پہلی گولی 1969 میں چلی

ہتھیاروں کے ذریعے پریس پر دبائو ڈالنا آزاد پریس کے وجود کے لیے خطرناک ترین مسئلہ ہوگیا ہے۔

zahedahina@gmail.com

یہ 1989 کی بات ہے، اگست کی 23 ویں تاریخ تھی جب کراچی یونین آف جرنلسٹس کی طرف سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ کراچی پریس کلب میں ہونے والے اس جلسے کی صدارت پاکستان کے نامور دانشور اور قانون دان جناب جسٹس (ر) دراب پٹیل نے کی۔ مذاکرے کا موضوع ''تشدد اور پریس'' تھا۔ اس روزبھی حسبِ معمول کراچی پریس کلب میں صحافیوں کا جمگھٹا تھا۔ لیکن مذاکرے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 20 یا 25 افراد سے زیادہ نہ تھی۔ جن میں سے کچھ وہ بھی تھے جو صحافی نہ تھے لیکن اس لیے آئے تھے کہ وہ اسے اخبارات یا صحافیوں کا نہیں، سماج کی ادھڑی ہوئی بنت، عدم رواداری اور آزادیٔ تحریر و تقریر پر قدغن کو اپنا مسئلہ سمجھتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ برسراقتدار آئی تھیں لیکن ان کی حکومت ملک اور بہ طور خاص کراچی میں تشدد آمیز سیاست کرنے والوں کو لگام نہیں دے سکی تھی۔ اس کا نقصان جمہوریت کو ہورہا تھا، کئی سیاسی لسانی اور مذہبی تنظیمیں قابو سے باہر تھیں۔ کراچی اس تشدد اور زباں بندی کا سب سے بڑا شکار تھا۔ اس مذاکرے میں پاکستانی صحافت کے ایک بڑے نام ضمیرنیازی نے بھی تقریر کی تھی۔ اس جلسے کی مختصر خبر روزنامہ ''ڈان'' نے شایع کی۔ اس کے سوا کسی دوسرے اخبار میں ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اسے شایع کرتا۔

میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ ضمیر نیازی صاحب نے اس روز جو تقریر کی اس کا ترجمہ من و عن ''روشن خیال'' کی نومبر... دسمبر 1989 کی اشاعت میں شایع ہوا، میں جس کی مدیر تھی۔ نیازی صاحب کی کتاب ''انگلیاں فگار اپنی'' میں ان کی یہ تقریر ''میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں'' کے عنوان سے موجود ہے۔ اس روز نیازی صاحب نے جو تقریر کی تھی اس کے چند پیرا گراف یہاں تبرکاً پیش کیے جارہے ہیں۔

انھوںنے کہا تھا کہ '' یہاں ہم ایک ایسے مسئلے کو زیر بحث لائیں گے، جوکہ پورے قومی پریس کو مفلوج کرچکا ہے۔ ہتھیاروں کے ذریعے پریس پر دبائو ڈالنا آزاد پریس کے وجود کے لیے خطرناک ترین مسئلہ ہوگیا ہے۔ اخبارات کے دفاتر پر حملے، رپورٹوں اور فوٹوگرافروں کو مارنا، پیٹنا، ان کے کیمرے اور فلم رول اورہاکروں سے اخبارات چھین لینا، یہ سب کچھ روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ تشدد اپنا راستہ بناتے ہوئے نیوز روم تک پہنچ چکا ہے اور ایک عفریت کی مانند پورے پریس کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

'' یہ سب کچھ 1969 میں شروع ہوا اور 1980 کی دہائی میں خطرناک جہت تک پہنچ گیا۔ گزشتہ دہائی میں ہتھیاروں کی نمائش کو ایک پیشہ ورانہ شکل کے طور پر لیا جاتا تھا۔ لیکن اب وہ دن دور نہیں جب اخبارات کے نیوز روم پر حفاظتی عملے تعینات ہوں گے۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں اخبارات کا دفتر ایک کھلے گھر کی طرح ہوتا تھا جہاں ہر کوئی بغیر کسی رکاوٹ کے جاسکتا تھا۔ لیکن اب اس کی رسائی حفاظتی عملے کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔''

