ڈرامے باز عورت
اپنے تنگ اذہان کو تھوڑی سی ہوا لگوا کر سوچیے اور جرم پر نظر رکھیے۔
آج کل سوشل میڈیا پر اس خاتون کو طرح طرح کے نام دیے جارہے ہیں۔ (فوٹو:انٹرنیٹ)
SANTIAGO:
دیمک زدہ سماج میں حق بات کہنے والوں کو ہمیشہ طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غلط بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے بوگس دلائل دیے جاتے ہیں۔ مظلوم کو ڈرامہ باز کہہ کر قصہ ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے سب درس دے کر خود کو عالم فاضل سمجھتے ہیں۔ کوئی مسکرائے تب بھی مسئلہ اور روئے تب بھی۔ آج کل سوشل میڈیا پر اس خاتون کو طرح طرح کے نام دیے جارہے ہیں (جو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے) جس کو تشدد کا نشانہ بنا کر بال کاٹ دیے گئے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شوہر نے ڈانس کرنے کا کہا تھا تو انکار کیوں کیا۔ کچھ لوگوں نے ابتدائی طور پر اس واقعے کی مذمت کی، اس کے بعد خاتون کی ڈانس ویڈیو وائرل ہوئی تو ان ہی لوگوں کے ایمان تازہ ہو گئے اور یوٹرن لے کر کہنے لگے کہ اس عورت کے ساتھ جو ہوا وہ بالکل ٹھیک ہے، ایسی عورتوں کا علاج ہی یہی ہے، ان کو جتنی سزا دی جائے کم ہے۔ ایک صاحب تو کہنے لگے کہ ان عورتوں کے ماں باپ کو الٹا لٹکانا چاہیے۔
مطلب اس عورت کو گنجا کرکے اور مارپیٹ کرکے دل نہیں بھرا جو ماں باپ کو بھی سزا دینی لازم ہے۔ معلوم نہیں اتنی شدت پسندی سے آخر کون سا ثواب حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ عورت مرد کی ناجائز بات مانے تو جنت میں جائے گی، اگر انکار کرے تو جہنم میں جائے گی اور سزا کی مستحق ہو گی۔ یہ جزا و سزا کی رسیدیں دینے کا کام ہر چھوٹے بڑے نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ آخر یہ کون سا اسلام ہے جو اتنی تنگ نظری اور شدت پسندی کا درس دیتا ہے۔
کہاں لکھا اور کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان برائی کا مرتکب ہے تو اس کو مارپیٹ کرکے اس کی اصلاح کرو۔ اگر اصلاح کی نیت سے بری عورتوں پر تشدد کو درست کہنا ہے تو اچھی عورتوں کو مارپیٹ کرنے کو غلط کہنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ لیکن مسئلہ اچھی بری عورت کا نہیں ہے، مسئلہ اس نفسیاتی پن اور عدم برداشت کا ہے جو اپنی ہاں میں ہاں ملانے والے کے ساتھ تو خوش رہ سکتے ہیں لیکن انکار کی صورت میں برداشت کا پیمانہ کھو دیتے ہیں اور اپنی وحشیانہ طبعیت ظاہر کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو اس کیس کو بری عورت کہہ کر ڈیفینڈ کر رہے ہیں، ان سے ایک سوال ہے کہ اگر مرد برا ہو تو کیا اس کے لیے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا یا پھر بس عورت کے لیے؟ اچھے برے کردار پر سوال اٹھانے سے بہتر ہے کہ جرم پر بات کریں، اس ظلم پر بات کریں جس کا کوئی بھی انسان شکار ہوا ہے۔ آج یہ ڈرامہ کسی کے گھر ہوا ہے، کل آپ کے ہمارے گھر بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی کال گرل ہے، نیک عورت ہے، بری عورت ہے، اس پر دھیان دینے سے زیادہ اس ظلم کی طرف دھیان دیں کہ معاشرے میں دن بدن بڑھتی شدت پسندی کے پیچھے کون سے عوامل ہیں جو لوگ اتنے وحشیانہ رویے اختیار کررہے ہیں۔ سب مظلوم پر انگلی اٹھاتے ہیں، کبھی مجرم سے بھی سوال کیجیے۔ ایسی ویسی عورتیں کہہ کر جھوٹ کو سچ ثابت مت کیا کریں۔
