مسئلہ سیاسی نہیں طبقاتی بن گیا ہے
ایسے نازک ترین حالات میں حکومت کا کوئی ایسا قدم جو عوام میں امید کے بجائے مایوسی پیدا کرے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
KARACHI:
وزیر اعظم عمران خان نے غربت مٹاؤ پروگرام کا افتتاح کردیا۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں غربت نے غریب انسانوں کا جینا حرام کر دیا ہے، کیا یہ انصاف کی کوئی قسم ہے کہ ملکوں کے 53 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں؟پاکستان سے پہلے دنیا کے کئی پسماندہ ملکوں میں غربت مٹاؤ پروگرام پر مختلف طریقوں سے عمل ہوتا رہا، بھارت میں تو غربت مٹاؤ پروگرام پر ایک مہم کے طور پر عمل کیا گیا لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان پروگراموں میں سے کسی پروگرام کو جزوی طور پر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہوا یہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہوتا رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے حکمران بڑے ''خلوص نیت'' سے غربت مٹاؤ پروگرام پر عملدرآمد کرتے ہیں لیکن یہ کمبخت غربت ہے کہ ختم ہوکر ہی نہیں دیتی۔
اس سوال کا جواب اس قسم کے نمائشی پروگراموں میں تلاش کرنا، ایک احمقانہ فعل اس لیے ہے کہ اس قسم کے پروگرام عموماً کمپنی کی مشہوری یعنی حکومتوں کی نیک نامی میں اضافے کے لیے کیے جاتے ہیں ان کا مقصد غربت میں کمی کرنا ہو ہی نہیں سکتا، ہر حکومت میں کچھ محکمے یا افراد کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی نیک نامی میں اضافے اور سادہ لوح بندوں کو بے وقوف بنا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ پروپیگنڈا ویلیو کے پروگرام اناؤنس کرتی رہتی ہیں، اس قسم کے پروگراموں کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو پروگرام اسپانسر کرنے والوں کے وارے نیارے ضرور ہوجاتے ہیں۔
ہم نے بارہا موجودہ حکومت کی تعریف اس لیے کی ہے کہ اس ملک میں ایک ہی عوام دشمن کلاس اشرافیہ برسراقتدار چلی آرہی ہے، اس طویل دورانیے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی سیاست اور اقتدار کے ہر شعبے میں اشرافیائی دیمک اس طرح گھر کر گئی کہ پورا ملک دیمک زدہ ہوکر رہ گیا۔ اس طلسم ہوش ربا سے نکلنے کی اور یہ سازشی سلسلے سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، ایسی مایوس کن صورتحال میں عمران خان کی شخصیت تبدیلی کا ایک امکان بن کر منظر عام پر آئی چونکہ عمران خان کا تعلق ملک کے مڈل کلاس طبقے سے ہے اس لیے جہاں عوام میں ایک مبہم سی خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اشرافیہ کی زندگی میں صف ماتم اس لیے بچھ گئی کہ ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لیے یہ تبدیلی ایک بڑے خطرے کا پیغام تھی۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ جو جو حربے استعمال کر رہی ہے، ان میں سب سے بڑا حربہ پروپیگنڈہ ہے، حکومت پر مختلف سمتوں سے شدید حملے کیے جا رہے ہیں۔
ایسے نازک ترین حالات میں حکومت کا کوئی ایسا قدم جو عوام میں امید کے بجائے مایوسی پیدا کرے، موجودہ حالات میں حکومت کے لیے فال نیک ثابت نہیں ہو سکتا۔ غربت کسی حکومت کی غلطی یا غلط پالیسی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ غربت اس نظام کا ایک لازمی حصہ ہے جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور وہ نظام ہے سرمایہ دارانہ جو ساری دنیا میں جاری و ساری ہے جو نظام غربت پیدا کرتا ہے، اسے آپ غربت مٹاؤ کے دلاسے دلانے والی مہموں کے ذریعے ہرگز ہرگز ختم نہیں کرسکتے۔
عمران حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا تعلق استحصالی طبقے سے نہیں بلکہ اس طبقے سے ہے جس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ صدیوں سے استحصال کا شکار اس طبقے کا فطری ردعمل یہی ہونا چاہیے کہ وہ اس استحصالی طبقے کے خلاف ایسے اقدامات کرے جس کی محض پروپیگنڈہ ویلیو نہ ہو۔ جیساکہ ہم نے وضاحت کی ہے غربت سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی اور بنیادی حصہ ہے اور منطقی طور پر اس کا خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔کیا عمران خان سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بدقسمتی سے نہیں میں آتا ہے۔ عمران خان غربت مٹاؤ مہم کا آغاز کر رہے ہیں اور غربت سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔
