دفاعی اخراجات میں کمی کی خواہش
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ روس اور امریکا اپنے دفاعی اخراجات میں رسمی ہی سہی کمی کر رہے ہیں.
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com
نواز شریف نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بہت دلچسپ اور معنی خیز سوال اٹھایا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ روس اور امریکا کی طرح ہندوستان اور پاکستان اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کیوں نہیں کر سکتے۔ نواز شریف ایک سیاستدان ہیں، ان میں وہ تمام خرابیاں موجود ہو سکتی ہیں جو سیاستدانوں میں پائی جاتی ہیں لیکن نواز شریف میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے دور اقتدار میں بھی بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے اور اب اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کی ترجیحات میں بھارت سے تعلقات کی بہتری سر فہرست نظر آتی ہے۔ سعودی عرب میں ان کا مذکورہ بالا بیان بھی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی حکمران اپنے کسی متحارب ملک سے دوستی اور تعلقات کی بہتری کی خواہش کرتا ہے تو اس کی یہ خواہش قابل تحسین ہوتی ہے، لیکن متحارب یا مخالف ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجوہات اختلافات کی نوعیت اور پالیسیوں کا جائزہ لیے بغیر محض اچھی خواہش کرنا اچھی بات تو ہو سکتی ہے نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ روس اور امریکا اپنے دفاعی اخراجات میں رسمی ہی سہی کمی کر رہے ہیں لیکن اس کا کیا جواز ہے کہ ان دونوں ملکوں کی تجارت میں اسلحے کی تجارت سر فہرست ہے، روس اور امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلحہ کی صنعت میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور کھربوں ڈالر کا منافع کمایا جا رہا ہے، ہتھیاروں کو جدید اور زیادہ سے زیادہ تباہ کن بنانے کے لیے ''ہتھیاروں کے سائنسدان'' رات دن محنت کر رہے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جن کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے نہ صرف ہتھیاروں کی دوڑ کے گندے کھیل میں مصروف ہیں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس نادر ملکیت میں اضافے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
کرہ ارض پر انسانی زندگی کے ابتدائی دور کو پتھر کا دور کہا جاتا ہے، پتھر کے دور کا انسان بہت غیر مہذب تھا، ننگا رہتا تھا درختوں کے پتے اور جڑیں کھاتا تھا، غاروں اور درختوں پر رہتا تھا اور پتھر کے ہتھیار بناتا تھا، پتھر کے دور کا یہ غیر مہذب انسان پتھر کے ہتھیار جنگلی جانوروں سے اپنی حفاظت کے لیے بناتا تھا یا جنگلی جانوروں کا شکار کر کے پیٹ بھرنے کے لیے بناتا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس دور میں انسانوں کے درمیان جنگوں کا سراغ ملتا ہے نہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اس دور کے غیر مہذب انسان کی جستجو صرف اپنی بقا تک محدود تھی نہ اس دور کے انسان کے ذہن میں اپنے جیسے انسانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا کوئی نشان ملتا ہے نہ طاقت کی بالادستی کے جنون کی کسی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔
پھر انسانی سماج بتدریج ترقی کرتا گیا پتھر کے دور کے بعد جب غلامی کے دور کا آغاز ہوا تو طاقت کی برتری کا رواج شروع ہوا اور اس برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہتھیاروں میں ترقی ہوتی گئی جاگیر دارانہ نظام کا آغاز ہوا تو زمین کی ملکیت کا تصور پیدا ہوا، زمین کی ملکیت کے تحفظ کا سلسلہ کھڑا ہوا تو طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش آئی اور پھر انسان کی ترقی کو پر لگ گئے، آج ہم ترقی کی جس منزل پر کھڑے ہیں اسے انسانی تاریخ کی معراج کہا جاتا ہے۔ لیکن ملکیت کے تصور کے ساتھ انسانوں کے درمیان خون خرابے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ہر دور میں جاری رہا اور باضابطہ طور پر محکمہ دفاع وجود میں آیا۔ آج کی مہذب دنیا میں ہر ملک اپنے دفاع پر جتنا سرمایہ خرچ کر رہا ہے اگر دنیا کے سارے ملکوں کے دفاع پر خرچ کی جانے والی رقم کو انسانوں کی فلاح غربت کے خاتمے پر خرچ کیا جائے تو دنیا میں نہ صرف یہ کہ غربت کا نام و نشان مٹ جائے گا بلکہ دنیا کا ہر انسان ایک آسودہ بلکہ پر تعیش زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ملک اپنے دفاع پر خرچ ہونے والی رقم میں کمی کیوں کرے گا؟۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ مہذب دنیا کے مہذب حکمرانوں کے دفاع کا محکمہ قائم کرنے، کروڑوں، اربوں کا اسلحہ خریدنے اور لاکھوں انسانوں پر مشتمل فوج رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ ریاست کی تشکیل کو انسان کی سیاسی ترقی کی معراج کہا جاتا ہے، ریاست کی تشکیل کے لیے زمین پر جغرافیائی لکیریں لگانا ضروری ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی جغرافیائی لکیروں کو مقدس مانتا ہے تو پھر اس کی حفاظت لازمی ہو جاتی ہے اور اس حفاظت ہی کے لیے ہتھیار اور فوج کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن انسان کو انسان سے حفاظت ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں انسانوں کی رنگ، نسل، زبان، ملک، قوم، دین، دھرم کے حوالوں سے تقسیم ہے۔ جب انسان تقسیم ہو جاتا ہے تو اس کے مفادات بھی تقسیم ہوجاتے ہیں۔ جب مفادات تقسیم ہو جاتے ہیں تو مفادات کی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے اور ان تقسیم شدہ مفادات کو قومی مفادات کا نام دیا جاتا ہے اور قومی مفادات اور جغرافیائی سرحدیں ایسا تقدس بن جاتی ہیں جن کی حفاظت ہر قیمت پر کی جاتی ہے اور یہی قیمت کہیں صلیبی جنگوں کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔ کہیں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی شکل میں، کہیں کوریا اور ویت نام کی شکل میں، کہیں فلسطین اور کشمیر کی شکل میں۔
پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے حوالے سے دو بھرپور جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ملک آج بھی دفاع کے نام پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، دونوں ملکوں کے پاس لاکھوں افراد پر مشتمل فوج ہے جس کا کام اپنی مقدس سرحدوں کی حفاظت ہے۔ کشمیر میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں۔ یہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے مسلمان کہلاتے ہیں، کشمیر میں ہندو بھی رہتے ہیں یہ اس لیے ہندو کہلاتے ہیں کہ یہ ہندو گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں یہ کشمیری اس لیے کہلاتے ہیں کہ یہ کشمیر میں پیدا ہوئے ہیں، اس فسانے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ کوئی مسلمان اپنی مرضی سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا نہ کوئی ہندو اپنی مرضی سے کسی ہندو گھرانے میں پیدا، نہ کوئی کشمیری اپنی مرضی سے کشمیر میں پیدا ہوا، مسلمان اس لیے مسلمان بن گیا کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، ہندو اس لیے ہندو بن گیا کہ وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوا، لیکن اپنی مرضی اور رضا کے بغیر ہو جانے والی اس تقسیم نے ان کے مفادات تقسیم کر دیے۔ جب مفادات تقسیم ہو گئے تو ان کا تحفظ ضروری ہو گیا۔
یوں کشمیری عوام متنازعہ بن گئے۔ بھارت کے قومی مفادات کا تقاضا یہ بنا کہ وہ کشمیر پر طاقت کے زور پر قبضہ کر لے وہ مفادات جن کے حصول کے لیے بھارتی حکمرانوں کو فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کرنا پڑا، اس انسانی تقسیم کا نتیجہ ہے جس میں انسانوں کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی جنگیں منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی گئیں، منڈیوں پر قبضے کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی کہ قبضے کی لڑائی لڑنے والے اس انسانی تقسیم کے شکار تھے جس میں ان کا کوئی دخل نہ تھا نہ مرضی۔ صلیبی جنگیں بھی اس تقسیم کا نتیجہ ہیں جس میں ان کی مرضی اور رضا کا کوئی دخل نہیں۔ 1947ء میں ہندوستان جن بنیادوں پر تقسیم ہوا وہ بنیاد انسانوں کی ہندو مسلمان میں تقسیم تھی۔ جس میں نہ ہندو کا کوئی دخل تھا نہ مسلمان کا۔ لیکن ملک بھی اس تقسیم کی وجہ سے تقسیم ہوا اور 22 لاکھ سے زیادہ انسان بھی اس انسانی تقسیم کی وجہ سے قتل ہوئے۔
