مغربی ملکوں میں بڑھتا ہوا فاشسٹ رویہ
مغربی ملکوں کی قیادت اور دانشور طبقے کا فرض ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے فاشزم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں
مغربی ملکوں کی قیادت اور دانشور طبقے کا فرض ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے فاشزم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں (فوٹو: فائل)
KARACHI:
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 49 نمازیوں کی شہادت نے ہر پاکستانی کو دکھی کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک سانحہ میں شہید اور لاپتہ ہونے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھی اور فہرست تیار کی جا رہی ہے۔ نیوزی لینڈ حکام نے کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی میں چھ پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق شہید ہونے والوں میں ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹا نعیم رشید اور ان کے صاحبزادے طلحہ نعیم ،راولپنڈی کے رہائشی محمود ہارون اور کراچی کے رہائشی سہیل شاہد، سید جہانداد علی اور سید اریب احمد شامل ہیں۔تین لاپتہ افراد پاکستانیوں کی شناخت کا عمل جاری ہے جن میں ذیشان رضا ،ان کے والد اوروالدہ شامل ہیں۔
کرائسٹ چرچ کی مقامی پولیس کی جانب سے 74 گمشدہ افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ یہ فہرست اہلخانہ اور سفارتی مشنز کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ہفتہ کو پاکستان اور ایران کے لیے تہران میں تعینات نیوزی لینڈ کے سفیرہمش میک ماسٹر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔سیکریٹری خارجہ نے کرائسٹ چرچ دہشت گرد حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر تعزیت اورافسوس کا اظہار کیا اور حملے میں متاثرہ پاکستانیوں کے لواحقین کے لیے ہر ممکن تعاون کی درخواست کی۔
سانحہ کرائسٹ چرچ کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہے' اصل حقائق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی منظرعام پر آئیں گے کہ ان بے گناہ نمازیوں کو شہید کرنے والے آسٹریلیا کے شہری برینٹن ٹیرنٹ کے پیچھے کون سے عناصر اور مافیا کار فرما ہیں اور انھوں نے ایسی گھناؤنی کارروائی سے کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بادی النظر میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کارروائی کے پس منظر میں یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں رہائش پذیر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا اور انھیں وہاں سے نکالنا مقصود ہو سکتا ہے۔
برینٹن ٹیرنٹ سفید فام نسل پرستی کے نظریے سے بھی متاثر ہے۔یورپ کے ملکوں میں سفید فام نسل پرستی فروغ پا رہی ہے، یہ لوگ فاشسٹ نظریات کے حامل ہیں جو رنگ دار نسل خوصاً مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ یورپ اور وہ ممالک جہاں سفید فام اکثریت ہے، وہاں صرف سفید فام لوگوں کو ہی رہنے کا حق ہے۔ یہ لوگ یورپ ، نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں تارکین وطن کے سخت خلاف ہیں۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی ہے، اس نے سفید فام نظریات کی انتہا پسندی اور سفاکی کو طشت ازبام کردیا ہے ، دہشت گردی کی یہ واردات دل دہلا دینے والی ہے۔ اس سے پیشتر جب بھی یورپ یا امریکا میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی رونما ہوتی تو اسے فوراً اسلامی انتہا پسندی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے لیکن اب یورپ میں نسل پرستی کی جو متشدد اور انتقام پر مبنی نئی لہر اٹھی ہے جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے' اس نئی لہر کو اسلامو فوبیا کا نام دیا جا رہا ہے، یہ ایک ایسی خطرناک صورت حال ہے جس پر جس قدر جلد قابو پا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
مغربی ممالک کی حکومتیں اس عفریت پر قابو پانے کی کوشش تو کررہی ہیں لیکن وہ نفرت پر مبنی نظریات کو روکنے کے لیے فی الحال کوئی اقدام نہیں کررہی ہیں۔ بریٹن ٹیرنٹ کا یہ گھناؤنا فعل یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات رکھنے والے نسل پرستوں کے کھیل کا ایک حصہ ہے' یہ ایک ایسے برفانی تودے کا بالائی سرا ہے جس کے نیچے ایک بہت بڑا پہاڑ موجود ہے' اگر اسلامو فوبیا کے اس طوفان پر قابو نہ پایا گیا تو ایسے بڑے انسانی المیے رونما ہوتے رہیں گے کیونکہ یورپی ملکوں میں فاشسٹ نظریات بہت تیزی سے فروغ پا رہے ہیں اور ایسے نظریات کی روک تھام کے لیے متبادل بیانیہ موجود نہیں ہے اور یوں صورتحال خاصی سنگین ہوچکی ہے۔
کرائسٹ چرچ کے سانحہ کے موقعے پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا انتہائی مشفقانہ' ہمدردانہ اور ذمے دارانہ رویہ سامنے آیا ہے' انھوں نے اس سانحہ میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کی بھرپور کوشش کی وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
