الزام نہ دو متبادل بتاؤ
اب یہ گلی محلے والے بڑی حد تک اس سیاسی کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ہمارا دانشور طبقہ موجودہ حکومت پر الزام لگا رہا ہے کہ اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ لے آئی ہے۔ بجا ارشاد۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ حکومت بلکہ حکومتوں کو کون لایا تھا؟ ہم اس حقیقت کو جواز بنا کر پیش کرنا نہیں چاہتے لیکن اس حقیقت سے انکارکیسے ممکن ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو حکومتیں آتی رہیں وہ کسی کی مرہون منت تھیں۔ جن جمہوری حکومتوں کو سویلین صدور نے نکال باہرکیا ان پر الزامات کیا تھے؟ صرف فوجی حکومتوں نے ہی نہیں بلکہ سول حکومتوں نے بھی منتخب جمہوری حکومتوں کو کرپشن کے الزام ہی میں برطرف کیا۔ ایسا کیوں؟ جب تک اس اوپن سیکریٹ سے ہم واقف نہیں ہوں گے جمہوریت کرپشن زدہ ہی رہے گی اور عوام ان کرپٹ جمہوریتوں کو بھگتتے رہیں گے۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یا تو جاگیردار طبقہ برسر اقتدار رہا یا پھر فوجی حکومتیں برسر اقتدار رہیں، اس حقیقت نے ملک میں عوامی جمہوریت کو قائم ہی نہیں ہونے دیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارا مڈل کلاس طبقہ یہ دیکھے بغیر کہ جمہوریت کے سر پر کون سوار ہے جمہوریت کی آنکھ بند کرکے حمایت کرتا رہا۔ اس غلطی یا غلط فہمی کے نتیجے میں کرپٹ اشرافیہ اقتدار پر قابض رہی اور ملک اس راستے پر چل پڑا جوکرپشن اور لوٹ مار کا راستہ تھا۔
جنرل ضیا الحق جب تشریف لائے تو مرحوم نے اس بدنصیب قوم کے لیے جو رہنما تلاش کیے وہ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے، یوں جمہوریت منافعے کے راستے پر چل پڑی اور یہ منافع سیاست کا قطب نما بن گیا۔ آج ساری دنیا میں ہماری جمہوریت جس طرح رسوا ہو رہی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ جمہوریت کے اصل حق دار اس ملک کے غلام بنے رہے۔ جمہوریت اکثریت کی حکومت ہوتی ہے اور اکثریت اس ملک میں سیاسی ہاری اور کسان بنی رہی۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان ہیں ۔ کیا اتنی بڑی اکثریت کا ہماری جمہوریت میں کوئی کردار سوائے پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کے کچھ اور ہے؟ کیا ہماری جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاسکتا ہے؟
ہمارے نام نہاد دانشوروں کی دانشوری کا عالم یہ ہے کہ وہ ارب پتی لٹیروں کو ''مفکر اعظم'' کا خطاب دیتے ہیں، کیا ورکنگ کلاس میں ایسے اہل لوگ موجود نہیں جو کاروبار حکومت سنبھال سکیں؟ ایسا نہیں ورکنگ کلاس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن انھیں بابو سے آگے جانے ہی نہیں دیا جاتا۔ وزیر، سفیر بننے کا یہ اہل نوجوان خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جہاں یہ اشرافیائی کلچر موجود ہو وہاں عوامی جمہوریت نامی چیزکہاں نظر آ سکتی ہے۔
کرپشن کا عالم یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری ملازم اربوں کے اثاثوں کے مالک ہیں اور یہی تابعدار حکومت ان ارب پتی سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح اشرافیہ جس پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں وہ جیلوں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کی سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں اور اس اطمینان کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں کہ جیسے وہ پکنک پر آئے ہیں۔ ہماری حکمران اشرافیہ ماضی میں عوام کو بے وقوف بناکر انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی لیکن حکمران اشرافیہ کی اربوں کی کرپشن کی داستانیں گلی گلی اس طرح پھیل گئی ہیں کہ یہ گلی محلوں والے اب سمجھ رہے ہیں کہ برسوں سے انھیں کس طرح بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