عمران خان ایک چھوٹے سے پسماندہ ملک کے سربراہ ہیں اور غربت سرمایہ دارانہ نظام کا اثاثہ ہے کیا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس اثاثے کو چھن جانے دیں گے؟ حکومت کی ایک کمزوری یہ نظر آتی ہے کہ اس حکومت میں پالیسی سازوں کا قحط نظر آتا ہے اور کوئی حکومت مستحکم اور موثر پالیسیوں کے بغیر زیادہ عرصے نہیں چل سکتی، نئی حکومتوں کے سربراہ اگر باشعور ہوں تو وہ سب سے پہلے ایک جامع اور عوامی امنگوں کے مطابق منشور کو اولیت دیتی ہے، محض شوپیس پروگراموں کے پیچھے نہیں بھاگتی۔
جب یہ بات طے ہے کہ غربت مکمل طور پر ختم نہیں کی جاسکتی تو پھر منطق کا تقاضا یہ ہے کہ غربت میں کمی کے ایسے پروگرام وضع کیے جائیں جن پر عمل کیا جاسکے جو مطلوبہ نتائج دے سکیں ۔اس قسم کی جاندار حکمت عملی اس لیے ضروری ہے کہ عوام کو اس کا براہ راست فائدہ حاصل ہوسکے جب عوام کو حکومت کی موثر پالیسیوں سے فائدہ ہو اور عوام کی غربت میں کمی آئے تو پھر اپوزیشن لاکھ پروپیگنڈہ مہمیں چلائیں۔ عوام اس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے یہ کوئی محیر العقول یا حیران کن کارنامہ نہیں عقل و شعور فکر و دانش کی بات ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت کی قومی پالیسیاں اہل دانش اہل فکر نہیں بناتے بلکہ بیورو کریسی کے اہلکار بناتے ہیں جن کا عوام اور عوامی مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت میں اپوزیشن کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی کمزوریوں کو اس مقصد کے ساتھ عوام میں پیش کرے کہ حکومت اپنی اصلاح کرلے لیکن ہماری سیاست جاریہ کی اخلاقیات کا مقصد تنقید کے ذریعے حکومت کی اصلاح نہیں بلکہ سازشوں اور عوامی طاقت کے مجرمانہ استعمال کے ذریعے حکومت کو ناکام بنانا ہے اس مہم میں جان اس لیے بھی آگئی ہے کہ مڈل کلاس حکومت کے اقتدار میں آنے سے اب یہ مسئلہ صرف سیاسی نہیں رہا بلکہ طبقاتی بھی بن گیا ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے غربت مٹاؤ پروگرام کا افتتاح کردیا۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں غربت نے غریب انسانوں کا جینا حرام کر دیا ہے، کیا یہ انصاف کی کوئی قسم ہے کہ ملکوں کے 53 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں؟پاکستان سے پہلے دنیا کے کئی پسماندہ ملکوں میں غربت مٹاؤ پروگرام پر مختلف طریقوں سے عمل ہوتا رہا، بھارت میں تو غربت مٹاؤ پروگرام پر ایک مہم کے طور پر عمل کیا گیا لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان پروگراموں میں سے کسی پروگرام کو جزوی طور پر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہوا یہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہوتا رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے حکمران بڑے ''خلوص نیت'' سے غربت مٹاؤ پروگرام پر عملدرآمد کرتے ہیں لیکن یہ کمبخت غربت ہے کہ ختم ہوکر ہی نہیں دیتی۔
اس سوال کا جواب اس قسم کے نمائشی پروگراموں میں تلاش کرنا، ایک احمقانہ فعل اس لیے ہے کہ اس قسم کے پروگرام عموماً کمپنی کی مشہوری یعنی حکومتوں کی نیک نامی میں اضافے کے لیے کیے جاتے ہیں ان کا مقصد غربت میں کمی کرنا ہو ہی نہیں سکتا، ہر حکومت میں کچھ محکمے یا افراد کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی نیک نامی میں اضافے اور سادہ لوح بندوں کو بے وقوف بنا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ پروپیگنڈا ویلیو کے پروگرام اناؤنس کرتی رہتی ہیں، اس قسم کے پروگراموں کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو پروگرام اسپانسر کرنے والوں کے وارے نیارے ضرور ہوجاتے ہیں۔
