پوری زندگی 5 ہزارہاتھی مارنے والے شکاری کواب بھی شرمندگی نہیں
77 سالہ روم تھامپسن جنگلی بھینسوں اور دیگر جانوروں کو بھی مار چکا ہے
افریقی ہاتھیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے لیکن رون تھامپسن جیسے شقی القلب شکاریوں کو ان کے قتلِ عام پر کوئی شرمندگی نہیں (فوٹو: فائل)
زمبابوے کے ایک شکاری نے نصف صدی کے دوران 5 ہزار افریقی ہاتھی، سیکڑوں بھینسے اور لاتعداد دیگر جان داروں کو نشانہ بنایا ہے اور اب بھی اسے اپنے اس فعل پر کوئی شرمندگی نہیں۔
77 سالہ رون تھامپسن نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جانوروں کے تحفظ کرنے والے خواہ مخواہ شور کرتے ہیں حالانکہ جانوروں کی آبادی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، میں جانوروں کے خون کا پیاسا نہیں بلکہ ان کی تعداد کو محدود رکھنے کی ضرورت ہے جس پر میں عمل کرتا ہوں۔
رون کے مطابق جنگلی حیات سے وابستہ تنظیمیں ان سے متعلق جھوٹ بولتی ہیں جبکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں جن میں ہزاروں جانوروں کو قتل کرنا شامل ہے۔
رون نے بتایا کہ 'میرے کوئی خاص احساسات نہیں اور نہ ہی میں اس پر شرمندہ ہوں، جتنی مرتبہ بھی میں نے شکار کیا ہے مجھے اس پر کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں، میں جو کچھ بھی شکار کرتا ہوں وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ چند نام نہاد ماہرین نے پھیلا رکھا ہے میں یونیورسٹی سے تربیت یافتہ ایک ماہرِ ماحولیات ہوں اور سب کچھ جانتا ہوں'۔
تھامپسن نے اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب تک 5 ہزار ہاتھی، 800 بھینسے، 60 شیر، 50 دریائی گھوڑے، 40 تیندوے اور دیگر بہت سے جانور مار چکا ہے۔ اگرچہ یہ واضح ہے کہ وہ صرف ہاتھیوں کا شکاری ہے لیکن زمبابوے کا دعویٰ ہے کہ دیگر نایاب اور بڑے جانوروں کی کم تعداد میں اس کا کوئی کردار نہیں۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=7&v=4ihBD8VHpkc
تھامپسن کا مؤقف ہے کہ جانوروں کو ان کے قدرتی مسکن میں ان کی آبادی کو محدود رکھنا ہی مناسب ہے اس ضمن میں تنظیمیں رقم کے بدلے جھوٹ بولتی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے باوجود افریقی ہاتھی کی بقا کو کئی خطرہ لاحق نہیں وہ کہتا ہے کہ اسے شکار سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور اس عمل سے وہ بہت لطف اٹھاتا ہے۔
رون پر دنیا بھر سے تنقید کی جارہی ہے کیوں کہ وہ رقم کے عوض ان جان داروں کو مارتا ہے جسے ٹرافی ہنٹنگ کہا جاتا ہے۔ اسی رجحان کے تحت 1980ء میں جہاں افریقی ہاتھیوں کی تعداد 13 لاکھ تھی اب گھٹ کر صرف 4 لاکھ باقی رہ گئی ہے یعنی 70 فیصد آبادی ہلاک ہوچکی ہے۔
پھر تھامپسن کا یہ نظریہ کہ جانوروں کا مسکن آگے نہیں بڑھنا چاہیے بھی غلط ہے کیونکہ انسانی آبادی کے پھیلاؤ سے ان جانوروں کا قدرتی گھر اور مقام تیزی سے سکڑ رہا ہے۔
جانوروں کی بقا کے دیگر اداروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ جاری رہی اور تھامپسن جیسے ڈھیٹ شکاری باز نہ آئے تو یہ جانور صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔
77 سالہ رون تھامپسن نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جانوروں کے تحفظ کرنے والے خواہ مخواہ شور کرتے ہیں حالانکہ جانوروں کی آبادی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، میں جانوروں کے خون کا پیاسا نہیں بلکہ ان کی تعداد کو محدود رکھنے کی ضرورت ہے جس پر میں عمل کرتا ہوں۔
رون کے مطابق جنگلی حیات سے وابستہ تنظیمیں ان سے متعلق جھوٹ بولتی ہیں جبکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں جن میں ہزاروں جانوروں کو قتل کرنا شامل ہے۔
رون نے بتایا کہ 'میرے کوئی خاص احساسات نہیں اور نہ ہی میں اس پر شرمندہ ہوں، جتنی مرتبہ بھی میں نے شکار کیا ہے مجھے اس پر کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں، میں جو کچھ بھی شکار کرتا ہوں وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ چند نام نہاد ماہرین نے پھیلا رکھا ہے میں یونیورسٹی سے تربیت یافتہ ایک ماہرِ ماحولیات ہوں اور سب کچھ جانتا ہوں'۔
تھامپسن نے اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب تک 5 ہزار ہاتھی، 800 بھینسے، 60 شیر، 50 دریائی گھوڑے، 40 تیندوے اور دیگر بہت سے جانور مار چکا ہے۔ اگرچہ یہ واضح ہے کہ وہ صرف ہاتھیوں کا شکاری ہے لیکن زمبابوے کا دعویٰ ہے کہ دیگر نایاب اور بڑے جانوروں کی کم تعداد میں اس کا کوئی کردار نہیں۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=7&v=4ihBD8VHpkc
تھامپسن کا مؤقف ہے کہ جانوروں کو ان کے قدرتی مسکن میں ان کی آبادی کو محدود رکھنا ہی مناسب ہے اس ضمن میں تنظیمیں رقم کے بدلے جھوٹ بولتی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے باوجود افریقی ہاتھی کی بقا کو کئی خطرہ لاحق نہیں وہ کہتا ہے کہ اسے شکار سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور اس عمل سے وہ بہت لطف اٹھاتا ہے۔
رون پر دنیا بھر سے تنقید کی جارہی ہے کیوں کہ وہ رقم کے عوض ان جان داروں کو مارتا ہے جسے ٹرافی ہنٹنگ کہا جاتا ہے۔ اسی رجحان کے تحت 1980ء میں جہاں افریقی ہاتھیوں کی تعداد 13 لاکھ تھی اب گھٹ کر صرف 4 لاکھ باقی رہ گئی ہے یعنی 70 فیصد آبادی ہلاک ہوچکی ہے۔
پھر تھامپسن کا یہ نظریہ کہ جانوروں کا مسکن آگے نہیں بڑھنا چاہیے بھی غلط ہے کیونکہ انسانی آبادی کے پھیلاؤ سے ان جانوروں کا قدرتی گھر اور مقام تیزی سے سکڑ رہا ہے۔
جانوروں کی بقا کے دیگر اداروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ جاری رہی اور تھامپسن جیسے ڈھیٹ شکاری باز نہ آئے تو یہ جانور صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