اردو کا نفاذ ناگزیر ہے

نسیم انجم  اتوار 7 اپريل 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پروفیسر محمد عطا اللہ خان علم و ادب کے حوالے سے اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک ادبی محفل میں ان سے ملاقات ہوئی، وہ ان دنوں کراچی آئے ہوئے ہیں، اسلام آباد میں ان کی سکونت ہے، انھوں نے ہمیں ایک کتابچے اور چند تحریروں سے نوازا، ان کا ایک مضمون دعوتِ فکر ان لوگوں کو دیتا ہے جو محب وطن ہیں اور جنھیں اپنی زبان، اپنی تہذیب و ثقافت سے محبت ہے اور اس کی بحالی کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔

ان کا ایک مضمون ’’اردو نصاب میں فارسی کی تدریس‘‘ ایک قابل مطالعہ اور وقیع تحریر ہے، انھوں نے فارسی کی اہمیت پر مدلل انداز میں بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فارسی ایک بین الاقوامی زبان ہے اس کا دائرہ اثر، ایران، افغانستان ، وسط ایشیا کے مسلم ممالک، ترکی، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تک پھیلا ہوا ہے، محققین کی رائے میں علمی و اخلاقی لحاظ سے اس زبان نے یورپ کی زبانوں پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ اس طرح برصغیر میں بھی ادب و اخلاق کی تعلیم میں فارسی ادبیات کا بہت بڑا حصہ ہے، ہمارے یہاں عام طور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی میں جہاں جدید عالمی رجحانات کے اثرات ہیں وہاں گلستان بوستان سے دوری شامل ہے۔

ہمارے ملک کے بعض نام نہاد دانشور فارسی اور عربی زبان کو مردہ زبان قرار دے رہے ہیں مگر انھیں معلوم نہیں کہ فارسی اور عربی زبانیں بڑی سرعت سے جدید علوم کو اپنے اندر سمورہی ہیں، سائنسی اصلاحات کا بڑا ذخیرہ ان کے یہاں جمع ہوگیا ہے۔ علمی اصطلاحات ان زبانوں میں پہلے ہی موجود تھیں، اب عصر جدید کے تقاضوں کیمطابق انھوں نے نئی اصطلاحات اپنی زبانوں میں خود وضع کرلی ہیں یا انھیں مفرس و معرب بنالیا ہے علمی و سائنسی علوم کی تدریس میں انھیں کسی غیر ملکی یا یورپی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت نہ پڑی اور نہ ہی جاپان کی طرح وہ دنیا بھر کی زبانوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔

انھیں اپنی زبان میں شامل کرکے انھوں نے پوری قوم کو غیر ملکی زبانوں کے بار تلے کچلنے کی بجائے چند ماہرین کو ان زبانوں کی تعلیم دی اور ان کے ذریعے انھوں نے عالمی علم و ہنرکو اپنی زبانوں میں شامل کرلیا۔ آج کل یہ خبر بھی بار بار نگاہوں سے گزر رہی ہے کہ چینی زبان کو سیکھنا لازمی امر ہے اور تعلیمی اداروں میں چینی زبان کی قدریں ناگزیر ہے۔ پائلٹ پروجیکٹ کے تحت چینی زبان اسلام آباد کے 3 تعلیمی اداروں میں سکھائی جائے گی اور اس کے لیے اساتذہ کا تقرر بھی کیا جائے گا۔ وزارت سمندر پار پاکستانی کے زیر اہتمام چینی زبان کی تدریس اور پاکستانیوں کے بچوں کے لیے یوتھ کونسل بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

چینی زبان کا سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، سی پیک کی وجہ سے چین کے شہری کراچی اور اسلام آباد میں نہ کہ آکر بس گئے ہیں بلکہ انھوں نے کاروبار بھی شروع کردیا ہے، ان حالات میں اپنے پڑوسی ملک چین کی زبان کا سیکھنا دانشمندی کا تقاضا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح چین کی زبان چینی ہے اسی طرح پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور جب چین کی زبان کی اہمیت اور اس کی افادیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے تو پھر ہماری قومی زبان ’’اردو‘‘ کس کھاتے میں رکھی گئی ہے۔ ابھی تک سرکاری سطح پر اس کا نفاذ نہیں ہوسکا ہے، حکومتی اداروں میں، اسکول و کالج کی سطح پر طلبا کو باقاعدہ اردو کی تعلیم دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔یہ طریقہ ملکی ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔

پاکستان کے ہر دستور میں اردو زبان کو قومی زبان قراردیا گیا ہے 1973 میں نفاذ اردو کے لیے متفقہ آئین طے کیا گیا تھا اور اس کی شق 251 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے 1988 کی تاریخ مقررکی گئی تھی، آزادی سے پہلے بھی اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان گردانا جاتا رہا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک موقعے پر فرمایا کہ جو اردو کا مخالف ہے وہ پاکستان کا مخالف ہے۔ اب یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ اردو کے نفاذ کے لیے سنجیدگی سے کام کرتی اور بیوروکریٹ اور ملک وطن دشمن عناصرکے حوصلوں کو پست کرتی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتیں اپنے وطن اور اس کے تشخص سے مخلص نہیں تھیں، اس کے برعکس اگر دیار غیرکے حکمرانوں پر نظر ڈالیں تو ان کی پالیسی انھیں اور ان کے ملک کو عزت و وقار عطا کرتی ہے، خوشی اور خوشحالی کے لیے وہ دن رات کام کرتے ہیں اور اپنے وطن کی عزت و استحکام کا سودا ہرگز نہیں کرتے۔

