فیسوں میں کمی سے انکار
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ایک عرصے سے فیسیں کم کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
فیصلے خواہ قومی اداروں کے ہوں یا نجی اداروں کے، ان کی اہمیت اور افادیت اس شرط سے مشروط ہوتی ہے کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں ، وقت مقررہ پر ہوتا ہے یا لیٹ۔ کراچی میں نجی شعبے میں ہزاروں اسکول کام کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کا شعبہ دراصل سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا ایک حصہ ہے ۔ ملک میں سرکاری اسکولوں کا ایک نظام قائم کیا گیا لیکن واہ رے، سرمایہ دارانہ نظام واہ ! اس نے اس مہارت اس چالاکی سے اس شعبے کو ایک منافع بخش انڈسٹری میں بدل دیا کہ لوئر مڈل کلاس اس شعبے کی طرف جھپٹ پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انڈسٹری کے مالکان کروڑوں روپے کمانے لگے اور یہ انڈسٹری تیزی سے ترقی کرتی گئی۔
سرمایہ داری ایک طبقاتی نظام ہے اور اس نظام میں عوام کی خوشحال زندگی یا بد حال زندگی کا تعین طبقات کی مالی حیثیت سے ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ماڈرن ایجوکیشن ایک ایسا دل فریب دھوکا ہے خاص طور پر لوئر مڈل کلاس کے لیے کہ وہ اپنی سطح سے اوپر جانے کی خواہش اورکوشش میں ایک ایسے جال میں پھنس جاتی ہے کہ وہ نہ ادھر کی رہتی ہے نہ اُدھر کی۔ یہی صورتحال ہماری لوئر مڈل کلاس کی ہے نہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے آپ کو بڑے لوگوں میں شامل کرسکتی ہے نہ اپنی کلاس میں رہ کر وہ سہولتیں حاصل کرسکتی ہے جس کی خواہش میں وہ مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ایک عرصے سے فیسیں کم کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں حکومت اور عدلیہ کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ نے بھی فیسیں کم کرنے سے انکارکیا اور اس حوالے سے حیلے بہانے تراشتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدلیہ اور اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے دیے جانے والے احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی رہی تو پھر عوام انصاف کے لیے کون سے اداروں کی طرف دیکھیں؟ حکومتی احکامات کے باوجود آج بھی دھڑلے سے طلبا سے بھاری فیسیں لی جا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف فیسوں میں کمی بیشی کا نہیں بلکہ نچلے طبقات کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کا ہے، کیونکہ دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی نچلے طبقات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے روکنے کی گہری سازش کی جا رہی ہے جس کا مقصد نچلے طبقات کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں غریبوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں وہ عوام کے اتنے بڑے اور سیریس مسئلہ پر خاموشی کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ تعلیم کے شعبے میں تدریس کا کام انجام دینے والے لاکھوں اساتذہ کو بھی ان کے حق کے مطابق معاوضہ نہیں دیا جاتا، اساتذہ اور طلبا کا رشتہ لازم و ملزوم جیسا ہے، اگر عوام دوست سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ اسکولوں کی مالی دھاندلیوںکے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو اساتذہ اور پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا ان کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح فیسوں میں جابرانہ اضافے کو ختم کرانے کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔
ہماری باکمال اپوزیشن بدقسمتی سے لوٹ مارکی طاقتوں کی سپلیمنٹری بنی ہوئی ہے، نان ایشوز پر تو قانون ساز اداروں میں ہنگامہ آرائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں لیکن عوام کے حقیقی مسائل پر انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں پر ایسے لوگ قابض ہیں جن کے ایجنڈے کا پہلا حصہ لوٹ مار ہے جب صورتحال یہ ہو تو ملک میں انصاف کا کیا حال ہوسکتا ہے ، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی لوٹ مار کا عالم یہ رہا ہے کہ خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے بھاری رشوت ایک ناگزیر حصہ ہے ماضی میں ایک ایک وزیر نے اس مد میں کروڑوں روپے کمائے جس کا چرچہ میڈیا میں ہوتا رہا لیکن حکمران طبقہ ٹس سے مس نہ ہوا اور آج بھی لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہماری اشرافیہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کمپٹیشن نہیں چاہتی، خاص طور پر غریب طبقات کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ انھیں بھی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا حق ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار اور ریشو اس قدر گرا ہوا ہے کہ عام اور نام نہاد پرائیویٹ اسکولوں میں اعلیٰ صلاحیتوں کے طلبا صرف اشرافیہ کا پروڈکٹ ہوتے ہیں غریب طبقات کے طلبا ہر جگہ دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں میں بھاری فیسوں کا مسئلہ میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ ماضی کے حکمران طبقات اس قسم کے اہم ترین مسائل کو جو عوام کے مستقبل پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ 71 سال کے اس اسٹیٹس کو کے بعد ایک مڈل کلاسر حکومت اس دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اولیت دے گی لیکن اسے ماضی کے حکمرانوں نے کھربوں روپوں کے قرض میں اس طرح باندھ کر رکھا ہے کہ وہ ایک طرح سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف اس کے سر پر قرضوں کا اس قدر بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ وہ گردن نہیں ہلاسکتی، دوسری طرف اس کے خلاف اسمبلیوں کے اندر اور میڈیا میں یہ بددیانتانہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ حکومت نااہل ہے اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