اس موقعے پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈر نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف نیوزی لینڈ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمان ہمارے دل میں ہیں اور اس مشکل گھڑی میں ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
جسٹن ٹروڈر نے آنے والے خطرات کو بھانپتے ہوئے نہایت اہم بات کی کہ ہمیں اس اسلاموفوبیا پر قابو پانا ہو گا اور ایک ایسا معاشرہ بنانا ہو گا جہاں ہر مذہب' نسل اور رنگ کا انسان خود کو محفوظ تصور کرے۔ برینٹن ٹیرنٹ کے بارے میں اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق وہ مسلمان مخالف اور انتہا پسند فاشسٹ گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشت گرد اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی افسوسناک واردات سر انجام دی۔ بریوک نے 2011میں ناروے میں فائرنگ کر کے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
کرائسٹ چرچ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر اسی انتہا پسند اور متشدد سوچ کی غماز ہیں۔یورپ کے بعض حلقے نے برینٹن ٹیرنٹ کو ذہنی مریض قرار دے کر اس سانحہ کے پس پردہ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس قسم کی تاویلات سے سفید فام نسل پرستی کی ابھرتی ہوئی متشدد سوچ کو چھپایا نہیں جا سکتا اور نہ انسانیت پر ہونے والے اس حملے کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف جو چند گروہ سرگرم ہیں یورپی ممالک کو ان کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا ہو گا اور اسلامو فوبیا کی سوچ کو پروان چڑھانے والے افرادکو قانون کی گرفت میں لا کر نشان عبرت بنانا ہوگا، ادھر مسلم ملکوں کو بھی اس صورتحال پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، مسلم ملکوں کو سرگرم بعض گروہ اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے مسلمانوں کا ہی نقصان کررہے ہیں۔
بہرحال مغربی ملکوں کی قیادت اور دانشور طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں بڑھتے ہوئے فاشزم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں،اگر اس موقعے پر لاپروائی اور تساہل کا مظاہرہ کیا گیا اور ایسی گھناؤنی اور مکروہ سوچ رکھنے والے افراد کو پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا تو اس سے یورپ کے امن و امان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یورپ میں ہونے والی ترقی میں وہاں موجود امن و امان اور انسانی احترام کا کلیدی کردار ہے۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 49 نمازیوں کی شہادت نے ہر پاکستانی کو دکھی کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک سانحہ میں شہید اور لاپتہ ہونے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھی اور فہرست تیار کی جا رہی ہے۔ نیوزی لینڈ حکام نے کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی میں چھ پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق شہید ہونے والوں میں ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹا نعیم رشید اور ان کے صاحبزادے طلحہ نعیم ،راولپنڈی کے رہائشی محمود ہارون اور کراچی کے رہائشی سہیل شاہد، سید جہانداد علی اور سید اریب احمد شامل ہیں۔تین لاپتہ افراد پاکستانیوں کی شناخت کا عمل جاری ہے جن میں ذیشان رضا ،ان کے والد اوروالدہ شامل ہیں۔
کرائسٹ چرچ کی مقامی پولیس کی جانب سے 74 گمشدہ افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ یہ فہرست اہلخانہ اور سفارتی مشنز کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ہفتہ کو پاکستان اور ایران کے لیے تہران میں تعینات نیوزی لینڈ کے سفیرہمش میک ماسٹر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔سیکریٹری خارجہ نے کرائسٹ چرچ دہشت گرد حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر تعزیت اورافسوس کا اظہار کیا اور حملے میں متاثرہ پاکستانیوں کے لواحقین کے لیے ہر ممکن تعاون کی درخواست کی۔
سانحہ کرائسٹ چرچ کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہے' اصل حقائق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی منظرعام پر آئیں گے کہ ان بے گناہ نمازیوں کو شہید کرنے والے آسٹریلیا کے شہری برینٹن ٹیرنٹ کے پیچھے کون سے عناصر اور مافیا کار فرما ہیں اور انھوں نے ایسی گھناؤنی کارروائی سے کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بادی النظر میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کارروائی کے پس منظر میں یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں رہائش پذیر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا اور انھیں وہاں سے نکالنا مقصود ہو سکتا ہے۔
