نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم روایات سے ہٹ کر مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ہماری دنیا میں بڑے آدمی کا تصور بنگلہ، گاڑی، دولت کی ریل پیل سے جڑا ہوا ہے، انسان کی اعلیٰ ظرفی ، اعلیٰ اخلاقی قدریں انسانوں کا احترام جیسے اوصاف کا انسان کی بڑائی سے کوئی تعلق نہیں جوکلچر دنیا کا اوڑھنا بچھونا بنا ہوا ہے وہ کلچر دولت کی فراوانی سے شروع ہوتا ہے، دولت کی فراوانی پر ختم ہوتا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن ایسی خود غرض بدتمیز اور بے حس دنیا میں بھی بہت کم سہی اچھے اور اعلیٰ اوصاف والے لوگ موجود ہیں جو رنگ، نسل، ذات، پات، دین دھرم کی تفریق سے بالاتر ہیں۔ ان لوگوں کا ذات پات، رنگ نسل، دین دھرم سے انسان ہونے کے ناتے تعلق تو ضرور ہوتا ہے لیکن اعلیٰ قدروں کے حامل لوگ اس تقسیم کے منفی پہلوؤں سے دور رہتے ہیں اور ہمیشہ اعلیٰ انسانی قدروں کے حامی رہتے ہیں۔

میں نے اپنے کالموں میں ہمیشہ انسان کی تقسیم کے منفی پہلوؤں کی سخت مخالفت کی ہے اور انسانوں کی بے جواز تقسیم اور اس کے منفی پہلوؤں سے انسانوں کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ کرتا رہا ہوں۔ جس دنیا میں ہم زندہ ہیں وہ ایسی بد ترین تقسیم کا شکار ہے کہ انسان ، انسان سے خوفزدہ ہے اور نفرت کرتا ہے جس کے مظاہرے ہم ہر روز قدم قدم پر دیکھتے آرہے ہیں اور کڑھتے آ رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میں پچاس مسلمانوں کا قتل ساری دنیا میں نیوزی لینڈ کی سخت بدنامی کا سبب بن گیا ہے ۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس حوالے سے بہت دکھی ہیں اور ہر ممکنہ طریقے سے مسلمانوں کی دلجوئی میں لگی ہوئی ہیں وزیر اعظم نے اس حوالے سے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ دیکھنے کی خواہش کو اس بات کو کہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں دنیا میں مذہب کے نام پر تعصبات اور نفرتیں پھیلانے والے انسان دشمن عناصر کو وزیر اعظم نیوزی لینڈ کی بات کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔

دنیا میں مذہبی رواداری کے لیے کام کرنے والے قابل احترام لوگ سانحہ نیوزی لینڈ سے بہت رنجیدہ ہیں۔ وزیر اعظم نیوزی لینڈ اس حوالے سے روایتی معذرت سے بہت آگے جاکر کرہ ارض کے احمقانہ تقسیم کے شکار لوگوں کو دلاسا دینے کے علاوہ انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے جذبات اجاگر کرنے کے لیے ایک سمجھ میں آنے والا فلسفہ بھی پیش کیا ہے کہ دنیا بھر کے انسان آدم کی اولاد اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں اس حقیقت پسندانہ فلسفے کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فلسفے سے منطقی طور پر مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے محنت کی ضرورت ہے۔


مذہبی جماعتوں میں دو قسم کے عناصر موجود ہیں ،ایک وہ جو اپنی دینی سرگرمیوں کو عبادت گاہوں میں عبادت تک محدود رکھتے ہیں ۔ دوسرے قسم کا عنصر وہ ہے جو پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ مذہبی جذبات اور عبادت گاہوں کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے اور مذاہب کے درمیان قتل و غارت کو ہوا دیتا ہے۔ اس قسم کے انسان دشمن ایلیمنٹ کو بعض سامراجی ملک بھاری فنڈ دیتے ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ماضی میں یہ کام بہت تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا انتہا پسند مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کو بیرونی فنڈنگ کے ذریعے مذاہب کے درمیان تصادم کی طرف لے جاتی رہیں۔

مثال کے طور پر دو پسماندہ ملک ہندوستان اور پاکستان ان دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور اس ''نیک کام'' کی سرپرستی حکومتیں کرتی ہیں۔ بھاری مالی امداد کے ذریعے مذہبی انتہا پسندوں کو پالا جاتا ہے اور انھیں اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے پر انتہا پسندوں کی سرپرستی اور مالی امداد کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم روایات سے ہٹ کر مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس کی حمایت کی جانی چاہیے اس حوالے سے میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا جانا چاہیے کہ ہر ملک میں مذہبی انتہا پسندوں کے کام کا طریقہ کیا ہے ۔کیا یہ انسان دشمن عناصر مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے میڈیا کو تو نہیں استعمال کر رہے ہیں؟ مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں معاشروں اور ملکوں میں بہت گہری ہیں ان بلاؤں سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے پڑیں گے۔

اس حوالے سے اصل ضرورت یہ ہے کہ نئی نسلوں کو اس بے سروپا دیوانگی سے دور رکھا جائے۔ اس کے لیے اسکولوں کے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہر قوم کے پاس جنگی ہیروز کی تشہیر کا ایک منصوبہ بند نظام موجود ہے۔ جنگی ہیروزکی خدمات کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔

جس کا عوام خصوصاً بچوں اور نوجوانوں پر گہرا اثر پڑتا ہے جنگی ہیروز کے کارناموں کو نصاب کا حصہ بنانے کے بجائے ایسے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کی تشہیر کی جائے جن کا وژن آفاقی ہے اور وہ دنیا سے مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں آخر میں، میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی مذہبی رواداری کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ انسانوں کے درمیان محبت اور رواداری کو فروغ دینے والوں کو قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ دیے جائیں۔
Load Next Story