یہ دیس

اس خوفناک ماحول میں اگر کوئی زندہ دل شاعر یہ دیس ہمارا ہے کہتا ہے تو بے چارے عوام ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں جہاں عوام اپنی چیزوں کو اپنا نہیں سمجھتے ایماندار اور عوام دوست سیاستدانوں، ماہرین معاشیات، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، مفکروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف آسان طریقوں سے غریب عوام کو یہ بتائیں، سمجھائیں کہ یہ ملک ان کا ہے، وہی اس کے مالک ہیں۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے 71 سال گزر جانے کے باوجود وہ اس ملک میں غلاموں کی طرح رہ رہے ہیں۔

کوئی شہری یا دیہی وڈیرہ اگر کسی غریب سے با وجہ یا بلاوجہ ناراض ہو جاتا ہے تو علاقے کے ایس پی کو فون کر دیتا ہے کہ مسمی مذکورکی دھول جھٹکی جائے۔ پھر کیا ہے مسمی مذکور غریب کی دھول اس طرح جھٹکی جاتی ہے کہ مسمی مذکور کئی دن تک کھٹیا پر پڑا رہتا ہے۔

اس خوفناک ماحول میں اگر کوئی زندہ دل شاعر یہ دیس ہمارا ہے کہتا ہے تو بے چارے عوام ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ یہ کون پاگل آگیا ہے جو یہ دیس ہمارا ہے کا نعرہ لگا رہا ہے جب کہ بے چارے عوام نسلوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ یہ دیس، وڈیروں کا ہے، یہ دیس نوابوں، سیٹھوں، صنعتکاروں، حکمرانوں کا ہے تو پھر یہ شاعر صاحب بڑے ترنم سے گا رہے ہیں یہ دیس ہمارا ہے۔ اس دیس کا پتا پتا ہمیں دل سے پیارا ہے۔ ہوسکتا ہے شاعر سچ کہہ رہا ہو ہو سکتا ہے یہ دیس ہمارا ہے یعنی غریب عوام کا ہو لیکن غریب تو نسلوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ یہ دیس ''دیس کے رکھوالوں'' کا ہے، دھنوانوں کا ہے۔

حکمرانوں ، جاگیرداروں، دھنوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ غریبوں کے دیس میں نہیں رہتے۔ جہاں جھونپڑیاں ہیں کچے مکان ہیں یہ دھنوان 71 سال سے اس دیس کے مالک ہیں لیکن اب دھنوانوں کا ستارہ گردش میں ہے ان کمبختوں نے اتنا کھا لیا ہے کہ ان کے پیٹ پھیل گئے ہیں اور اس پھیلاؤ کی وجہ ٹریفک کو پیدل چلنے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اب اس 71 سالہ کراچی سے کشمیر تک پھیلے ہوئے پیٹ کی چھٹائی کی ضرورت ہے۔ ہماری میونسپلٹی نے باہر نکلے ہوئے گھر چھجے وغیرہ گرا کر شہروں کی بے ترتیبی اور بدصورتی کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کی۔ متاثرین نے بڑی چیخ و پکارکی بڑا واویلا مچایا لیکن لگتا ہے اس بار حکام شہرکو انکروچمنٹ سے صاف کرکے ہی چھوڑیں گے۔

ادھر عدلیہ اور وہ مل کر دھنوانوں کے بڑھے ہوئے پیٹوں کو نارمل بنانے یا کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کٹائی کے خلاف وہ ہاہاکار مچی ہوئی ہے یا مچائی گئی ہے کہ الامان الحفیظ۔ سارا میڈیا اس ہاہاکار سے بھرا ہوا ہے۔سریا لگی گردنیں جھک تو نہیں سکتیں کیونکہ یہ 71 سال سے اکڑی ہوئی ہیں، جہاں پوائنٹ آف ڈس آرڈر پر میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ''سریا لگی گردن'' کی اصطلاح اور ولی عہدوں کی اصطلاح راقم الحروف کی ایجاد کردہ ہے جو دریاؤں پہاڑوں میدانوں اور پارلیمنٹوں میں استعمال کی جا رہی ہے لیکن حال یہ ہے کہ مصلح کو کوئی نہیں جانتا کوئی نہیں پوچھتا ؟