یہ تھوڑی سی تفصیل تھوڑے سے تلخ حقائق کا ذکر یوں کرنا پڑا کہ نواز شریف دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات میں کمی کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے دفاعی اخراجات اربوں ڈالروں کی شکل میں باقی رہیں گے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے دفاعی اخراجات اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک انسان تقسیم رہے گا اور جب تک انسانوں کی تقسیم کو محض انسان کی شناخت تک محدود نہیں کیا جائے گا۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ روس اور امریکا اپنے دفاعی اخراجات میں رسمی ہی سہی کمی کر رہے ہیں لیکن اس کا کیا جواز ہے کہ ان دونوں ملکوں کی تجارت میں اسلحے کی تجارت سر فہرست ہے، روس اور امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلحہ کی صنعت میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور کھربوں ڈالر کا منافع کمایا جا رہا ہے، ہتھیاروں کو جدید اور زیادہ سے زیادہ تباہ کن بنانے کے لیے ''ہتھیاروں کے سائنسدان'' رات دن محنت کر رہے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جن کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے نہ صرف ہتھیاروں کی دوڑ کے گندے کھیل میں مصروف ہیں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس نادر ملکیت میں اضافے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
کرہ ارض پر انسانی زندگی کے ابتدائی دور کو پتھر کا دور کہا جاتا ہے، پتھر کے دور کا انسان بہت غیر مہذب تھا، ننگا رہتا تھا درختوں کے پتے اور جڑیں کھاتا تھا، غاروں اور درختوں پر رہتا تھا اور پتھر کے ہتھیار بناتا تھا، پتھر کے دور کا یہ غیر مہذب انسان پتھر کے ہتھیار جنگلی جانوروں سے اپنی حفاظت کے لیے بناتا تھا یا جنگلی جانوروں کا شکار کر کے پیٹ بھرنے کے لیے بناتا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس دور میں انسانوں کے درمیان جنگوں کا سراغ ملتا ہے نہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اس دور کے غیر مہذب انسان کی جستجو صرف اپنی بقا تک محدود تھی نہ اس دور کے انسان کے ذہن میں اپنے جیسے انسانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا کوئی نشان ملتا ہے نہ طاقت کی بالادستی کے جنون کی کسی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔
پھر انسانی سماج بتدریج ترقی کرتا گیا پتھر کے دور کے بعد جب غلامی کے دور کا آغاز ہوا تو طاقت کی برتری کا رواج شروع ہوا اور اس برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہتھیاروں میں ترقی ہوتی گئی جاگیر دارانہ نظام کا آغاز ہوا تو زمین کی ملکیت کا تصور پیدا ہوا، زمین کی ملکیت کے تحفظ کا سلسلہ کھڑا ہوا تو طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش آئی اور پھر انسان کی ترقی کو پر لگ گئے، آج ہم ترقی کی جس منزل پر کھڑے ہیں اسے انسانی تاریخ کی معراج کہا جاتا ہے۔ لیکن ملکیت کے تصور کے ساتھ انسانوں کے درمیان خون خرابے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ہر دور میں جاری رہا اور باضابطہ طور پر محکمہ دفاع وجود میں آیا۔ آج کی مہذب دنیا میں ہر ملک اپنے دفاع پر جتنا سرمایہ خرچ کر رہا ہے اگر دنیا کے سارے ملکوں کے دفاع پر خرچ کی جانے والی رقم کو انسانوں کی فلاح غربت کے خاتمے پر خرچ کیا جائے تو دنیا میں نہ صرف یہ کہ غربت کا نام و نشان مٹ جائے گا بلکہ دنیا کا ہر انسان ایک آسودہ بلکہ پر تعیش زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ملک اپنے دفاع پر خرچ ہونے والی رقم میں کمی کیوں کرے گا؟۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ مہذب دنیا کے مہذب حکمرانوں کے دفاع کا محکمہ قائم کرنے، کروڑوں، اربوں کا اسلحہ خریدنے اور لاکھوں انسانوں پر مشتمل فوج رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ ریاست کی تشکیل کو انسان کی سیاسی ترقی کی معراج کہا جاتا ہے، ریاست کی تشکیل کے لیے زمین پر جغرافیائی لکیریں لگانا ضروری ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی جغرافیائی لکیروں کو مقدس مانتا ہے تو پھر اس کی حفاظت لازمی ہو جاتی ہے اور اس حفاظت ہی کے لیے ہتھیار اور فوج کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن انسان کو انسان سے حفاظت ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں انسانوں کی رنگ، نسل، زبان، ملک، قوم، دین، دھرم کے حوالوں سے تقسیم ہے۔ جب انسان تقسیم ہو جاتا ہے تو اس کے مفادات بھی تقسیم ہوجاتے ہیں۔ جب مفادات تقسیم ہو جاتے ہیں تو مفادات کی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے اور ان تقسیم شدہ مفادات کو قومی مفادات کا نام دیا جاتا ہے اور قومی مفادات اور جغرافیائی سرحدیں ایسا تقدس بن جاتی ہیں جن کی حفاظت ہر قیمت پر کی جاتی ہے اور یہی قیمت کہیں صلیبی جنگوں کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔ کہیں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی شکل میں، کہیں کوریا اور ویت نام کی شکل میں، کہیں فلسطین اور کشمیر کی شکل میں۔
پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے حوالے سے دو بھرپور جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ملک آج بھی دفاع کے نام پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، دونوں ملکوں کے پاس لاکھوں افراد پر مشتمل فوج ہے جس کا کام اپنی مقدس سرحدوں کی حفاظت ہے۔ کشمیر میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں۔ یہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے مسلمان کہلاتے ہیں، کشمیر میں ہندو بھی رہتے ہیں یہ اس لیے ہندو کہلاتے ہیں کہ یہ ہندو گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں یہ کشمیری اس لیے کہلاتے ہیں کہ یہ کشمیر میں پیدا ہوئے ہیں، اس فسانے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ کوئی مسلمان اپنی مرضی سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا نہ کوئی ہندو اپنی مرضی سے کسی ہندو گھرانے میں پیدا، نہ کوئی کشمیری اپنی مرضی سے کشمیر میں پیدا ہوا، مسلمان اس لیے مسلمان بن گیا کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، ہندو اس لیے ہندو بن گیا کہ وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوا، لیکن اپنی مرضی اور رضا کے بغیر ہو جانے والی اس تقسیم نے ان کے مفادات تقسیم کر دیے۔ جب مفادات تقسیم ہو گئے تو ان کا تحفظ ضروری ہو گیا۔
یوں کشمیری عوام متنازعہ بن گئے۔ بھارت کے قومی مفادات کا تقاضا یہ بنا کہ وہ کشمیر پر طاقت کے زور پر قبضہ کر لے وہ مفادات جن کے حصول کے لیے بھارتی حکمرانوں کو فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کرنا پڑا، اس انسانی تقسیم کا نتیجہ ہے جس میں انسانوں کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی جنگیں منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی گئیں، منڈیوں پر قبضے کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی کہ قبضے کی لڑائی لڑنے والے اس انسانی تقسیم کے شکار تھے جس میں ان کا کوئی دخل نہ تھا نہ مرضی۔ صلیبی جنگیں بھی اس تقسیم کا نتیجہ ہیں جس میں ان کی مرضی اور رضا کا کوئی دخل نہیں۔ 1947ء میں ہندوستان جن بنیادوں پر تقسیم ہوا وہ بنیاد انسانوں کی ہندو مسلمان میں تقسیم تھی۔ جس میں نہ ہندو کا کوئی دخل تھا نہ مسلمان کا۔ لیکن ملک بھی اس تقسیم کی وجہ سے تقسیم ہوا اور 22 لاکھ سے زیادہ انسان بھی اس انسانی تقسیم کی وجہ سے قتل ہوئے۔
یہ تھوڑی سی تفصیل تھوڑے سے تلخ حقائق کا ذکر یوں کرنا پڑا کہ نواز شریف دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات میں کمی کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے دفاعی اخراجات اربوں ڈالروں کی شکل میں باقی رہیں گے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے دفاعی اخراجات اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک انسان تقسیم رہے گا اور جب تک انسانوں کی تقسیم کو محض انسان کی شناخت تک محدود نہیں کیا جائے گا۔