قتل و غارت کی مذمّت

شاکر فاروقی  جمعـء 1 مارچ 2019
’’ کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (بخاری)۔ فوٹو: فائل

’’ کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (بخاری)۔ فوٹو: فائل

ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’جو کوئی کسی کو قتل کرے، جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔‘‘ (سورۃ المائدہ)

قرآن مجید کی یہ آیت قتلِ ناحق کے خلاف، خالقِ کائنات کی جانب سے ایک مقدمہ ہے۔ آج ہر جانب قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں قتل ہو رہے ہیں۔ جنہیں مائیں برسوں جھولا جُھلا کر جوان کرتی ہیں، کسی شقی القلب کی انا کی بھینٹ چڑھ کر آن واحد میں ماضی کی گَرد بن جاتے ہیں۔ بلا تفریق رنگ و نسل، عمر و جنس ہر ایک قتل کیا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب والدین کے ہاتھوں اپنے بچوں کے قتل کی لرزہ خیز خبریں سننے میں آ رہی ہیں۔ عدم برداشت کا مرض ہر کچے پکے گھر میں پہنچ چکا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے بھی دم سادھے خاموش ہیں۔ اخبارات میں روزانہ قتل کی بیسیوں خبریں منہ چڑا رہی ہوتی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہیں معمول کا قصہ سمجھ کر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ اہل علم کے قلم خشک ہوگئے ہیں اور اہل اقتدار اپنے اقتدار کے گھن چکر میں پس رہے ہیں۔

اسلام کے نام لیوا بعض لوگ، انسانیت کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ معمولی بات پر انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، جو کسی نہ کسی زندگی کی شام ہونے تک نہیں بجھتی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ’’ تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لیے ایسے ہی حرمت کا درجہ رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور اس دن (یوم عرفات) کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جا ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘

قتل کے لیے لڑائی کرنے کو حدیث مبارکہ میں کفر قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (بخاری) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان کو اپنے دین کے معاملے میں اس وقت تک (معافی کی) گنجائش رہتی ہے، جب تک وہ حرام طریقے سے کسی کا خون نہ بہائے۔‘‘ (بخاری)

عزت و غیرت کے نام پر قتل میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس باب میں اصول و ضوابط اور قوانین بنا کر دیے ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو ناممکن ہے کہ اس مسئلے کی جڑ پر قابو نہ پایا جا سکے۔ اس کے لیے تعلیم کے ساتھ شعور اور اچھی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ نصاب اس طرح ترتیب دیا جائے کہ بچپن ہی سے بچوں میں اخلاق، صبر و تحمل اور دینی اقدار کی پاس داری پیدا ہو جائے۔ انہیں آداب معاشرت سے روشناس کرایا جائے۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی لائی جائے۔ فوری اور سستا انصاف بھی جرائم کی شرح کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں یہ قول یاد رکھنا چاہیے: ’’سلطنت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