علم کی دہلیز سے عمل کی منزل تک
پاکستان میں کیریئر کونسلنگ کے کئی ادارے ہیں لیکن ملک کے 65 فیصد نوجوانوں کی ان تک رسائی نہیں ہوپاتی
یو ای ٹی لاہور میں کیریئر فیئر کی بدولت طالب علموں کو اپنی صلاحیتیں منوانے اور ملازمتیں حاصل کرنے میں بڑی سہولیات حاصل ہوئی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)
KARACHI:
راضیہ نے سوشل سائنسز میں ایم فل کیا، مختلف اداروں میں نوکری کی کوشش بھی کی، لیکن تمام تر کوششیں ناکام۔ بچپن سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک، ہزاروں خواب دل میں سجائے حوا کی بیٹی اب گھر میں بیٹھی ہے؛ کیوں کہ اسے خوابوں کو تعبیر دینے کےلیے کہیں سے مدد نہیں ملی۔ وہ قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھی لیکن مناسب رہنمائی نہ ملنے کے باعث وہ محروم رہی۔ دراصل اسے ترجیحات متعین کرنے اور ان کے درست استعمال کے بارے میں خبر نہیں تھی۔
یہ مسئلہ صرف راضیہ کا نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر اُس نوجوان کا ہے جو خواب تو بہت بڑے دیکھتا ہے لیکن ان خوابوں میں رنگ بھرنے کےلیے اسے رہنمائی نہیں ملتی؛ جس کے بعد بے روزگاری بڑھتی ہے۔ جبکہ ذہین اور قابل نوجوان نفسیاتی مسائل کا شکار الگ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی ادارے کیریئر کونسلنگ کا کام کرتے ہیں، لیکن ملک کے 65 فیصد نوجوانوں کو ان اداروں تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کےلیے رہنمائی دی جاتی ہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ نوجوانوں کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد بروقت روزگار ملنے کی صورت میں ملتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی ادارے تو درکنار، گھر پر بھی نوجوانوں کو رہبر نہیں ملتا۔ نوجوان سیلابی ریلوں کی صورت منجدھار میں پھنسی کشتی کی طرح بے رحم موجوں کے سہارے چلتے رہتے ہیں۔ کسی کو تنکا بھی کنارے تک پہنچا دیتا ہے اور اکثر نوجوان طوفان کے تھمنے کے انتظار میں اپنی عمر ضائع کردیتے ہیں۔ نوجوانوں کو ایک دائرے میں بند کردیا جاتا ہے۔
ہاں! اسی دائرے میں کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، ان کے بچپن میں دیکھے گئے خواب محدود ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے سے فراغت کے بعد انہیں بس بہتر روزگار کی تلاش ہوتی ہے؛ چاہے وہ روزگار ان کے مقاصد کا احاطہ کر رہا ہو یا وہ روزگار بس پیٹ کا ایندھن پورا کرنے کےلیے ہو۔ اپنی مرضی کی نوکری نہ ملنے کے بعد نوجوان ملنے والی نوکری میں بھی بہتر نتائج نہیں دکھا سکتے۔ یوں ناقص منصوبہ بندی اور مناسب رہنمائی نہ ہونے کی بدولت پاکستان کی اہم ضرورت افرادی قوت سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور وہ واحد ادارہ ہے جو اپنے طلبہ و طالبات کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کےلیے بہترین روزگار کے مواقع کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ یو ای ٹی لاہور، انجینئرز کی استعداد کار میں اضافے اور انہیں انجینئرنگ کے شعبے میں جدید رحجانات سے آگہی فراہم کرنے کےلیے وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے تربیتی کورسز، ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔
اسی طرح گزشتہ چار سال سے یہ جامعہ پاکستان کا سب سے بڑا کیریئر فیئر منعقد کروا رہی ہے جس کے تحت نامور ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں موقع پر ہی طلباء کے تحریری امتحان اور انٹرویوز لے کر انہیں روزگار کی پیشکش کرتی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران جہاں 2000 سے زائد طلباء نے ڈگریاں حاصل کیں، وہیں بیشتر نے اپنے ادارے کے توسط سے ہی نوکریاں بھی حاصل کیں۔ طلباء نے ادارے کی سرپرستی میں 1900 سے زائد سال آخر کے پروجیکٹ پیش کیے۔
ماضی کی اس روایت کو زندہٴ جاوید رکھنے کےلیے رواں سال بھی یونیورسٹی نے مارکیٹ اور طلبہ و طالبات کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے صنعتی میلے کا اہتمام کیا جس میں 500 سے زائد طلبہ و طالبات نے 420 پروجیکٹس نمائش کےلیے پیش کیے۔ جبکہ 100 سے زائد انڈسٹریز نے اپنے اسٹالز لگائے اور سال آخر کے طلباء کے انٹرویوز بھی کیے۔
