کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کپتان صاحب کی بادشاہی میں کچھ ہو یا نہ ہو اتنا تو بہرحال ہو رہا ہے کہ پکڑ دھکڑ کے بڑے چرچے ہو رہے ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ کچھ یہی حال ہمارے کپتان صاحب کی حکومت کا ہوگیا ہے، ہوسکتا ہے پاکستان نیا ہوگیا ہو ، لیکن اس ملک میں رہنے والے 22کروڑ عوام پرانے کے پرانے ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ان وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نیا پاکستان ابھی تک پرانی روایات میں پھنسا ہوا ہے۔
روایات بھی بہت ہیں لیکن ہم آج ایک ایسی روایت کا ذکر کریں گے جس کا شکار اس مملکت خداداد کے عوام ہو رہے ہیں۔ وہ بد بخت روایت سرکاری نیم سرکاری دفاتر کا کلچر ہے جہاں لین دین کا دھندا بڑے دھڑلے سے چل رہا ہے۔ ہمارے کپتان صاحب کاارشاد ہے کہ وہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ، بلاشبہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن بڑی مچھلیوں کے پاس ایسا کون سا نسخہ ہے کہ وہ جال میں رہتے ہوئے بھی جال سے باہر تیرتی پھرتی ہیں ۔
بلاشبہ کپتان صاحب کا یہ ارشاد اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اگر بڑی مچھلیوں کو قابوکرلیا گیا تو ملک کے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے۔ بلاشبہ اگر بڑی مچھلیوں کو قابوکرلیا گیا تو ملک کے آدھے نہیں بلکہ آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن انھیں قابوکرنا کم ازکم ہمارے ملک میں اتنا بڑا کام ہے کہ اس سے بڑا کام شاید ہی کوئی اور ہو ۔ کمبخت مچھلیوں یعنی بڑی مچھلیوں کی کھال اتنی چکنی ہوتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی پکڑ میں اتنی آہستہ سے سلپ ہوجاتی ہیں کہ پکڑنے والے ہاتھوں تک کو خبر نہیں ہوتی کہ کب گئیں کیسے گئیں؟
ہم فی الوقت بڑی مچھلیوں کے ذکر کو یہیں روک کر 22 کروڑ ان جھینگوں کی طرف آتے ہیں جن کی زندگی پرانے پاکستان میں جیسی تھی نئے پاکستان میں بھی ویسی ہی ہے۔ ملک کا کوئی محکمہ ہو وہاں اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کا اصول چل رہا ہے جن کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور ہمارے ملک کے ہر محکمے میں لینے دینے کی روایات اتنی پرانی ہیں جتنا پرانا پاکستان ہے۔
خیرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خیرات وہی اصلی ہوتی ہے جس میں دینے لینے والوں کی لین دین کی کسی کو خبر نہ ہو ۔ اوپر کے طبقات کی لین دین اتنی اوپن ہوتی ہے کہ جب تک میڈیا کے کیمرے اور رپورٹر موجود نہ ہوں نہ دین کے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں نہ لین کے۔ اس باخبر لین دین میں کپتان صاحب کی دخل اندازی سے کچھ فرق پڑا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ لین دین کا کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے اور نیب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہے۔
کپتان صاحب کی بادشاہی میں کچھ ہو یا نہ ہو اتنا تو بہرحال ہو رہا ہے کہ پکڑ دھکڑ کے بڑے چرچے ہو رہے ہیں۔ آگے کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے ، اس کے بارے میں بتانا بھی بے کار دیکھنا بھی بے کار ہے۔ نظربندی کا کھیل جو لوگ دیکھنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں وہ چاقو کوگلے کے پار جاتا دیکھتے ہیں اور اس بے ضرر قتل کو دیکھنے والوں کی چیخیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور چھری کو گردن کی ایک طرف سے گردن میں جاتے اور دوسری طرف سے باہر نکلتے دیکھ کر حاضرین یا تماش بین کی چیخیں تو نکل جاتی ہیں لیکن جب مقتول بسم اللہ پڑھ کر اٹھ بیٹھتا ہے تو نادان حاضرین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ صاف مرتے بھی نہیں صاف جیتے بھی نہیں۔ یہ جس میں ہم رہتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام ہے اس میں شریف آدمی صرف یا حیرت کا ورد کرتا رہتا ہے۔
ہم نے کپتان صاحب کے نئے پاکستان کا ذکر کیا تھا۔ ہم 71 سال سے جس پاکستان کو دیکھتے آرہے ہیں اس میں اور نئے پاکستان میں ہمیں تو اب صرف ''پ'' اور ''ن'' کا فرق نظر آرہا ہے ، ایلیٹ کچھ نروس تو دکھائی دیتی ہے لیکن اللہ جانے اسے کہاں سے خوراک ملتی ہے اورکیسے ملتی ہے وہ مرکر زندہ ہوتی ہے تو اور زیادہ تندرست نظر آتی ہے اسے کالا جادوکہیں یا نظر بندی کا کھیل دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ بڑی مچھلیوں اور ان کو پکڑنے کی باتیں اب اس قدر پراسرار ہوتی جا رہی ہیں کہ عقل حیران ہے۔