برینٹن ٹیرنٹ سفید فام نسل پرستی کے نظریے سے بھی متاثر ہے۔یورپ کے ملکوں میں سفید فام نسل پرستی فروغ پا رہی ہے، یہ لوگ فاشسٹ نظریات کے حامل ہیں جو رنگ دار نسل خوصاً مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ یورپ اور وہ ممالک جہاں سفید فام اکثریت ہے، وہاں صرف سفید فام لوگوں کو ہی رہنے کا حق ہے۔ یہ لوگ یورپ ، نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں تارکین وطن کے سخت خلاف ہیں۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی ہے، اس نے سفید فام نظریات کی انتہا پسندی اور سفاکی کو طشت ازبام کردیا ہے ، دہشت گردی کی یہ واردات دل دہلا دینے والی ہے۔ اس سے پیشتر جب بھی یورپ یا امریکا میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی رونما ہوتی تو اسے فوراً اسلامی انتہا پسندی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے لیکن اب یورپ میں نسل پرستی کی جو متشدد اور انتقام پر مبنی نئی لہر اٹھی ہے جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے' اس نئی لہر کو اسلامو فوبیا کا نام دیا جا رہا ہے، یہ ایک ایسی خطرناک صورت حال ہے جس پر جس قدر جلد قابو پا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
مغربی ممالک کی حکومتیں اس عفریت پر قابو پانے کی کوشش تو کررہی ہیں لیکن وہ نفرت پر مبنی نظریات کو روکنے کے لیے فی الحال کوئی اقدام نہیں کررہی ہیں۔ بریٹن ٹیرنٹ کا یہ گھناؤنا فعل یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات رکھنے والے نسل پرستوں کے کھیل کا ایک حصہ ہے' یہ ایک ایسے برفانی تودے کا بالائی سرا ہے جس کے نیچے ایک بہت بڑا پہاڑ موجود ہے' اگر اسلامو فوبیا کے اس طوفان پر قابو نہ پایا گیا تو ایسے بڑے انسانی المیے رونما ہوتے رہیں گے کیونکہ یورپی ملکوں میں فاشسٹ نظریات بہت تیزی سے فروغ پا رہے ہیں اور ایسے نظریات کی روک تھام کے لیے متبادل بیانیہ موجود نہیں ہے اور یوں صورتحال خاصی سنگین ہوچکی ہے۔
کرائسٹ چرچ کے سانحہ کے موقعے پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا انتہائی مشفقانہ' ہمدردانہ اور ذمے دارانہ رویہ سامنے آیا ہے' انھوں نے اس سانحہ میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کی بھرپور کوشش کی وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
اس موقعے پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈر نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف نیوزی لینڈ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمان ہمارے دل میں ہیں اور اس مشکل گھڑی میں ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
جسٹن ٹروڈر نے آنے والے خطرات کو بھانپتے ہوئے نہایت اہم بات کی کہ ہمیں اس اسلاموفوبیا پر قابو پانا ہو گا اور ایک ایسا معاشرہ بنانا ہو گا جہاں ہر مذہب' نسل اور رنگ کا انسان خود کو محفوظ تصور کرے۔ برینٹن ٹیرنٹ کے بارے میں اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق وہ مسلمان مخالف اور انتہا پسند فاشسٹ گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشت گرد اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی افسوسناک واردات سر انجام دی۔ بریوک نے 2011میں ناروے میں فائرنگ کر کے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
کرائسٹ چرچ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر اسی انتہا پسند اور متشدد سوچ کی غماز ہیں۔یورپ کے بعض حلقے نے برینٹن ٹیرنٹ کو ذہنی مریض قرار دے کر اس سانحہ کے پس پردہ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس قسم کی تاویلات سے سفید فام نسل پرستی کی ابھرتی ہوئی متشدد سوچ کو چھپایا نہیں جا سکتا اور نہ انسانیت پر ہونے والے اس حملے کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف جو چند گروہ سرگرم ہیں یورپی ممالک کو ان کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا ہو گا اور اسلامو فوبیا کی سوچ کو پروان چڑھانے والے افرادکو قانون کی گرفت میں لا کر نشان عبرت بنانا ہوگا، ادھر مسلم ملکوں کو بھی اس صورتحال پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، مسلم ملکوں کو سرگرم بعض گروہ اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے مسلمانوں کا ہی نقصان کررہے ہیں۔
بہرحال مغربی ملکوں کی قیادت اور دانشور طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں بڑھتے ہوئے فاشزم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں،اگر اس موقعے پر لاپروائی اور تساہل کا مظاہرہ کیا گیا اور ایسی گھناؤنی اور مکروہ سوچ رکھنے والے افراد کو پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا تو اس سے یورپ کے امن و امان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یورپ میں ہونے والی ترقی میں وہاں موجود امن و امان اور انسانی احترام کا کلیدی کردار ہے۔