اس سال بچوں نے ہاؤسنگ، انفرا اسٹرکچر، ٹیکنالوجی، صحت اور زراعت سے متعلق پروجیکٹس تیار کیے۔ شہر لاہور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور موٹر سائیکل سواروں کو جدید ہیلمٹس سے متعارف کرانے کےلیے پروجیکٹ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات نے سیفٹی ہیلمنٹ متعارف کرایا۔ یہ ہیلمنٹ مرد و خواتین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ باحجاب خواتین اس ہیلمٹ کو حجاب کے اوپر پہن سکتی ہیں جبکہ اس ہیلمٹ میں بال بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ملک میں گھروں کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور محفوظ ترین گھروں کی تیاری کےلیے بھی یونیورسٹی کے طلباء نے خصوصی پروجیکٹ تیار کیا۔ طلباء نے ڈی ایچ اے لاہور کے مجوزہ پروجیکٹس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انہیں آفات اور زلزلوں سے محفوظ بنانے کےلیے اپنی تجاویز بھی دیں۔ اسی طرح طلباء نے دنیا بھر میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تیاری کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ طلباء نے پاکستان میں بھی ایسی عمارتوں کی تیاری کےلیے اپنی تجاویز پیش کیں جو نہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم جگہ گھیریں گی بلکہ دیگر ممالک سے محفوظ بھی ہوں گی۔
ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع کو مدنظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے خصوصی ایکسیڈنٹ الرٹ سسٹم متعارف کرایا۔ اس نمائش میں طلباء نے حادثات کی وجہ بننے والے عوامل کو مدنظر رکھا، طلباء کی یہ ٹیکنالوجی ڈرائیور کو حادثے سے قبل الرٹ جاری کرتی ہے۔ اگر خدانخواستہ حادثہ ہو بھی جاتا ہے تو بعد ازاں حادثات کی وجوہ کا تعین کرنے میں بھی یہ ٹیکنالوجی معاون ثابت ہوگی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جو بہتر ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث زراعت سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مناسب ذرائع نہ ہونے کے باعث نہ صرف قیمتی سرمایہ ضائع ہوتا ہے بلکہ فصلوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے طلباء نے اس مسئلے کا حل بھی تلاش کرلیا ہے۔ طلباء نے شمسی توانائی سے چلنے والا ایسا روبورٹ تیار کرلیا ہے جو نہ صرف فصل کی تیاری کے دوران بیج کی کاشت میں معاون ہوگا بلکہ فصل میں موجود غیر ضروری جڑی بوٹیوں کو بھی تلف کرے گا۔ یونیورسٹی کے طلباء نے گزشتہ سال بھی ایسا ہی ایک روبورٹ تیار کیا تھا جس کا مقصد آب پاشی کے دوران پانی کا ضیاع قابو پانا تھا۔
صنعتی میلے کے دوران جہاں مختلف نیشنل اور ملٹی نیشنل صنعتوں نے طلباء کے پروجیکٹس کو سراہا اور ان کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کیا، وہیں ڈگری کے ساتھ ساتھ درجنوں طلباء کو نوکریاں بھی مل گئیں۔ طلباء اور صنعت کاروں نے صنعت و ملازمت کے اس میلے کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔ طلباء کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اس اقدام کے باعث جہاں ہمیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہیں ہمیں ڈگری مکمل کرنے کے بعد مارکیٹ میں خوار نہیں ہونا پڑتا۔
یونیورسٹی کے اس منصوبے کے باعث ہزاروں طلبہ و طالبات عملی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ دوسری جانب صنعت کاروں نے انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں صنعتی میلے سے خام مال ملتا ہے، جسے وہ تراش خراش کر مزید خوبصورت بنادیتے ہیں۔ اس میلے سے جہاں انہیں نئے پروجیکٹس کے بارے میں معلومات ملتی ہیں، وہیں انہیں اپنی انڈسٹری کےلیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند انجینئرز بغیر تلاش کے مل جاتے ہیں؛ جس سے ان کے وقت اور سرمائے کی خاطر خواہ بچت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ نے گزشتہ چار سال سے جس روایت کی بنیاد ڈالی ہے، اس سے طلبہ و طالبات اور صنعت کار بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ایسے ہی کیریئر کونسلنگ اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس سے ملک کی قیمتی افرادی قوت ضائع ہونے سے بچ جائے گی اور ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ ایسے اقدامات سے بچوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اور منزل کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
