بلوچستان میں پانی کی شدید قلت
اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 160 کلومیٹر دور ضلع کیچ میں واقع میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 160 کلومیٹر دور ضلع کیچ میں واقع میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ فوٹو :فائل
بلوچستان بھر میں بارشوں اور برف باری کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اس کے باوجود صوبے میں پانی کی شدید ترین قلت ہے۔کوئٹہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہے، کیونکہ کا ریزکا نظام مکمل تباہ ہوچکا ہے اور ٹیوب ویلزکی بہتات کے باعث قدرتی چشمے خشک ہوگئے ہیں، ضلع کوہلو میں گزشتہ دس برس سے شہری علاقوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ تا حال حل نہیں ہوسکا ہے جب کہ مکران ڈویژن کے بعض علاقے بھی خشک سالی سے دوچار ہیں۔
اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 160 کلومیٹر دور ضلع کیچ میں واقع میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے فی ٹینکر 10 سے 12 ہزار روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ پشکان کو پہلے روزانہ ڈیڑھ لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن آج کل 60 سے 70 ہزارگیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔گوادر میں پانی کی طلب 25 لاکھ گیلن روزانہ ہے لیکن اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 12 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
صوبائی حکومت ضلع چاغی میں پانی کے سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ہر تحصیل میں ڈیم تعمیرکرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دراصل بلوچستان کے ڈیمز اس قابل نہیں کہ ان میں پانی کا وافر ذخیرہ کیا جاسکے گوکہ صوبے کے ساتھ طویل ساحل سمندر ہے۔کھارے پانی سے نمکیات دورکرنے کے لیے کوئیDESALINATION پلانٹ نہیں لگایا گیا ہے کہ سمندر سے حاصل ہونے والے وافر پانی کو قابل استعمال بنایا جاسکے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کی تقدیر تبدیل دے گا لیکن اس منصوبے کے تحت ہمیں عوام کے لیے صاف پانی کی فراہمی کو اولین ترجیح دینی چاہیے، ورنہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا نظر نہیں آتا اور اس طرح بلوچستان کی ترقی کا خواب ادھورے رہ جائے گا۔
اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 160 کلومیٹر دور ضلع کیچ میں واقع میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے فی ٹینکر 10 سے 12 ہزار روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ پشکان کو پہلے روزانہ ڈیڑھ لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن آج کل 60 سے 70 ہزارگیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔گوادر میں پانی کی طلب 25 لاکھ گیلن روزانہ ہے لیکن اس وقت گوادر شہرکو ٹینکروں کے ذریعے 12 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
صوبائی حکومت ضلع چاغی میں پانی کے سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ہر تحصیل میں ڈیم تعمیرکرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دراصل بلوچستان کے ڈیمز اس قابل نہیں کہ ان میں پانی کا وافر ذخیرہ کیا جاسکے گوکہ صوبے کے ساتھ طویل ساحل سمندر ہے۔کھارے پانی سے نمکیات دورکرنے کے لیے کوئیDESALINATION پلانٹ نہیں لگایا گیا ہے کہ سمندر سے حاصل ہونے والے وافر پانی کو قابل استعمال بنایا جاسکے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کی تقدیر تبدیل دے گا لیکن اس منصوبے کے تحت ہمیں عوام کے لیے صاف پانی کی فراہمی کو اولین ترجیح دینی چاہیے، ورنہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا نظر نہیں آتا اور اس طرح بلوچستان کی ترقی کا خواب ادھورے رہ جائے گا۔