم ''ہیر رانجھا'' ان کے کریڈٹ پر ہے۔
70ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں اعجاز نے (رانجھا) اور فردوس نے (ہیر) کا کردار نبھایا جو فلموں بینوںاور ناقدین کے دل ودماغ پر چھا گیا ۔ جب کہ اعجاز سے بھی اس کا افئیر شروع ہوگیا تھا جو اس وقت ملکہ ترنم نورجہاں کے شوہر تھے بعدازاں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ فردوس نے اپنے عروج میں ہی پنجابی فلموں کے معروف اداکار اکمل سے شادی کرلی پھر فلمی دنیا کی روایت کی طرح ان سے نظریں پھیر لیں اور فلمساز شیخ نذیر حسین سے شادی کرلی۔
اکمل نے اس کی بے وفائی کا صدمہ کچھ زیادہ ہی محسوس کیا اور کثرت سے مے نوشی کا شکار ہوکر بالاخر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ان کے بارے میں بھی خبریں آتی رہیں کہ یہ بھی نشے کی عادی ہوگئیں تھیں۔ اس کے بعد اداکار شاہد سمیت دیگر کئی غیر معروف فنکاروں سے بھی افئیرز کی خبریں آتی رہیں۔ ان کی 1973ء میں آخری ریلیز ہونے والی پشتو فلم ''دا جرمو بادشاہ'' تھی۔
فردوس اپنے منفرد شباب وحسن کے حوالے سے پنجاب کے دیہات میں بسنے والی ایک ایسی حسینہ تھی جسے عرف عام میں ماجھے دی جٹی کہا جاتا ہے۔
یہ پنجابی مٹیار پہلی بار 1963 ء ہدایتکار نخشب جاچوری کی پاکستان میں پہلی فلم ''فانوس'' میں ایک ثانوی سے کردار میں پیش ہوئی جس میں رفیع پیرزادہ کے صاحبزادے سلمان پیرزادہ ہیرو تھے۔یہ فلم کثیر لاگت اور نخشب کی تمام تر توقعات کے برعکس بری طرح فلاپ ہوئی ۔ جہاں تک پنجابی فلموں کا تعلق ہے اس دور میں نغمہ فلمی افق پر چھائی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ایک اور اداکارہ شیریں نے قیامت ڈھائی ہوئی تھی ۔فردوس کا ان حالات میں قدم جمانا کافی مشکل تھا بہر حال شباب پروڈکشنز کی ایک فلم ''ملنگ'' میں علاؤ الدین کے ساتھ آئیں مگر یہ بھی ناکام رہی ۔
ہدایتکار ریاض احمد نے اسے اپنی ایک فلم ''غدار'' میں پیش کیا جس کی روایتی ہیروئن سلونی تھی پھر یہ ہدایتکار اشفاق ملک کی فلم '' لائی لگ'' میں علاو الدین کے مقابل ہیروئن آئیں۔ سلیم اشرفی کی فلم ''جھانجراں'' میں حبیب کے مقابل کام کیا مگر یہ بھی ناکام ہوگئی۔ اسی طرح ہدایتکار جعفر بخاری کی ''ہیرسیال'' بھی ناکام رہی جس میں یہ اکمل کے ساتھ رومانوی کردار میں پیش ہوئی تھی۔ حیدر چوہدری کی ایک فلم''ناچے ناگن باجے بین'' اوسط درجے کی رہی جس میں رانی اور سلونی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم ''من موجی'' نے شاندار کامیابی حاصل کی اس میںبھی فردوس سیکنڈ ہیروئن تھیں۔
چند ہفتوں بعد ہدایتکار رشید اختر کی ایک پنجابی فلم ''ملنگی'' میں یوسف خان کے مقابل رومانوی کردار کیا جو ایک سپرہٹ شاہکار فلم ثابت ہوئی ۔ جس میں ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا گیت '' ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں '' نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم کے بعد فردوس کامیاب ہیروئنوں کی صف میں شامل ہوگئیں۔ فردوس نے چاچا جی، دو مٹیاراں، اک سی ماںِ ، جنٹر مین، ماں پتر، اے پگ میرے ویر دی، پیدا گیر، دشمن ، دلدار، تہاڈی عزت دا سوال اے، حمیدا، بیٹی بیٹا، عشق نہ پچھے ذات، قول قرار ، جوانی مستانی، چن ویر، جگو، خون دا بدلہ خون، پگڑی سنبھال جٹا ، ہیرا موتی، بنارسی ٹھگ، اک دھی پنجاب دی ، سجن دشمن ، جاپانی گڈی، دنیا مطلب دی ، دلاں دے سودے، شیراں دے پتر شیر، ناجو، سجناں دور دیا، غیرت میرا ناںِ ، پنڈ دی کڑی ، پیار دے پلکھے، پنج دریا، مرزا جٹ، مراد بلوچ، یار تے پیار اور کلاسک فلم کا درجہ حاصل کرنیوالی فلم ''ہیر رانجھا'' ان کے کریڈٹ پر ہے۔
70ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں اعجاز نے (رانجھا) اور فردوس نے (ہیر) کا کردار نبھایا جو فلموں بینوںاور ناقدین کے دل ودماغ پر چھا گیا ۔ جب کہ اعجاز سے بھی اس کا افئیر شروع ہوگیا تھا جو اس وقت ملکہ ترنم نورجہاں کے شوہر تھے بعدازاں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ فردوس نے اپنے عروج میں ہی پنجابی فلموں کے معروف اداکار اکمل سے شادی کرلی پھر فلمی دنیا کی روایت کی طرح ان سے نظریں پھیر لیں اور فلمساز شیخ نذیر حسین سے شادی کرلی۔
اکمل نے اس کی بے وفائی کا صدمہ کچھ زیادہ ہی محسوس کیا اور کثرت سے مے نوشی کا شکار ہوکر بالاخر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ان کے بارے میں بھی خبریں آتی رہیں کہ یہ بھی نشے کی عادی ہوگئیں تھیں۔ اس کے بعد اداکار شاہد سمیت دیگر کئی غیر معروف فنکاروں سے بھی افئیرز کی خبریں آتی رہیں۔ ان کی 1973ء میں آخری ریلیز ہونے والی پشتو فلم ''دا جرمو بادشاہ'' تھی۔