راضیہ نے سوشل سائنسز میں ایم فل کیا، مختلف اداروں میں نوکری کی کوشش بھی کی، لیکن تمام تر کوششیں ناکام۔ بچپن سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک، ہزاروں خواب دل میں سجائے حوا کی بیٹی اب گھر میں بیٹھی ہے؛ کیوں کہ اسے خوابوں کو تعبیر دینے کےلیے کہیں سے مدد نہیں ملی۔ وہ قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھی لیکن مناسب رہنمائی نہ ملنے کے باعث وہ محروم رہی۔ دراصل اسے ترجیحات متعین کرنے اور ان کے درست استعمال کے بارے میں خبر نہیں تھی۔
یہ مسئلہ صرف راضیہ کا نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر اُس نوجوان کا ہے جو خواب تو بہت بڑے دیکھتا ہے لیکن ان خوابوں میں رنگ بھرنے کےلیے اسے رہنمائی نہیں ملتی؛ جس کے بعد بے روزگاری بڑھتی ہے۔ جبکہ ذہین اور قابل نوجوان نفسیاتی مسائل کا شکار الگ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی ادارے کیریئر کونسلنگ کا کام کرتے ہیں، لیکن ملک کے 65 فیصد نوجوانوں کو ان اداروں تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کےلیے رہنمائی دی جاتی ہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ نوجوانوں کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد بروقت روزگار ملنے کی صورت میں ملتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی ادارے تو درکنار، گھر پر بھی نوجوانوں کو رہبر نہیں ملتا۔ نوجوان سیلابی ریلوں کی صورت منجدھار میں پھنسی کشتی کی طرح بے رحم موجوں کے سہارے چلتے رہتے ہیں۔ کسی کو تنکا بھی کنارے تک پہنچا دیتا ہے اور اکثر نوجوان طوفان کے تھمنے کے انتظار میں اپنی عمر ضائع کردیتے ہیں۔ نوجوانوں کو ایک دائرے میں بند کردیا جاتا ہے۔
ہاں! اسی دائرے میں کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، ان کے بچپن میں دیکھے گئے خواب محدود ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے سے فراغت کے بعد انہیں بس بہتر روزگار کی تلاش ہوتی ہے؛ چاہے وہ روزگار ان کے مقاصد کا احاطہ کر رہا ہو یا وہ روزگار بس پیٹ کا ایندھن پورا کرنے کےلیے ہو۔ اپنی مرضی کی نوکری نہ ملنے کے بعد نوجوان ملنے والی نوکری میں بھی بہتر نتائج نہیں دکھا سکتے۔ یوں ناقص منصوبہ بندی اور مناسب رہنمائی نہ ہونے کی بدولت پاکستان کی اہم ضرورت افرادی قوت سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور وہ واحد ادارہ ہے جو اپنے طلبہ و طالبات کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کےلیے بہترین روزگار کے مواقع کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ یو ای ٹی لاہور، انجینئرز کی استعداد کار میں اضافے اور انہیں انجینئرنگ کے شعبے میں جدید رحجانات سے آگہی فراہم کرنے کےلیے وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے تربیتی کورسز، ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔
اسی طرح گزشتہ چار سال سے یہ جامعہ پاکستان کا سب سے بڑا کیریئر فیئر منعقد کروا رہی ہے جس کے تحت نامور ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں موقع پر ہی طلباء کے تحریری امتحان اور انٹرویوز لے کر انہیں روزگار کی پیشکش کرتی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران جہاں 2000 سے زائد طلباء نے ڈگریاں حاصل کیں، وہیں بیشتر نے اپنے ادارے کے توسط سے ہی نوکریاں بھی حاصل کیں۔ طلباء نے ادارے کی سرپرستی میں 1900 سے زائد سال آخر کے پروجیکٹ پیش کیے۔
ماضی کی اس روایت کو زندہٴ جاوید رکھنے کےلیے رواں سال بھی یونیورسٹی نے مارکیٹ اور طلبہ و طالبات کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے صنعتی میلے کا اہتمام کیا جس میں 500 سے زائد طلبہ و طالبات نے 420 پروجیکٹس نمائش کےلیے پیش کیے۔ جبکہ 100 سے زائد انڈسٹریز نے اپنے اسٹالز لگائے اور سال آخر کے طلباء کے انٹرویوز بھی کیے۔