اپوزیشن حکومت کو الزام دے کر ایک طرف برسر اقتدار لوگوں کو نااہل ثابت کر رہی ہے تو دوسری طرف عوامی مسائل کے حل کی راہ میں روڑے اٹکانے کی شعوری کوشش کر رہی ہے۔ تعلیم کا مسئلہ نہ صرف عوام کا بنیادی مسئلہ ہے بلکہ اس سے ملک کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔ تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کے پیش نظر حکومت کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی کے مسئلے کو اولیت دے اور ہر رکاوٹ ہر سازش کو ناکام بناکر فیسوں میں کمی کرائے۔
سرمایہ داری ایک طبقاتی نظام ہے اور اس نظام میں عوام کی خوشحال زندگی یا بد حال زندگی کا تعین طبقات کی مالی حیثیت سے ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ماڈرن ایجوکیشن ایک ایسا دل فریب دھوکا ہے خاص طور پر لوئر مڈل کلاس کے لیے کہ وہ اپنی سطح سے اوپر جانے کی خواہش اورکوشش میں ایک ایسے جال میں پھنس جاتی ہے کہ وہ نہ ادھر کی رہتی ہے نہ اُدھر کی۔ یہی صورتحال ہماری لوئر مڈل کلاس کی ہے نہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے آپ کو بڑے لوگوں میں شامل کرسکتی ہے نہ اپنی کلاس میں رہ کر وہ سہولتیں حاصل کرسکتی ہے جس کی خواہش میں وہ مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ایک عرصے سے فیسیں کم کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں حکومت اور عدلیہ کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ نے بھی فیسیں کم کرنے سے انکارکیا اور اس حوالے سے حیلے بہانے تراشتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدلیہ اور اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے دیے جانے والے احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی رہی تو پھر عوام انصاف کے لیے کون سے اداروں کی طرف دیکھیں؟ حکومتی احکامات کے باوجود آج بھی دھڑلے سے طلبا سے بھاری فیسیں لی جا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف فیسوں میں کمی بیشی کا نہیں بلکہ نچلے طبقات کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کا ہے، کیونکہ دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی نچلے طبقات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے روکنے کی گہری سازش کی جا رہی ہے جس کا مقصد نچلے طبقات کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں غریبوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں وہ عوام کے اتنے بڑے اور سیریس مسئلہ پر خاموشی کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ تعلیم کے شعبے میں تدریس کا کام انجام دینے والے لاکھوں اساتذہ کو بھی ان کے حق کے مطابق معاوضہ نہیں دیا جاتا، اساتذہ اور طلبا کا رشتہ لازم و ملزوم جیسا ہے، اگر عوام دوست سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ اسکولوں کی مالی دھاندلیوںکے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو اساتذہ اور پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا ان کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح فیسوں میں جابرانہ اضافے کو ختم کرانے کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔
ہماری باکمال اپوزیشن بدقسمتی سے لوٹ مارکی طاقتوں کی سپلیمنٹری بنی ہوئی ہے، نان ایشوز پر تو قانون ساز اداروں میں ہنگامہ آرائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں لیکن عوام کے حقیقی مسائل پر انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں پر ایسے لوگ قابض ہیں جن کے ایجنڈے کا پہلا حصہ لوٹ مار ہے جب صورتحال یہ ہو تو ملک میں انصاف کا کیا حال ہوسکتا ہے ، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی لوٹ مار کا عالم یہ رہا ہے کہ خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے بھاری رشوت ایک ناگزیر حصہ ہے ماضی میں ایک ایک وزیر نے اس مد میں کروڑوں روپے کمائے جس کا چرچہ میڈیا میں ہوتا رہا لیکن حکمران طبقہ ٹس سے مس نہ ہوا اور آج بھی لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہماری اشرافیہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کمپٹیشن نہیں چاہتی، خاص طور پر غریب طبقات کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ انھیں بھی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا حق ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار اور ریشو اس قدر گرا ہوا ہے کہ عام اور نام نہاد پرائیویٹ اسکولوں میں اعلیٰ صلاحیتوں کے طلبا صرف اشرافیہ کا پروڈکٹ ہوتے ہیں غریب طبقات کے طلبا ہر جگہ دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں میں بھاری فیسوں کا مسئلہ میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ ماضی کے حکمران طبقات اس قسم کے اہم ترین مسائل کو جو عوام کے مستقبل پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ 71 سال کے اس اسٹیٹس کو کے بعد ایک مڈل کلاسر حکومت اس دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اولیت دے گی لیکن اسے ماضی کے حکمرانوں نے کھربوں روپوں کے قرض میں اس طرح باندھ کر رکھا ہے کہ وہ ایک طرح سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف اس کے سر پر قرضوں کا اس قدر بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ وہ گردن نہیں ہلاسکتی، دوسری طرف اس کے خلاف اسمبلیوں کے اندر اور میڈیا میں یہ بددیانتانہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ حکومت نااہل ہے اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
اپوزیشن حکومت کو الزام دے کر ایک طرف برسر اقتدار لوگوں کو نااہل ثابت کر رہی ہے تو دوسری طرف عوامی مسائل کے حل کی راہ میں روڑے اٹکانے کی شعوری کوشش کر رہی ہے۔ تعلیم کا مسئلہ نہ صرف عوام کا بنیادی مسئلہ ہے بلکہ اس سے ملک کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔ تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کے پیش نظر حکومت کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی کے مسئلے کو اولیت دے اور ہر رکاوٹ ہر سازش کو ناکام بناکر فیسوں میں کمی کرائے۔