دانا کہتے ہیں کہ رشوت جسے انگریزی میں کرپشن کہتے ہیں اگر آٹے میں نمک کے برابر ہو تو نظرانداز کردی جاتی ہے لیکن اگر خود آٹا ہی بن جاتی ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو نظر آرہا ہے۔ غریب آدمی لیتا ہے تو وہ رشوت کہلاتی ہے اور غریب آدمی ہزار دو ہزار دے دلا کر جان چھڑا لیتا ہے لیکن امیر آدمی لیتا ہے یا کھاتا ہے تو وہ کرپشن کہلاتی ہے اور عام طور پر پکڑ میں نہیں آتی اور سو پچاس سال اتفاقاً یا پیٹ پھٹنے کے قریب آکر پکڑی جاتی ہے تو بہت خطرناک ہوجاتی ہے، پھر قصر سلطانی کی گنبد پر شاہین نظر نہیں آتا جیلوں کی مہاڑیوں پر بسیرا کرتا ہے۔

ہماری عادت ہے نہ اخلاق اسے درست سمجھتا ہے کہ اگر کوئی تکلیف میں ہو تو اس کا مذاق اڑایا جائے لیکن بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر عوام ایسی تکلیف میں ہوں کہ موت کو زندگی سے بہتر کہنے لگیں تو پھر۔۔۔۔۔۔ ہمارے سابقہ دیس میں ایک ڈیزل کار چلتی تھی یا چلتا تھا چونکہ وہ ڈیزل کار ریلوے لائن پر چلتا تھا یا چلتی تھی لہٰذا اسے ایک دن میں 24 خون معاف ہوتے تھے۔ ایک دن ہم نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا جناب اس ڈیزل کار کو 24 خون کیوں معاف؟ جواب ملا اس میں صاحب لوگ سفر کرتے ہیں اور صاحب لوگ ''جس میں'' سفر کرتے ہیں اس کے سامنے آنا منع ہے جو لوگ آتے ہیں وہ موت کے منہ میں جاتے ہیں اور دن میں 24 خون یوں معاف ہوتے ہیں۔

پاکستان جیسی لٹیرا شاہی میں عوام 71 سال سے رہ رہے ہیں۔ لیکن آج تک ان کی ہمت نہیں کہ پاکستان کو اپنا گھر کہہ سکیں کیونکہ یہ گھر اشرافیہ کا ہے، وہی اس کی مالک ہے اگر مالک نہ ہوتی تو اس طرح اربوں روپوں کو باپ کی جاگیر سمجھ کر اس پر قبضہ کرتی نہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالر کی جائیداد خریدتی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتی ہے یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے ایسا سمجھتی ہے؟

وجہ کچھ بھی ہو اس ملک کی مالک اشرافیہ ہے، عوام اس ملک کے کرائے دار ہیں اگر محنت کی شکل میں دن رات کرایہ دار ہیں اگر محنت کی شکل میں دن رات کرایہ ادا نہ کریں تو پھر۔۔۔۔۔! ہر جمہوری ملک میں اگر اس ملک کے مالک عوام ہوں تو انھیں انتخابات لڑنے کا اختیار ہوتا ہے وہ صدر اور وزیر اعظم گورنر اور وزیر بنتے ہیں لیکن 71 سال سے صرف ووٹر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عوام اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتے تو اپنے آپ کو صرف ووٹر نہیں سمجھتے۔

اب دیکھیے کچھ عوام پر مہربان اور عوام کا دکھ سمجھنے والے بندے بندوں کو خدا بنانے کی کوشش یا دعویٰ کر رہے ہیں یہ بہت بڑا کام ہے اور اس کام کے لیے سب سے پہلے یہ دیس ہے مزدوروں کا، کسانوں کا، غریبوں کا، کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا ورنہ آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا۔۔۔۔ہوجائے گا۔
Load Next Story