آئیے! اس نہ سمجھ میں آنے والے پراسرار کھیل کو جانے دیں بلکہ ''جان دوس''کچھ غریب غربا کی باتیں کرتے ہیں۔ ملک میں چار چھ ماہ سے رشوت یعنی کرپشن کی اتنی زیادہ باتیں ہو رہی ہیں کہ راشی اور رشوت کے لفظ زبانی یاد ہوگئے ہیں رشوت اورکرپشن ایک ہی بیماری کے دو نام ہیں لیکن اس کا ارتکاب جب غریب کرتا ہے تو اسے رشوت جیسے بھدے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جب یہی رشوت ایلیٹ کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو کرپشن کے مہذب نام سے پکاری جاتی ہے۔ پچھلے 6، 7 ماہ سے چونکہ رشوت اعلیٰ نسل کے حوالے سے بولی اور دیکھی جا رہی ہے اس لیے سارے عالم میں اس کے چرچے کرپشن کے نام سے ہو رہے ہیں اسی حیران کن نظر بندی کے کھیل میں ایسا بھی ہوا کہ بہت سارے ایسے غریب غربا کے اکاؤنٹ میں اربوں کی رقمیں آئیں اور چلی گئیں بے چارے اکاؤنٹ ہولڈرز کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
خبر ہوئی بھی تو میڈیا کے ذریعے۔ نظربندی کا اصلی کھیل تو یہ ہے کہ آپ کے کنگلے اکاؤنٹس میں کروڑوں اربوں کی رقم آتی جاتی رہی اور آپ کو خبر نہ ہوئی۔یہ ایسی کوئی حیرت میں ڈالنے والی نظر بندی بھی نہیں اکاؤنٹ، اکاؤنٹ ہولڈر اور اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن سب کے سامنے ہیں لیکن 22 کروڑ ساون کے اندھوں کو تو دکھائی دینا ہی نہیں چاہیے لیکن چار چار آنکھوں والوں کو بھی یہ سب جیتا جاگتا کھیل دکھائی ہی نہیں دے رہا، ان آنکھوں میں کہا جاتا ہے قانون اور انصاف کی آنکھیں بھی شامل ہیں۔
یہ پاکستان کا ایک منفرد کھیل ہے جس میں ملزمان مجرمان ہیں حاضر اور نظروں کے سامنے ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتے۔ دنیا بھر میں بھی نظر بندی کا کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن پاکستانی نظربندی کے کھیل کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ آج نظربندی کے کھیل کے ذکر میں ہم کچھ ایسے کھو گئے کہ ہمارا کالم بھی نظربندی کا شکار ہوگیا۔ رشوت اور کرپشن کے موضوع پر لکھتے لکھتے ایسی نظربندی کے شکار ہوگئے کہ رشوت سامنے رہی نہ کرپشن سامنے رہی۔
روایات بھی بہت ہیں لیکن ہم آج ایک ایسی روایت کا ذکر کریں گے جس کا شکار اس مملکت خداداد کے عوام ہو رہے ہیں۔ وہ بد بخت روایت سرکاری نیم سرکاری دفاتر کا کلچر ہے جہاں لین دین کا دھندا بڑے دھڑلے سے چل رہا ہے۔ ہمارے کپتان صاحب کاارشاد ہے کہ وہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ، بلاشبہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن بڑی مچھلیوں کے پاس ایسا کون سا نسخہ ہے کہ وہ جال میں رہتے ہوئے بھی جال سے باہر تیرتی پھرتی ہیں ۔
بلاشبہ کپتان صاحب کا یہ ارشاد اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اگر بڑی مچھلیوں کو قابوکرلیا گیا تو ملک کے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے۔ بلاشبہ اگر بڑی مچھلیوں کو قابوکرلیا گیا تو ملک کے آدھے نہیں بلکہ آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن انھیں قابوکرنا کم ازکم ہمارے ملک میں اتنا بڑا کام ہے کہ اس سے بڑا کام شاید ہی کوئی اور ہو ۔ کمبخت مچھلیوں یعنی بڑی مچھلیوں کی کھال اتنی چکنی ہوتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی پکڑ میں اتنی آہستہ سے سلپ ہوجاتی ہیں کہ پکڑنے والے ہاتھوں تک کو خبر نہیں ہوتی کہ کب گئیں کیسے گئیں؟
ہم فی الوقت بڑی مچھلیوں کے ذکر کو یہیں روک کر 22 کروڑ ان جھینگوں کی طرف آتے ہیں جن کی زندگی پرانے پاکستان میں جیسی تھی نئے پاکستان میں بھی ویسی ہی ہے۔ ملک کا کوئی محکمہ ہو وہاں اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کا اصول چل رہا ہے جن کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور ہمارے ملک کے ہر محکمے میں لینے دینے کی روایات اتنی پرانی ہیں جتنا پرانا پاکستان ہے۔
خیرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خیرات وہی اصلی ہوتی ہے جس میں دینے لینے والوں کی لین دین کی کسی کو خبر نہ ہو ۔ اوپر کے طبقات کی لین دین اتنی اوپن ہوتی ہے کہ جب تک میڈیا کے کیمرے اور رپورٹر موجود نہ ہوں نہ دین کے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں نہ لین کے۔ اس باخبر لین دین میں کپتان صاحب کی دخل اندازی سے کچھ فرق پڑا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ لین دین کا کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے اور نیب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہے۔
کپتان صاحب کی بادشاہی میں کچھ ہو یا نہ ہو اتنا تو بہرحال ہو رہا ہے کہ پکڑ دھکڑ کے بڑے چرچے ہو رہے ہیں۔ آگے کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے ، اس کے بارے میں بتانا بھی بے کار دیکھنا بھی بے کار ہے۔ نظربندی کا کھیل جو لوگ دیکھنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں وہ چاقو کوگلے کے پار جاتا دیکھتے ہیں اور اس بے ضرر قتل کو دیکھنے والوں کی چیخیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور چھری کو گردن کی ایک طرف سے گردن میں جاتے اور دوسری طرف سے باہر نکلتے دیکھ کر حاضرین یا تماش بین کی چیخیں تو نکل جاتی ہیں لیکن جب مقتول بسم اللہ پڑھ کر اٹھ بیٹھتا ہے تو نادان حاضرین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ صاف مرتے بھی نہیں صاف جیتے بھی نہیں۔ یہ جس میں ہم رہتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام ہے اس میں شریف آدمی صرف یا حیرت کا ورد کرتا رہتا ہے۔
ہم نے کپتان صاحب کے نئے پاکستان کا ذکر کیا تھا۔ ہم 71 سال سے جس پاکستان کو دیکھتے آرہے ہیں اس میں اور نئے پاکستان میں ہمیں تو اب صرف ''پ'' اور ''ن'' کا فرق نظر آرہا ہے ، ایلیٹ کچھ نروس تو دکھائی دیتی ہے لیکن اللہ جانے اسے کہاں سے خوراک ملتی ہے اورکیسے ملتی ہے وہ مرکر زندہ ہوتی ہے تو اور زیادہ تندرست نظر آتی ہے اسے کالا جادوکہیں یا نظر بندی کا کھیل دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ بڑی مچھلیوں اور ان کو پکڑنے کی باتیں اب اس قدر پراسرار ہوتی جا رہی ہیں کہ عقل حیران ہے۔
آئیے! اس نہ سمجھ میں آنے والے پراسرار کھیل کو جانے دیں بلکہ ''جان دوس''کچھ غریب غربا کی باتیں کرتے ہیں۔ ملک میں چار چھ ماہ سے رشوت یعنی کرپشن کی اتنی زیادہ باتیں ہو رہی ہیں کہ راشی اور رشوت کے لفظ زبانی یاد ہوگئے ہیں رشوت اورکرپشن ایک ہی بیماری کے دو نام ہیں لیکن اس کا ارتکاب جب غریب کرتا ہے تو اسے رشوت جیسے بھدے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جب یہی رشوت ایلیٹ کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو کرپشن کے مہذب نام سے پکاری جاتی ہے۔ پچھلے 6، 7 ماہ سے چونکہ رشوت اعلیٰ نسل کے حوالے سے بولی اور دیکھی جا رہی ہے اس لیے سارے عالم میں اس کے چرچے کرپشن کے نام سے ہو رہے ہیں اسی حیران کن نظر بندی کے کھیل میں ایسا بھی ہوا کہ بہت سارے ایسے غریب غربا کے اکاؤنٹ میں اربوں کی رقمیں آئیں اور چلی گئیں بے چارے اکاؤنٹ ہولڈرز کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
خبر ہوئی بھی تو میڈیا کے ذریعے۔ نظربندی کا اصلی کھیل تو یہ ہے کہ آپ کے کنگلے اکاؤنٹس میں کروڑوں اربوں کی رقم آتی جاتی رہی اور آپ کو خبر نہ ہوئی۔یہ ایسی کوئی حیرت میں ڈالنے والی نظر بندی بھی نہیں اکاؤنٹ، اکاؤنٹ ہولڈر اور اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن سب کے سامنے ہیں لیکن 22 کروڑ ساون کے اندھوں کو تو دکھائی دینا ہی نہیں چاہیے لیکن چار چار آنکھوں والوں کو بھی یہ سب جیتا جاگتا کھیل دکھائی ہی نہیں دے رہا، ان آنکھوں میں کہا جاتا ہے قانون اور انصاف کی آنکھیں بھی شامل ہیں۔
یہ پاکستان کا ایک منفرد کھیل ہے جس میں ملزمان مجرمان ہیں حاضر اور نظروں کے سامنے ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتے۔ دنیا بھر میں بھی نظر بندی کا کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن پاکستانی نظربندی کے کھیل کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ آج نظربندی کے کھیل کے ذکر میں ہم کچھ ایسے کھو گئے کہ ہمارا کالم بھی نظربندی کا شکار ہوگیا۔ رشوت اور کرپشن کے موضوع پر لکھتے لکھتے ایسی نظربندی کے شکار ہوگئے کہ رشوت سامنے رہی نہ کرپشن سامنے رہی۔