کراچی میں جرائم میں پھر اضافہ
قتل و غارت کو ابتداء میں ہی روک لیں مبادہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں
قتل و غارت کو ابتداء میں ہی روک لیں مبادہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ فوٹو : فائل
ماضی کی پرتشدد وارداتوں کی یادوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پر تاریکی کے سائے ایک بار پھر لہرانے لگے ہیں۔ چند مہینوں کی خاموشی کے بعد گزشتہ چند ہفتوں سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے' یوں شہر کے امن و امان کے لیے سوال پیدا کر دیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ کراچی میں ایک انڈر ورلڈ گروپ ازسرنو متحرک ہو گیا ہے۔ قتل و غارت کا یہ کھیل گزشتہ برس کے اواخر میں علی رضا عابدی کی ہلاکت سے شروع ہوا۔ انھیں ان کے گھرکے باہر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔
اس قتل کے مجرموں کو ابھی تک گرفت میں نہیں کیا جا سکا، جس کے بارے میں ایک رائے اس واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بھی ہے لیکن اس سے بھی ٹارگٹ کلنگ کا یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے اب تک ہدف لے کر قتل کرنے کے آدھی درجن واقعات ہو چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اس قتل و غارت کو ابتداء میں ہی روک لیں مبادہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔
کراچی میں جب 2013ء میں رینجرز کی زیرقیادت آپریشن کلین اپ ہوا تھا تو لسانی' سیاسی اور فرقہ ورانہ قتل و غارت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن اب پھر جرائم مافیا متحرک ہے۔ سالہا سال کے سیاسی اختلافات نے حالات کو موجودہ نہج تک پہنچا دیا ہے۔ دہشت گرد اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں سے بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض مجرم اپنے پرانے اڈوں میں واپس آ رہے ہیں لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ان عناصر کو دوبارہ کراچی پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم نہ کریں۔
اس قتل کے مجرموں کو ابھی تک گرفت میں نہیں کیا جا سکا، جس کے بارے میں ایک رائے اس واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بھی ہے لیکن اس سے بھی ٹارگٹ کلنگ کا یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے اب تک ہدف لے کر قتل کرنے کے آدھی درجن واقعات ہو چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اس قتل و غارت کو ابتداء میں ہی روک لیں مبادہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔
کراچی میں جب 2013ء میں رینجرز کی زیرقیادت آپریشن کلین اپ ہوا تھا تو لسانی' سیاسی اور فرقہ ورانہ قتل و غارت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن اب پھر جرائم مافیا متحرک ہے۔ سالہا سال کے سیاسی اختلافات نے حالات کو موجودہ نہج تک پہنچا دیا ہے۔ دہشت گرد اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں سے بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض مجرم اپنے پرانے اڈوں میں واپس آ رہے ہیں لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ان عناصر کو دوبارہ کراچی پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم نہ کریں۔