ہم نے بارہا موجودہ حکومت کی تعریف اس لیے کی ہے کہ اس ملک میں ایک ہی عوام دشمن کلاس اشرافیہ برسراقتدار چلی آرہی ہے، اس طویل دورانیے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی سیاست اور اقتدار کے ہر شعبے میں اشرافیائی دیمک اس طرح گھر کر گئی کہ پورا ملک دیمک زدہ ہوکر رہ گیا۔ اس طلسم ہوش ربا سے نکلنے کی اور یہ سازشی سلسلے سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، ایسی مایوس کن صورتحال میں عمران خان کی شخصیت تبدیلی کا ایک امکان بن کر منظر عام پر آئی چونکہ عمران خان کا تعلق ملک کے مڈل کلاس طبقے سے ہے اس لیے جہاں عوام میں ایک مبہم سی خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اشرافیہ کی زندگی میں صف ماتم اس لیے بچھ گئی کہ ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لیے یہ تبدیلی ایک بڑے خطرے کا پیغام تھی۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ جو جو حربے استعمال کر رہی ہے، ان میں سب سے بڑا حربہ پروپیگنڈہ ہے، حکومت پر مختلف سمتوں سے شدید حملے کیے جا رہے ہیں۔
ایسے نازک ترین حالات میں حکومت کا کوئی ایسا قدم جو عوام میں امید کے بجائے مایوسی پیدا کرے، موجودہ حالات میں حکومت کے لیے فال نیک ثابت نہیں ہو سکتا۔ غربت کسی حکومت کی غلطی یا غلط پالیسی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ غربت اس نظام کا ایک لازمی حصہ ہے جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور وہ نظام ہے سرمایہ دارانہ جو ساری دنیا میں جاری و ساری ہے جو نظام غربت پیدا کرتا ہے، اسے آپ غربت مٹاؤ کے دلاسے دلانے والی مہموں کے ذریعے ہرگز ہرگز ختم نہیں کرسکتے۔
عمران حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا تعلق استحصالی طبقے سے نہیں بلکہ اس طبقے سے ہے جس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ صدیوں سے استحصال کا شکار اس طبقے کا فطری ردعمل یہی ہونا چاہیے کہ وہ اس استحصالی طبقے کے خلاف ایسے اقدامات کرے جس کی محض پروپیگنڈہ ویلیو نہ ہو۔ جیساکہ ہم نے وضاحت کی ہے غربت سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی اور بنیادی حصہ ہے اور منطقی طور پر اس کا خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔کیا عمران خان سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بدقسمتی سے نہیں میں آتا ہے۔ عمران خان غربت مٹاؤ مہم کا آغاز کر رہے ہیں اور غربت سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔
عمران خان ایک چھوٹے سے پسماندہ ملک کے سربراہ ہیں اور غربت سرمایہ دارانہ نظام کا اثاثہ ہے کیا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس اثاثے کو چھن جانے دیں گے؟ حکومت کی ایک کمزوری یہ نظر آتی ہے کہ اس حکومت میں پالیسی سازوں کا قحط نظر آتا ہے اور کوئی حکومت مستحکم اور موثر پالیسیوں کے بغیر زیادہ عرصے نہیں چل سکتی، نئی حکومتوں کے سربراہ اگر باشعور ہوں تو وہ سب سے پہلے ایک جامع اور عوامی امنگوں کے مطابق منشور کو اولیت دیتی ہے، محض شوپیس پروگراموں کے پیچھے نہیں بھاگتی۔
جب یہ بات طے ہے کہ غربت مکمل طور پر ختم نہیں کی جاسکتی تو پھر منطق کا تقاضا یہ ہے کہ غربت میں کمی کے ایسے پروگرام وضع کیے جائیں جن پر عمل کیا جاسکے جو مطلوبہ نتائج دے سکیں ۔اس قسم کی جاندار حکمت عملی اس لیے ضروری ہے کہ عوام کو اس کا براہ راست فائدہ حاصل ہوسکے جب عوام کو حکومت کی موثر پالیسیوں سے فائدہ ہو اور عوام کی غربت میں کمی آئے تو پھر اپوزیشن لاکھ پروپیگنڈہ مہمیں چلائیں۔ عوام اس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے یہ کوئی محیر العقول یا حیران کن کارنامہ نہیں عقل و شعور فکر و دانش کی بات ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت کی قومی پالیسیاں اہل دانش اہل فکر نہیں بناتے بلکہ بیورو کریسی کے اہلکار بناتے ہیں جن کا عوام اور عوامی مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت میں اپوزیشن کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی کمزوریوں کو اس مقصد کے ساتھ عوام میں پیش کرے کہ حکومت اپنی اصلاح کرلے لیکن ہماری سیاست جاریہ کی اخلاقیات کا مقصد تنقید کے ذریعے حکومت کی اصلاح نہیں بلکہ سازشوں اور عوامی طاقت کے مجرمانہ استعمال کے ذریعے حکومت کو ناکام بنانا ہے اس مہم میں جان اس لیے بھی آگئی ہے کہ مڈل کلاس حکومت کے اقتدار میں آنے سے اب یہ مسئلہ صرف سیاسی نہیں رہا بلکہ طبقاتی بھی بن گیا ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