اس سال بچوں نے ہاؤسنگ، انفرا اسٹرکچر، ٹیکنالوجی، صحت اور زراعت سے متعلق پروجیکٹس تیار کیے۔ شہر لاہور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور موٹر سائیکل سواروں کو جدید ہیلمٹس سے متعارف کرانے کےلیے پروجیکٹ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات نے سیفٹی ہیلمنٹ متعارف کرایا۔ یہ ہیلمنٹ مرد و خواتین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ باحجاب خواتین اس ہیلمٹ کو حجاب کے اوپر پہن سکتی ہیں جبکہ اس ہیلمٹ میں بال بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ملک میں گھروں کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور محفوظ ترین گھروں کی تیاری کےلیے بھی یونیورسٹی کے طلباء نے خصوصی پروجیکٹ تیار کیا۔ طلباء نے ڈی ایچ اے لاہور کے مجوزہ پروجیکٹس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انہیں آفات اور زلزلوں سے محفوظ بنانے کےلیے اپنی تجاویز بھی دیں۔ اسی طرح طلباء نے دنیا بھر میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تیاری کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ طلباء نے پاکستان میں بھی ایسی عمارتوں کی تیاری کےلیے اپنی تجاویز پیش کیں جو نہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم جگہ گھیریں گی بلکہ دیگر ممالک سے محفوظ بھی ہوں گی۔
ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع کو مدنظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے خصوصی ایکسیڈنٹ الرٹ سسٹم متعارف کرایا۔ اس نمائش میں طلباء نے حادثات کی وجہ بننے والے عوامل کو مدنظر رکھا، طلباء کی یہ ٹیکنالوجی ڈرائیور کو حادثے سے قبل الرٹ جاری کرتی ہے۔ اگر خدانخواستہ حادثہ ہو بھی جاتا ہے تو بعد ازاں حادثات کی وجوہ کا تعین کرنے میں بھی یہ ٹیکنالوجی معاون ثابت ہوگی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جو بہتر ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث زراعت سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مناسب ذرائع نہ ہونے کے باعث نہ صرف قیمتی سرمایہ ضائع ہوتا ہے بلکہ فصلوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے طلباء نے اس مسئلے کا حل بھی تلاش کرلیا ہے۔ طلباء نے شمسی توانائی سے چلنے والا ایسا روبورٹ تیار کرلیا ہے جو نہ صرف فصل کی تیاری کے دوران بیج کی کاشت میں معاون ہوگا بلکہ فصل میں موجود غیر ضروری جڑی بوٹیوں کو بھی تلف کرے گا۔ یونیورسٹی کے طلباء نے گزشتہ سال بھی ایسا ہی ایک روبورٹ تیار کیا تھا جس کا مقصد آب پاشی کے دوران پانی کا ضیاع قابو پانا تھا۔
صنعتی میلے کے دوران جہاں مختلف نیشنل اور ملٹی نیشنل صنعتوں نے طلباء کے پروجیکٹس کو سراہا اور ان کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کیا، وہیں ڈگری کے ساتھ ساتھ درجنوں طلباء کو نوکریاں بھی مل گئیں۔ طلباء اور صنعت کاروں نے صنعت و ملازمت کے اس میلے کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔ طلباء کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اس اقدام کے باعث جہاں ہمیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہیں ہمیں ڈگری مکمل کرنے کے بعد مارکیٹ میں خوار نہیں ہونا پڑتا۔
یونیورسٹی کے اس منصوبے کے باعث ہزاروں طلبہ و طالبات عملی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ دوسری جانب صنعت کاروں نے انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں صنعتی میلے سے خام مال ملتا ہے، جسے وہ تراش خراش کر مزید خوبصورت بنادیتے ہیں۔ اس میلے سے جہاں انہیں نئے پروجیکٹس کے بارے میں معلومات ملتی ہیں، وہیں انہیں اپنی انڈسٹری کےلیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند انجینئرز بغیر تلاش کے مل جاتے ہیں؛ جس سے ان کے وقت اور سرمائے کی خاطر خواہ بچت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ نے گزشتہ چار سال سے جس روایت کی بنیاد ڈالی ہے، اس سے طلبہ و طالبات اور صنعت کار بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ایسے ہی کیریئر کونسلنگ اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس سے ملک کی قیمتی افرادی قوت ضائع ہونے سے بچ جائے گی اور ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ ایسے اقدامات سے بچوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اور منزل کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