یہاں تو معصوم بچے بچیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں اور کس کے ہاتھوں محفوظ نہیں، یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں لیکن وہ کوئی بری عورت ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مبتلا مرد حضرات ہوتے ہیں جن کو سخت اخلاقی تربیت کے ساتھ ذہنی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے تنگ اذہان کو تھوڑی سی ہوا لگوا کر سوچیے اور جرم پر نظر رکھیے۔ اس پر بات کیجیے۔ آج کوئی غیر رو رہا ہے، ڈرامہ کر رہا ہے، کل کہیں آپ رو رہے ہوں اور ڈرامہ کر رہے ہوں تو کوئی یقین نہ کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دیمک زدہ سماج میں حق بات کہنے والوں کو ہمیشہ طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غلط بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے بوگس دلائل دیے جاتے ہیں۔ مظلوم کو ڈرامہ باز کہہ کر قصہ ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے سب درس دے کر خود کو عالم فاضل سمجھتے ہیں۔ کوئی مسکرائے تب بھی مسئلہ اور روئے تب بھی۔ آج کل سوشل میڈیا پر اس خاتون کو طرح طرح کے نام دیے جارہے ہیں (جو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے) جس کو تشدد کا نشانہ بنا کر بال کاٹ دیے گئے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شوہر نے ڈانس کرنے کا کہا تھا تو انکار کیوں کیا۔ کچھ لوگوں نے ابتدائی طور پر اس واقعے کی مذمت کی، اس کے بعد خاتون کی ڈانس ویڈیو وائرل ہوئی تو ان ہی لوگوں کے ایمان تازہ ہو گئے اور یوٹرن لے کر کہنے لگے کہ اس عورت کے ساتھ جو ہوا وہ بالکل ٹھیک ہے، ایسی عورتوں کا علاج ہی یہی ہے، ان کو جتنی سزا دی جائے کم ہے۔ ایک صاحب تو کہنے لگے کہ ان عورتوں کے ماں باپ کو الٹا لٹکانا چاہیے۔
مطلب اس عورت کو گنجا کرکے اور مارپیٹ کرکے دل نہیں بھرا جو ماں باپ کو بھی سزا دینی لازم ہے۔ معلوم نہیں اتنی شدت پسندی سے آخر کون سا ثواب حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ عورت مرد کی ناجائز بات مانے تو جنت میں جائے گی، اگر انکار کرے تو جہنم میں جائے گی اور سزا کی مستحق ہو گی۔ یہ جزا و سزا کی رسیدیں دینے کا کام ہر چھوٹے بڑے نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ آخر یہ کون سا اسلام ہے جو اتنی تنگ نظری اور شدت پسندی کا درس دیتا ہے۔
کہاں لکھا اور کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان برائی کا مرتکب ہے تو اس کو مارپیٹ کرکے اس کی اصلاح کرو۔ اگر اصلاح کی نیت سے بری عورتوں پر تشدد کو درست کہنا ہے تو اچھی عورتوں کو مارپیٹ کرنے کو غلط کہنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ لیکن مسئلہ اچھی بری عورت کا نہیں ہے، مسئلہ اس نفسیاتی پن اور عدم برداشت کا ہے جو اپنی ہاں میں ہاں ملانے والے کے ساتھ تو خوش رہ سکتے ہیں لیکن انکار کی صورت میں برداشت کا پیمانہ کھو دیتے ہیں اور اپنی وحشیانہ طبعیت ظاہر کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو اس کیس کو بری عورت کہہ کر ڈیفینڈ کر رہے ہیں، ان سے ایک سوال ہے کہ اگر مرد برا ہو تو کیا اس کے لیے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا یا پھر بس عورت کے لیے؟ اچھے برے کردار پر سوال اٹھانے سے بہتر ہے کہ جرم پر بات کریں، اس ظلم پر بات کریں جس کا کوئی بھی انسان شکار ہوا ہے۔ آج یہ ڈرامہ کسی کے گھر ہوا ہے، کل آپ کے ہمارے گھر بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی کال گرل ہے، نیک عورت ہے، بری عورت ہے، اس پر دھیان دینے سے زیادہ اس ظلم کی طرف دھیان دیں کہ معاشرے میں دن بدن بڑھتی شدت پسندی کے پیچھے کون سے عوامل ہیں جو لوگ اتنے وحشیانہ رویے اختیار کررہے ہیں۔ سب مظلوم پر انگلی اٹھاتے ہیں، کبھی مجرم سے بھی سوال کیجیے۔ ایسی ویسی عورتیں کہہ کر جھوٹ کو سچ ثابت مت کیا کریں۔
یہاں تو معصوم بچے بچیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں اور کس کے ہاتھوں محفوظ نہیں، یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں لیکن وہ کوئی بری عورت ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مبتلا مرد حضرات ہوتے ہیں جن کو سخت اخلاقی تربیت کے ساتھ ذہنی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے تنگ اذہان کو تھوڑی سی ہوا لگوا کر سوچیے اور جرم پر نظر رکھیے۔ اس پر بات کیجیے۔ آج کوئی غیر رو رہا ہے، ڈرامہ کر رہا ہے، کل کہیں آپ رو رہے ہوں اور ڈرامہ کر رہے ہوں تو کوئی یقین نہ کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