اب یہ گلی محلے والے بڑی حد تک اس سیاسی کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ جلسوں اوراحتجاج کی زینت بننے کے لیے تیار نہیں اور یہ عوام کی ایسی فکری تبدیلی ہے جس نے اشرافیہ کا سیاسی مستقبل تاریک کردیا ہے۔ ہماری محترم عدلیہ کرپٹ اشرافیہ کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ یہ طبقہ بڑے اطمینان سے نہ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے بلکہ ایک بار پھر اشرافیائی سیاست کا آغاز کرتے ہوئے عوام کے مسائل عوام کے دکھوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بڑا طویل ہے اشرافیہ کی کوشش ہے کہ اس طوالت سے فائدے اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ تھا کہ 71 سال سے اقتدار پر چپکی ہوئی اس بلائے عظیم سے چھٹکارا کیسے پایا جائے؟ یہ مرحلہ جزوی طور پر حل ہو گیا ہے۔ اس تبدیلی کو عوام کوئی انقلاب سمجھتے ہیں نہ یہ کوئی انقلاب ہے۔ یہ ایک جزوی عبوری مرحلہ ہے اگر اس مرحلے کو تبدیلی کی مضبوط بنیاد نہ بنایا گیا تو یہ مضبوط اور ملک کوگھن کی طرح 71 سال سے کھانے والی کالی دیوی دوبارہ اس مضبوطی سے مسلط ہوگی کہ اس سے نجات حاصل کرنا کارے دارد ہو جائے گا۔ کیونکہ عوامی جمہوریت کو لگی دیمک نے ملک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔
روایتی انقلاب بدقسمتی سے اب تک میٹنگ سیل اور کمیٹوں تک محدود ہے اور اس کے آگے بڑھنے کے امکانات اس لیے معدوم ہیں کہ اس کا ابھی تک کوئی راستہ متعین ہوسکا نہ کوئی ایسی قیادت نظر آتی ہے جو بامعنی تبدیلیوں کی طرف رہنمائی کرے۔ مسئلہ چونکہ پورے تبدیلی کے پراسس کا ہے اور اس عالمی سطح کی ذمے داری اور پسپائی سے نکلنے کے لیے عالمی سطح کی منصوبہ بندی اور کوششوں کی ضرورت ہے جس کا ابھی تک دور دور تک امکان نہیں ، اگر کسی ایک ملک سے ہی تبدیلی کا یہ عمل شروع ہو تو اس کے آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں لیکن سابقہ تبدیلیوں یعنی 1917ء اور 1944ء ہی کو ماڈل بنا لیا گیا تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ہوجائے گا۔ اب عوامی سیاست کا برت ٹوٹنا چاہیے اور عوام کے سمندر میں مچھلی بنے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے اگر نظریاتی قبروں سے انقلابی نہیں نکلیں گے تو عمران اسپیشل واپس بھی جا سکتی ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یا تو جاگیردار طبقہ برسر اقتدار رہا یا پھر فوجی حکومتیں برسر اقتدار رہیں، اس حقیقت نے ملک میں عوامی جمہوریت کو قائم ہی نہیں ہونے دیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارا مڈل کلاس طبقہ یہ دیکھے بغیر کہ جمہوریت کے سر پر کون سوار ہے جمہوریت کی آنکھ بند کرکے حمایت کرتا رہا۔ اس غلطی یا غلط فہمی کے نتیجے میں کرپٹ اشرافیہ اقتدار پر قابض رہی اور ملک اس راستے پر چل پڑا جوکرپشن اور لوٹ مار کا راستہ تھا۔
جنرل ضیا الحق جب تشریف لائے تو مرحوم نے اس بدنصیب قوم کے لیے جو رہنما تلاش کیے وہ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے، یوں جمہوریت منافعے کے راستے پر چل پڑی اور یہ منافع سیاست کا قطب نما بن گیا۔ آج ساری دنیا میں ہماری جمہوریت جس طرح رسوا ہو رہی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ جمہوریت کے اصل حق دار اس ملک کے غلام بنے رہے۔ جمہوریت اکثریت کی حکومت ہوتی ہے اور اکثریت اس ملک میں سیاسی ہاری اور کسان بنی رہی۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان ہیں ۔ کیا اتنی بڑی اکثریت کا ہماری جمہوریت میں کوئی کردار سوائے پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کے کچھ اور ہے؟ کیا ہماری جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاسکتا ہے؟