جاپان کی مثال لے لیجیے۔ 1945 کی عالمی جنگ کے موقعے پر امریکی جنرل میک آرتھر جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے صلح کی شرائط طے کر رہے تھے۔ شہنشاہ جاپان نے ایٹمی حملوں کی وجہ سے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا تھا ،اسی وجہ سے وہ امریکی جنرل کی تمام شرائط ماننے پر مجبور تھے لیکن ایک شرط ایسی بھی تھی جس پر انھوں نے اعتراض کیا اورکہا کہ ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن جاپانی نظام تعلیم اور زبان پر کسی قسم کی مصالحت کو قبول کرنا ہمارے لیے ناممکنات میں سے ہے، زبان کی اہمیت اور اپنے ملک سے محبت کی ایک اور مثال وہ ہے چین کی ۔

چین کے حکمران ماؤزے تنگ انگریزی سے واقفیت ہونے کے باوجود اپنی ہی زبان میں تقریر کیا کرتے تھے، کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ انگریزی میں بات کیوں نہیں کرتے؟ تو شہنشاہ نے کہا کہ چین گونگا نہیں ہے، برطانیہ میں شیکسپیئرکے دور میں انگریزی بولنے، لکھنے اور پڑھنے کا رواج نہ تھا، انگریز فرانسیسی زبان کو اپنائے ہوئے تھے اور حیران کن بات یہ ہے کہ فرانسیسی زبان کے تمام علمی اور ٹیکنالوجی کے بنیادی الفاظ عربی سے لیے تھے انگریزوں نے بھی انھی الفاظ کو انگریزی میں استعمال کیا۔ فرانس کا یہ قانون بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی شخص انگریزی زبان کا کوئی لفظ یا جملہ بولے یا لکھے اور جس کا فرانسیسی زبان میں لفظ موجود ہو تو اس پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔

اردو زبان دنیا کی شماریات کی رو سے تیسری بڑی زبان ہے جو انتہائی جامع اور فصیح زبان ہے اس زبان میں پوری دنیا کے علم و ادب، طب، سائنس، ٹیکنالوجی کا علم موجود ہے، ہماری تہذیب، روایات، ثقافت اور علمی سرمایہ کی محافظ ہے ہماری شناخت کا ذریعہ ہے لیکن یہ بات اپنی قوم اور اپنی قومی زبان سے محبت کرنیوالوںکے لیے نہایت ندامت اور دکھ کی ہے کہ اس قدر اہمیت کی حامل علمی خزانوں سے مالا مال اردو زبان عدم توجہ کا شکار ہے ہم نے اپنی ہی زبان کو اجنبی قرار دے کر اپنی پہچان اور تشخص اپنے ہاتھوں گنوا دیا گیا ہے۔ ہمارے پاکستانی حکمران باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں اپنی زبان میں گفتگو کرنے کی بجائے انگریزی میں بات کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری زبان نہیں ہے۔

ہم دوسروں کی زبان اور ان کا لباس پہن کر اپنی عزت اپنے ہاتھوں کم کر رہے ہیں جب کہ ہمارے برعکس غیروں کا حال احوال قابل تحسین ہے، وہ پراعتماد ہیں اس لیے کہ انھوں نے دوسروں کی شناخت اور رسم و رواج کو نہیں اپنایا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے نعرہ لگایا تھا کہ نیا پاکستان بن رہا ہے، سب خوش تھے اب سب کچھ بدل جائے گا، قومی زبان کے فروغ کے لیے کام ہوگا سرکاری اداروں، دفاتر، عدالتوں اور بین الاقوامی سطح پر اردو زبان کا استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح اردو پڑھنے، لکھنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہرگز نہ ہوگا، ورنہ حالات یہ ہیں ڈاکٹروں کے لکھے ہوئے نسخے جن پر دوائیوں کے نام درج ہوتے ہیں اسی طرح عدالتی کاغذات ، سفر کرنے والوں کے ویزے، پاسپورٹ، اہم دستاویزات کا حصول کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ کم پڑھے لکھے لوگ دوسروں سے پوچھتے ہیں ان مسائل کا ادراک نئی حکومت کو ہونا چاہیے۔

اس طرح جس قدر جلد ممکن ہو اردو کو بلا جھجک قومی زبان کا درجہ دینے میں تامل نہ کرے تاکہ نیا پاکستان، قائد اعظم کی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کا پاکستان دنیا کے منظر نامے پر چھا جائے، قائد اعظم محمد علی جناح نے بارہا اپنی تقاریرکے دوران یہ فرمایا کہ پاکستان کی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ اس کے ساتھ ایک بات اور عرض کرتی چلوں کہ فارسی اور عربی کو نصاب میں اسی طرح شامل کیا جائے جس طرح چینی زبان کو شامل کیا ہے۔ چینی زبان سیکھنے سے اتنا فائدہ ہوگا کہ ایک دوسرے کے خیالات اور علم و ادب سے واقفیت ہوجائے گی جب کہ عربی زبان کو سمجھ کر پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسا انسان وجود میں آئے گا جو حقیقی معنوں میں انسان ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