لائن آف جہل

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے درندے بھی جاندار ہوتے ہیں لیکن انھیں اشرف المخلوقات کا اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ایک چار کالمی خبر کے مطابق بھارتی فوج نے اتوار کی سہ پہر چکوٹھی، پانڈو اور کھلانہ سیکٹرز کی سول آبادی پر بلااشتعال گولہ باری کی جس سے ایک عمر رسیدہ شخص اور ایک خاتون شہید جب کہ چار افراد اور ایک نامعلوم بچہ زخمی ہوگیا۔ متعدد مکانات ایک گاڑی ایک ایمبولینس تباہ ہوگئی۔ کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقوں سے لوگ محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئے۔

ٹریڈ سینٹر چکوٹھی میں مقبوضہ کشمیر جانے کے لیے کھڑے کیے گئے ٹرک بھی محفوظ مقامات کی طرف روانہ ہوگئے۔ چکوٹھی بازار بند کردیا گیا۔ علاقے میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ پاک فوج کی جانب سے بھارتی گولہ باری کا موثر جواب دیا جا رہا ہے۔ عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انھیں بم پروف بنکر تعمیر کرکے دے آج مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے سوگ میں تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

لائن آف کنٹرول پر آئے دن فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس میں ہمیشہ بے گناہ سویلین کا جانی نقصان ہوتا رہتا ہے یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور اب تک ہزاروں لوگ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں اور اس بھارتی گولہ باری کے جواب میں پاکستان کی طرف سے ہونے والی گولہ باری اور فائرنگ سے بھی بھارتی باشندوں کا نقصان ہونا یقینی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تفریحی فائرنگ میں جو لوگ جانوں سے جاتے ہیں ان کا قصور کیا ہے اور اس جانی نقصان کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تقریباً ہر روز ہی فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اس میں جانی نقصان ہوتا رہتا ہے۔

اس تازہ گولہ باری میں جن لوگوں کا جانی نقصان ہوا ہے اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی؟ دنیا میں متحارب ملکوں کے درمیان سرحدوں پر جھڑپیں ہونا اور بے گناہ اور معصوم لوگوں کا شہید ہونا ایک عام سی بات ہے۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نہ ختم ہونے والے افسوس ناک سلسلے کا تدارک کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ تازہ واردات میں جاں بحق ہونے والے 2 افراد اور زخمی ہونے والے چار افراد کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب پہرہ دینے والے سپاہی بھی انسان ہی ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں یہ زہر گھول دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور ایک دوسرے کی جان لینا ان کا قومی فریضہ ہے۔ یہ سائیکی آج کی نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال سے انسانی فطرت کا حصہ بنی ہوئی ہے۔

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے درندے بھی جاندار ہوتے ہیں لیکن انھیں اشرف المخلوقات کا اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کو چیر پھاڑتے ہیں، درندوں کی چیر پھاڑکو تو وحشیانہ حرکت کہا جاتا ہے لیکن انسان گولیوں اور گولوں کے ذریعے جس طرح ایک دوسرے کی جان لیتا ہے کیا یہ درندوں سے کم خوفناک ہوتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ قتل و غارت کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے ہابیل اور قابیل سے مار دھاڑ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ اب مہذب انسان کے ایٹم بموں، ایٹمی میزائلوں تک آ پہنچا ہے اور یہ ہتھیار وقت واحد میں لاکھوں انسانوں کو نیست و نابود کردیتے ہیں۔کیا انسان کی اس بربریت کے بعد انسان اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہے؟


ماضی کی جنگوں میں تلوار، تیر اور نیزوں سے جنگیں لڑی جاتی تھیں جسے وحشیانہ کہا جاتا ہے بلاشبہ تیروں اور تلواروں سے ایک دوسرے کی جان لینا ایک ظالمانہ طریقہ لگتا ہے لیکن تلواروں اور تیروں سے ایک شخص کی جان لی جاتی ہے لیکن ماضی کے ظالم انسانوں کے مقابلے میں آج کا مہذب انسان ایک ایٹم بم سے لاکھوں انسانوں کو جلاکر خاک کردیتا ہے۔ کیا حال کا انسان ماضی کے انسان سے زیادہ مہذب ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑائی کس بات پر ہے انسان انسانوں کی جانیں کس جرم میں لے رہا ہے؟ کشمیر اور فلسطین میں لگ بھگ 70 سال سے قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے وجہ کیا ہے؟ کشمیر میں مسلمان رہتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ہے جسے ہندوستان پسند نہیں کرتا کیونکہ وہ ہندو دھرم کا ماننے والا ہے۔

اب ذرا ان دھرموں کی طرف آئیے کوئی انسان اپنی مرضی اور خوشی سے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہیں بنتا وہ جس مذہب کے ماننے والوں کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اسی مذہب سے اس کا ناتا جڑ جاتا ہے اگرکوئی بچہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو لازماً وہ مسلمان کہلائے گا۔ اگر کوئی بچہ کسی ہندو گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو یقینا وہ ہندو کہلائے گا۔ کوئی بچہ اگر سکھ گھرانے میں پیدا ہوگا تو وہ سکھ کھلائے گا۔

اگر کوئی بچہ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوگا تو وہ عیسائی کہلائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بچہ کسی مذہب کسی گھرانے میں اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے؟ کیا کسی نومولود کی مرضی اس کی پیدائش میں شامل ہوتی ہے؟ جب ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو اس تقسیم کا جواز کیا ہے اگر تقسیم کو مان بھی لیں تو اس تقسیم کے حوالے سے نفرتوں کا کیا جواز ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر مذہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے والوں ایک دوسرے کا خون بہانے والوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اب دنیا سر سے پیر تک بدل گئی ہے اور تقسیم کا مطلب نفرت اور دشمنی آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں سوائے حماقت کے کچھ نہیں۔

ہندوستان اور پاکستان 70 سال سے مسلسل محاذ آرائی کا شکار ہیں کشمیر مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے اور فطری طور پر کشمیر میں مسلمانوں کی حکومت ہونی چاہیے، لیکن چونکہ مانا جاتا ہے کہ کشمیر سے بھارت کے مفادات وابستہ ہیں لہٰذا ہندوستان نے اپنی فوجیں بھیج کر کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ یہ لاجک یعنی طاقت کی برتری کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔ کیا سائنس ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں طاقت کی برتری کے قانون کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس تقسیم اور تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی جنگ میں ستر ہزار انسان مارے گئے ہیں ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی کیا آج کی مہذب سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں مذہب کے نام پر ستر ہزار انسانوں کا قتل انسانوں کے لیے باعث شرم نہیں؟

چکوٹھی، پانڈو اور کھلانا میں بھارتی گولہ باری سے ہلاک ہونے والے چار افراد متحارب ملکوں سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تو بے گناہ سویلین ہیں انھیں کس قصور میں شہید اور زخمی کیا گیا دنیا میں ایک بین الاقوامی عدالت انصاف قائم ہے اگر وہ بے گناہ سویلین سے کے قتل کو روک نہیں سکتی تو بند کرو اس ڈفر عدالت کو اور دفع کرو اس قانون اور انصاف کے نظام کو۔
Load Next Story