ضمیر نیازی مرحوم پاکستانی صحافت پر گزرنے والے دور ستم کے ایک بے مثال وقایع نگار تھے۔ ان کے پاس تمام واقعات کا ریکارڈ موجود تھا جو بعد میں ان کی کتابوںمیں استعمال ہوا۔ ایک ایسی ہی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے اس روز انھوںنے کہا تھا کہ '' کسی اخباری دفتر پر پہلی گولی 24 جنوری 1969 میں چلی۔ یہ ایوب خان کی خود ساختہ حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے عروج کے زمانے میں ہوا۔ طلباء کے ہجوم نے ڈھاکے میں واقع نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار 'مارننگ نیوز' اور 'دینک پاکستان' کے دفتر میں آگ لگائی۔ اس کے نتیجے میں اخبارات کی اشاعت چند روز کے لیے بند رہی اور پھرمشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد 26 مارچ 1971 کو روزنامہ ''دی پیپل'' کے دفتر پر ہلہ بولا گیا۔

لندن سے شایع ہونے والے جریدے ''دی ٹائمز'' نے لکھا کہ'' ڈھاکا کا ایک روزنامہ ''دی پیپل'' جو کہ عوامی لیگ کے انتہا پسند گروپ کا ترجمان تھا، نشانہ بنا۔ چند منٹوں میں پوری عمارت اپنے دفتر اور پرنٹنگ پریس کے ساتھ راکھ کا ڈھیر بن گئی۔'' ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت ڈھاکا میں تھے انھوںنے خود پورا واقعہ دیکھا تھا اور بعد میں اطالوی خاتون صحافی اوریانا فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا ذکر کیا تھا۔


پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت (1971-77) میں نہایت منظم انداز میں دو اخبارات کے دفاتر پر حملے ہوئے۔ یہ اخبارات ''دی ٹائمز'' راولپنڈی اور ''جسارت'' کراچی تھے۔ مارچ 1972 کے آخری ہفتے میں تین دن کے دوران ''دی ٹائمز'' راولپنڈی پر دو دفعہ حملے ہوئے۔ اس کے نتیجے میں میر جمیل الرحمان نے احتجاجاً اخبار کی اشاعت روک دی اور حالات کے نارمل ہونے تک اخبار کو بند رکھنے کا اعلان کیا۔ 'دی ٹائمز' دوبارہ پھر کبھی شایع نہیں ہوا۔ دوسری طرف روزنامہ 'جسارت' جماعت اسلامی کی حمایت کے باعث ان مشکلات کے باوجود چلتا رہا۔

اس دور میں سخت پابندیوں کی وجہ سے اخباروں اور اخباری ایجنسیوں کے لیے روزانہ کے کام کوبجالانا بہت مشکل تھا۔ رپورٹر اور فوٹو گرافر سیاسی گروہوں کے تشدد اور پولیس کے لاٹھی چارج کانشانہ بنتے۔ 13 اپریل 1977 کو پی ایف یو جے نے حکومت اور پریس کے تعلق کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ''حکومت کی جبری پابندیوں نے صحافیوں کو لوگوں کے تضحیک آمیز رویے اور تشدد کے سامنے تنہا کردیا ہے۔ '' اس تجزیے میں مزید کہا گیا ''قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پرُتشدد رویے اور طاقت کے استعمال کی وجہ سے رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ کئی مرتبہ مشتعل ہجوم کے تشدد کا نشانہ بھی بنے ہیں۔''

حملے اور توڑ پھوڑ پچھلی دہائی میں روزانہ کامعمول بن چکے تھے۔ رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کی بڑی تعداد سیاست دانوں اور ان کے ایجنٹوں کے تشدد کا نشانہ بنی۔ اخباروں کو ہاکروں سے چھین لینا، جلادینا، فوٹو گرافروں سے فلم رول چھین لینا، پوری سوسائٹی میں ایک رجحان بن چکاتھا۔ 1982 میں روزنامہ جنگ اور نوائے وقت لاہور کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور طلبا کے گروہ نے نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ ٹیلی فون لائنیں اور دفتر کا فرنیچر تباہ کر ڈالا اور اسٹاف کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔

20 جنوری 1987 کو ایک منظم اور طے شدہ حملہ روزنامہ 'فرنٹیئر پوسٹ' پشاور کے دفتر پر ہوا۔ غنڈہ عناصر نے آدھے گھنٹے کے اندر پورے دفتر کو تباہ کر ڈالا۔ دفتر میں ایک ایک چیز کو مسمار کیا گیا۔ جس میں دفتر کا فرنیچر، آلات، ٹیلی فون لائنیں، بجلی کی اشیا، اخبار اور کیمرے کی فلموں کے رول وٖغیرہ شامل تھے۔ اس کام سے فراغت کے بعد غنڈوں نے دفتر کے عملے پر حملہ کیا جس کی وجہ سے عملے کے افراد کو بھاگ کر جان بچانا پڑی۔ یہاں تک کہ عملے کی دو خواتین بھی اس مار پیٹ سے نہ بچ سکیں۔ روزنامہ 'نوائے وقت' کے دفتر پر حملہ کرنے والوں نے وہاں موجود ایک صحافی خاتون کو بھی بالوں سے پکڑکر گھسیٹا۔''

اپنی اس تقریر میں نیازی صاحب نے سینئر صحافی حضور احمد شاہ اور دوسرے صحافیوں کو زدو کوب کیے جانے کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے 1987 میں منشیات فروشوں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے والے لاہور کے صحافی وسیم قاضی کے قتل پر واویلا کیا۔ 1988میں سندھی روزنامہ ''آفتاب'' پر ہلا بولا گیا اور وہاں کام کرنے والوں کا مزاج درست کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان لوگوں کی خطا یہ تھی کہ وہ اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف لکھ رہے تھے۔ ''ہلال پاکستان'' کے محمد بخش اڈہانو کو مسلح افراد نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کیا اور پھر محمد بخش کی چھوٹی بہن کو مالِ غنیمت کے طور پر ساتھ لے گئے۔

نیازی صاحب نے اس روز کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی، اسلام آباد میں اخبارات اور صحافیوں پر ہونے والے تشدد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اخباری مالکان اور صحافیوں سے کہا تھا ''اگر آپ کے دل میں معلومات حاصل کرنے کے اپنے حق کی قدروقیمت ہے تو برائے مہربانی اس بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ شاید یہ آپ کے لیے آخری موقع ہو۔ شاید کل بہت دیر ہوچکی ہو۔ شاید یہ کل کبھی نہ آئے۔''

24 برس پہلے کے یہ کڑوے بول کتنے سچ ثابت ہوئے ۔ ہمارے متعدد جرأت مند صحافیوں کے لیے 'کل' پھر کبھی نہ آئی۔ کسی 'سیف ہائوس' میں جب سلیم شہزاد تشدد کے آخری مرحلوں سے گزر رہا تھا اورسانس کا ٹانکا ٹوٹ رہا تھا تو کوئی اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکا اور قتل کے بعد نہر میں بہائی جانے والی اس کی لاش کو لحد کے سپرد کرنے کے بعد بھی اس کے ساتھی بھلا کب اس کے قاتلوں تک پہنچ پائے اور اس کے علاوہ درجنوں وہ صحافی جو گزشتہ برسوں میں جان سے گئے، ان کے قاتل آزاد گھومتے ہیں۔

چند دنوں پہلے 'ایکسپریس میڈیا گروپ' کے دفتر پر جس دیدہ دلیری سے حملہ ہوا، گولیاں چلیں۔ وہ مسلح دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے خبردار کیے جانے کا مظاہرہ ہے۔ ایک ایسا سلسلہ جو سالہا سال سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اس سماج کے بے تاج بادشاہوں کی طبع نازک پر کب کیا بات گراں گزر جائے کون اس بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے۔
Load Next Story