ملک دشمن نعرے حکمت عملی کیا ہوگی
اس دھرتی کو حاصل کرنے کےلیے جو قربانیاں دی گئی تھیں، کیا وہ کافی نہیں تھیں؟
پی ٹی ایم کے حامی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
KABUL:
نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد منظور پشتین منظر عام پر آئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر اسلام آباد تک ان کے مطالبات بالکل جائز تھے۔ اس وقت ان کا پہلا مطالبہ راؤ انوار کی جلد از جلد گرفتاری اور اس پر مقدمے کا اندراج تھا۔ آہستہ آہستہ جب منظور کے ساتھ عوام جڑنے لگے، ان کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ان کے چند اہم اور غور طلب مطالبات یہ تھے:
لاپتا افراد کی فہرست فراہم کرنے اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ؛
فاٹا میں چیک پوسٹوں پر سختی کے بجائے نرمی کا برتاؤ کیا جائے اور چیک پوسٹیں کم کی جائیں؛ اور
بارودی سرنگیں (مائنز) ہٹا دی جائیں، جن سے بچے، بوڑھے اور جوان متاثر ہورہے ہیں۔
ان کے یہ مطالبات بالکل جائز تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ چیک پوسٹوں کی کمی اور فوجی جوانوں کا رویہ بالکل درست ہونا چاہیے۔ بارودی سرنگوں کو بھی ہٹانا چاہیے کیونکہ ان سے عام لوگ متاثر ہورہے ہیں؛ اور راؤ انوار جس سزا کا حقدار ہے، اسے وہ سزا ملنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
پی ٹی ایم یہاں تک بالکل درست سمت میں جارہی تھی اور بہت بڑی تعداد میں پشتون بھی ان کے ساتھ تھے۔ لیکن جب سے پی ٹی ایم نے یہ نعرہ لگایا ''یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے'' تب سے پی ٹی ایم کے حامی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایسے نعروں سے نہ صرف ہمیں نقصان پہنچے گا بلکہ یہ مہم بھی آہستہ آہستہ سبوتاژ ہوجائے گی۔ دوسرا دھڑا ''لر او بر یو'' کے نظریئے کا حامی ہے، یعنی لر سے مراد افغانستان اور بر سے مراد پختونستان، یہ دونوں ایک ہیں اور ایک ہوکر رہیں گے۔ اس دوسرے دھڑے نے اس نعرے کا خوب پرچار کیا۔ ان ہی نعروں کی وجہ سے نہ صرف انہیں نقصان پہنچا بلکہ لوگوں تک یہ تاثر پہنچا کہ ان کی پشت پر افغان سرغنہ ہے۔
پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس دیکھی تو مجھے وہ دن یاد آیا جب ہمیں گزشتہ رمضان المبارک میں ڈی جی صاحب نے افطار ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ وفد میں تقریباً چالیس سے زائد طلبا موجود تھے جن کا تعلق قبائلی علاقہ جات کے مختلف تعلیمی اداروں سے تھا۔ وہاں آرمی چیف سے بہت ہی کھلے انداز میں پی ٹی ایم کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ صاحب نے منظور کو اپنا بیٹا کہا تھا۔ جن مطالبات کا ذکر ہم نے اوپر کیا، انہوں نے بھی نہ صرف ان مطالبات کو جائز قرار دیا بلکہ حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام لیا اور کہا کہ ملک کے خلاف میرا بیٹا بھی اگر کچھ کرے گا تو میں اسے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔
اس وقت بھی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے منظور کو دعوت بھی دی تھی، اور ان سے لاپتا افراد کی لسٹ بھی مانگی تھی۔ اسی کانفرنس میں پچھلے سال انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات اور شواہد بھی ہیں کہ انہیں فنڈز افغانستان سے آتے ہیں۔
پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس، منظور پشتین کے وائس آف امریکا کو انٹرویو اور ساتھ ہی بلاول بھٹو کی مختصر پریس کانفرنس، یہ سب کچھ ملک کے حق میں نہیں۔ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کو ملکی مفاد کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے بنیادی حقوق اور جائز مطالبات پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ دوسری طرف ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے جائز مطالبات پر غور کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرے۔
یہ ملک دشمن نعرے ایک ایسی آگ کو بھڑکائیں گے جسے بجھانا مشکل ہوجائے گا۔ نقصان دونوں طرف سے ہمیں ہی اٹھانا ہے۔ لہٰذا حکومت کو جلد از جلد مذاکرات کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے اور حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو، خاکم بدہن، آنے والا وقت انتہائی سنگین ہوسکتا ہے۔
