پاکستان میں موجود جنگلی گینڈے اور دریائی گھوڑے کی تنہائی کے سبب ہلاکت کا خدشہ

جنگلی گینڈے اور دریائی گھوڑے اپنے ساتھی کے مرنے کے بعد دماغی عارضوں کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں

جنگلی گینڈا اور دریائی گھوڑا جیسے جانور اپنے ساتھی کے مرنے کے بعد دماغی عارضوں کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں (فوٹو: ایکسپریس)

پاکستان میں موجود آخری جنگلی گینڈے اور دریائی گھوڑے کو طویل عرصے سے تنہا رکھا جارہا ہے جس کے باعث دونوں جانوروں کے بیمار ہونے اور دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جنگلی گینڈا دنیا بھر میں ناپید ہورہا ہے اور پاکستان میں صرف ایک ہی جنگلی گینڈا موجود ہے۔

لاہور چڑیا گھر میں موجود یہ دونوں نایاب جانور تنہا زندگی گزار رہے ہیں جو ان کی زندگی کے لیے مسلسل خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ افریقن نسل کا نر گینڈا جولائی 2006ء میں یہاں لایا گیا تھا اور اس وقت اس کی عمرتقریبا 20 سے 22 سال ہے اور یہ جوان ہے۔ 2014ء میں اس کی مادہ کی موت واقع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اب گینڈا گزشتہ 5 سال سے تنہا زندگی گزار رہا ہے اور پاکستان میں افریقن نسل کا یہ اکلوتا گینڈا ہے۔



یہ بات زیر غور رہے کہ رواں سال جنوری میں بہاولپور کے لال سوہانرا پارک میں مادہ گینڈا ہلاک ہوگئی تھی اوراس کی جدائی میں صرف ڈیڑھ ماہ بعد ہی نر گینڈا بھی دم توڑ گیا تھا۔

لال سوہانرا نیشنل پارک میں نر گینڈا کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں موجود ایک سینئر ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ اس کی موت کی وجہ اس کی تنہائی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آسکی تھی جس سے اس کی موت واقع ہوتی، مادہ گینڈا کی موت کی بعد اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور یہی تنہائی اس کی موت کی وجہ بنی، یہ جوڑا شاہ نیپال نے نیشل پارک کے لیے تحفے کے طور پر دیا تھا۔




ڈاکٹر رضوان کے مطابق ہاتھی، گینڈا، دریائی گھوڑا سناھئ رابطہ رکھنے والے جانور ہیں، تنہائی ان کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ اگران کا ساتھی مرجائے تو دوسرے کے لیے باقی زندگی گزارنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے، ایسا جانور دماغی امراض کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی طبعی عمر کم ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ ایسی صورت میں ان جانوروں کے پنجروں میں اس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے جس میں خود کو مصروف رکھ سکیں، ان کےنگراں یا کیپر بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ یہ جانور زیادہ سے زیادہ مانوس ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح لاہور چڑیا گھر میں دوسرا نایاب جانور مادہ دریائی گھوڑا ہے، یہ جانور جولائی 2006ء میں لایا گیا تھا اور اس کا نر اکتوبر 2015ء میں مرگیا تھا جس کے بعد سے یہ بھی تنہائی کا شکار ہے۔



لاہور چڑیا گھر انتظامیہ نے فروری 2018ء میں ہاتھی، چمپنزی، گینڈا اور دریائی گھوڑا سمیت 11 کروڑ روپے مالیت سے جانور خریدنے کے لیے ورک آرڈر جاری کیے تھے تاہم ایک سال گزر جانے کے باوجود ہاتھی، چمپینزی، گینڈا اور دریائی گھوڑا نہیں لائے جاسکے۔
Load Next Story