ہمارے نام نہاد دانشوروں کی دانشوری کا عالم یہ ہے کہ وہ ارب پتی لٹیروں کو ''مفکر اعظم'' کا خطاب دیتے ہیں، کیا ورکنگ کلاس میں ایسے اہل لوگ موجود نہیں جو کاروبار حکومت سنبھال سکیں؟ ایسا نہیں ورکنگ کلاس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن انھیں بابو سے آگے جانے ہی نہیں دیا جاتا۔ وزیر، سفیر بننے کا یہ اہل نوجوان خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جہاں یہ اشرافیائی کلچر موجود ہو وہاں عوامی جمہوریت نامی چیزکہاں نظر آ سکتی ہے۔
کرپشن کا عالم یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری ملازم اربوں کے اثاثوں کے مالک ہیں اور یہی تابعدار حکومت ان ارب پتی سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح اشرافیہ جس پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں وہ جیلوں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کی سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں اور اس اطمینان کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں کہ جیسے وہ پکنک پر آئے ہیں۔ ہماری حکمران اشرافیہ ماضی میں عوام کو بے وقوف بناکر انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی لیکن حکمران اشرافیہ کی اربوں کی کرپشن کی داستانیں گلی گلی اس طرح پھیل گئی ہیں کہ یہ گلی محلوں والے اب سمجھ رہے ہیں کہ برسوں سے انھیں کس طرح بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
اب یہ گلی محلے والے بڑی حد تک اس سیاسی کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ جلسوں اوراحتجاج کی زینت بننے کے لیے تیار نہیں اور یہ عوام کی ایسی فکری تبدیلی ہے جس نے اشرافیہ کا سیاسی مستقبل تاریک کردیا ہے۔ ہماری محترم عدلیہ کرپٹ اشرافیہ کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ یہ طبقہ بڑے اطمینان سے نہ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے بلکہ ایک بار پھر اشرافیائی سیاست کا آغاز کرتے ہوئے عوام کے مسائل عوام کے دکھوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بڑا طویل ہے اشرافیہ کی کوشش ہے کہ اس طوالت سے فائدے اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ تھا کہ 71 سال سے اقتدار پر چپکی ہوئی اس بلائے عظیم سے چھٹکارا کیسے پایا جائے؟ یہ مرحلہ جزوی طور پر حل ہو گیا ہے۔ اس تبدیلی کو عوام کوئی انقلاب سمجھتے ہیں نہ یہ کوئی انقلاب ہے۔ یہ ایک جزوی عبوری مرحلہ ہے اگر اس مرحلے کو تبدیلی کی مضبوط بنیاد نہ بنایا گیا تو یہ مضبوط اور ملک کوگھن کی طرح 71 سال سے کھانے والی کالی دیوی دوبارہ اس مضبوطی سے مسلط ہوگی کہ اس سے نجات حاصل کرنا کارے دارد ہو جائے گا۔ کیونکہ عوامی جمہوریت کو لگی دیمک نے ملک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔
روایتی انقلاب بدقسمتی سے اب تک میٹنگ سیل اور کمیٹوں تک محدود ہے اور اس کے آگے بڑھنے کے امکانات اس لیے معدوم ہیں کہ اس کا ابھی تک کوئی راستہ متعین ہوسکا نہ کوئی ایسی قیادت نظر آتی ہے جو بامعنی تبدیلیوں کی طرف رہنمائی کرے۔ مسئلہ چونکہ پورے تبدیلی کے پراسس کا ہے اور اس عالمی سطح کی ذمے داری اور پسپائی سے نکلنے کے لیے عالمی سطح کی منصوبہ بندی اور کوششوں کی ضرورت ہے جس کا ابھی تک دور دور تک امکان نہیں ، اگر کسی ایک ملک سے ہی تبدیلی کا یہ عمل شروع ہو تو اس کے آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں لیکن سابقہ تبدیلیوں یعنی 1917ء اور 1944ء ہی کو ماڈل بنا لیا گیا تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ہوجائے گا۔ اب عوامی سیاست کا برت ٹوٹنا چاہیے اور عوام کے سمندر میں مچھلی بنے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے اگر نظریاتی قبروں سے انقلابی نہیں نکلیں گے تو عمران اسپیشل واپس بھی جا سکتی ہے۔