ملک میں قومیت کی جنگ پہلے ہی جاری ہے اور اس میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ اس وطن کو تو امن کا گہوارہ بننا تھا، یہ وطن تو امن کا داعی تھا۔ اس دھرتی کو حاصل کرنے کےلیے جو قربانیاں دی گئی تھیں، کیا وہ کافی نہیں تھیں؟ ہم ان ستر برسوں میں جنگ ہی تو کرتے آرہے ہیں۔ آؤ! اب امن کا پیغام عام کریں۔ محبت کو اپنی تلوار اور اس وطن کو گلستان بنالیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد منظور پشتین منظر عام پر آئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر اسلام آباد تک ان کے مطالبات بالکل جائز تھے۔ اس وقت ان کا پہلا مطالبہ راؤ انوار کی جلد از جلد گرفتاری اور اس پر مقدمے کا اندراج تھا۔ آہستہ آہستہ جب منظور کے ساتھ عوام جڑنے لگے، ان کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ان کے چند اہم اور غور طلب مطالبات یہ تھے:
لاپتا افراد کی فہرست فراہم کرنے اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ؛
فاٹا میں چیک پوسٹوں پر سختی کے بجائے نرمی کا برتاؤ کیا جائے اور چیک پوسٹیں کم کی جائیں؛ اور
بارودی سرنگیں (مائنز) ہٹا دی جائیں، جن سے بچے، بوڑھے اور جوان متاثر ہورہے ہیں۔
ان کے یہ مطالبات بالکل جائز تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ چیک پوسٹوں کی کمی اور فوجی جوانوں کا رویہ بالکل درست ہونا چاہیے۔ بارودی سرنگوں کو بھی ہٹانا چاہیے کیونکہ ان سے عام لوگ متاثر ہورہے ہیں؛ اور راؤ انوار جس سزا کا حقدار ہے، اسے وہ سزا ملنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
پی ٹی ایم یہاں تک بالکل درست سمت میں جارہی تھی اور بہت بڑی تعداد میں پشتون بھی ان کے ساتھ تھے۔ لیکن جب سے پی ٹی ایم نے یہ نعرہ لگایا ''یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے'' تب سے پی ٹی ایم کے حامی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایسے نعروں سے نہ صرف ہمیں نقصان پہنچے گا بلکہ یہ مہم بھی آہستہ آہستہ سبوتاژ ہوجائے گی۔ دوسرا دھڑا ''لر او بر یو'' کے نظریئے کا حامی ہے، یعنی لر سے مراد افغانستان اور بر سے مراد پختونستان، یہ دونوں ایک ہیں اور ایک ہوکر رہیں گے۔ اس دوسرے دھڑے نے اس نعرے کا خوب پرچار کیا۔ ان ہی نعروں کی وجہ سے نہ صرف انہیں نقصان پہنچا بلکہ لوگوں تک یہ تاثر پہنچا کہ ان کی پشت پر افغان سرغنہ ہے۔
پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس دیکھی تو مجھے وہ دن یاد آیا جب ہمیں گزشتہ رمضان المبارک میں ڈی جی صاحب نے افطار ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ وفد میں تقریباً چالیس سے زائد طلبا موجود تھے جن کا تعلق قبائلی علاقہ جات کے مختلف تعلیمی اداروں سے تھا۔ وہاں آرمی چیف سے بہت ہی کھلے انداز میں پی ٹی ایم کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ صاحب نے منظور کو اپنا بیٹا کہا تھا۔ جن مطالبات کا ذکر ہم نے اوپر کیا، انہوں نے بھی نہ صرف ان مطالبات کو جائز قرار دیا بلکہ حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام لیا اور کہا کہ ملک کے خلاف میرا بیٹا بھی اگر کچھ کرے گا تو میں اسے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔
اس وقت بھی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے منظور کو دعوت بھی دی تھی، اور ان سے لاپتا افراد کی لسٹ بھی مانگی تھی۔ اسی کانفرنس میں پچھلے سال انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات اور شواہد بھی ہیں کہ انہیں فنڈز افغانستان سے آتے ہیں۔
پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس، منظور پشتین کے وائس آف امریکا کو انٹرویو اور ساتھ ہی بلاول بھٹو کی مختصر پریس کانفرنس، یہ سب کچھ ملک کے حق میں نہیں۔ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کو ملکی مفاد کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے بنیادی حقوق اور جائز مطالبات پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ دوسری طرف ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے جائز مطالبات پر غور کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرے۔
یہ ملک دشمن نعرے ایک ایسی آگ کو بھڑکائیں گے جسے بجھانا مشکل ہوجائے گا۔ نقصان دونوں طرف سے ہمیں ہی اٹھانا ہے۔ لہٰذا حکومت کو جلد از جلد مذاکرات کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے اور حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو، خاکم بدہن، آنے والا وقت انتہائی سنگین ہوسکتا ہے۔
ملک میں قومیت کی جنگ پہلے ہی جاری ہے اور اس میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ اس وطن کو تو امن کا گہوارہ بننا تھا، یہ وطن تو امن کا داعی تھا۔ اس دھرتی کو حاصل کرنے کےلیے جو قربانیاں دی گئی تھیں، کیا وہ کافی نہیں تھیں؟ ہم ان ستر برسوں میں جنگ ہی تو کرتے آرہے ہیں۔ آؤ! اب امن کا پیغام عام کریں۔ محبت کو اپنی تلوار اور اس وطن کو گلستان بنالیں۔
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