ملکی حقائق پر سیر حاصل گفتگو
ضرورت قومی انداز فکر پر مبنی کثیرالمقاصد جمہوری سوچ اور سیاسی رواداری و شراکت داری کی ہے۔
ضرورت قومی انداز فکر پر مبنی کثیرالمقاصد جمہوری سوچ اور سیاسی رواداری و شراکت داری کی ہے۔ فوٹو : فائل
ISLAMABAD:
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پیر کو حساس ملکی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی،انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں ملک کو درپیش داخلی،خارجی، سفارتی اور دفاعی امور کا کثیر جہتی جائزہ لیتے ہوئے دہشت گردی، مدرسوں کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت، کالعدم تنظیموں ، پی ٹی ایم اور بھارت کی جنگی مہم جوئی سمیت ملکی میڈیا کے فعال، تقابلی اور آزادانہ کردار کے حوالہ سے کہا کہ 1971 ء میں آج کا میڈیا ہوتا ، حالات کو بے نقاب کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاسی ، معاشی اور تزویراتی صورتحال کی گمبھیرتا اس بات کی متقاضی تھی کہ دہشت گردی سے نمٹنے اور بیش بہا قربانیاں دینے کے بعد چیلنجنگ ایشوز پر داخلی و خارجی عناصر کا رد عمل مبہم اورتعجب انگیز نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ریاستی رٹ کے خلاف جن عناصر نے یلغار کی اس سے پیداشدہ perception میں بھی پاکستان کی فرنٹ لائن کردار کے اعتراف میں کشادہ دلی کا شدید فقدان نظر آیا جب کہ فاٹا سمیت ملک کے دیگر شہری علاقوں سے اگرچہ دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکاگیا، دہشت گردی اور انتہاپسندی مخالف کارروائیوں میں بے پناہ نقصانات بھی اٹھائے جب کہ پاکستان کو سیاسی گرداب سے نکلنے میں پھر بھی صبر آزما صورتحال کا سامنا رہا۔
اس سیاق وسباق میں عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس سے فکری جمود ٹوٹا ، تضادات دور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور قومی یکجہتی اوروسیع تر قومی اتفاق رائے کے لیے فوجی ترجمان نے زمینی حقائق کھول کر رکھ دیے، خطے کی تزویراتی مشکلات پر قوم اور میڈیا کو خطرات سے آگاہ کیا جن پر ٹھوس بنیادوں پر ڈائیلاگ کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کو آج بھی ضرورت ہے۔
پریس کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات اور طرزعمل کا جائزہ بھی لیا گیا، میجر جنرل آصف غفور نے متنوع موضوعات پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کو جتنی چھوٹ اور آزادی دینی تھی دیدی، ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ،کوئی آپریشن نہیں ہوگا، پی ٹی ایم لاپتہ افراد کی فہرست ہمیں دے، معلوم کرا لیں گے کون کہاں ہے، انھوں نے کہا پی ٹی ایم جب شروع ہوئی تو میں نے ان کے ساتھ بات چیت کی، ان کے مطالبات سنے، ان کے مطالبے پر علاقے میں سرنگیں صاف کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا جس میں ہمارے 101جوان شہید ہوئے۔
فوجی ترجمان کے مطابق پاکستان میں کسی منظم دہشت گرد تنظیم کا نیٹ ورک موجود نہیں ہے، داعش کو جگہ نہیں بنانے دیں گے، افغان پناہ گزینوں کی واپسی بہت ضروری ہے، مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نصاب میں دین اور اسلام تو ہو گا نفرت انگیز مواد نہیں، انھوں نے کہا کہ بھارت امن کے لیے سنجیدہ ہے تو آئے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے، ہم ہر وہ کام کریں گے جو ملک کی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہو۔
پاکستان پلوامہ حملے میں کسی طور پر ملوث نہیں تھا، لیکن بھارت ان گنت جھوٹ بول رہا ہے، تاہم پاکستان کے اچھے رویے کو دیکھتے ہوئے بھارت نے کچھ اچھا رویہ دکھایا ہے،لہذا بھارت ہمارے صبر کا امتحان نہ لے، ہم اپنے ملک کا دفاع کریں گے، ترجمان کے مطابق میڈیا نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی اور خاص طور پر بھارت سے تین دن کی جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے بہتر میڈیا کا کردار نہیں ہو سکتا۔
فوجی ترجمان نے کہا کہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور ہمیں اس کے لیے جنگ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔ پریس کانفرنس میں جیوپولیٹیکل صورتحال کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بیرونی مداخلت کے باعث حالات خراب ہوئے، ملک میں جہاد کی فضاء قائم ہوئی۔ خطے میں دوسری پراکسیز تھیں، سعودی عرب اور ایران ان کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔
نائن الیون کے بعد خطے میں نئی مفادات کی جنگ شروع ہوئی، 70ممالک کے ساتھ ہم انٹیلی جنس شیئرنگ کرتے ہیں جس کی ہم نے قیمت ادا کی ہے۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں30ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں،اور برملا نشاندہی کی گئی کہ جہاد کی تبلیغ دینے والے مدارس پرامن مدارس کے مقابلہ میں کم ہیں ۔
اب بلاشبہ ضرورت قومی انداز فکر پر مبنی کثیرالمقاصد جمہوری سوچ اور سیاسی رواداری و شراکت داری کی ہے، پی ٹی ایم کو انگیج کرنے ، فاٹا میں تعمیر وترقی اور اقتصادی بحالی کے لیے بلاتاخیر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ ملکی سلامتی کے کاز کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہونی شرط ہے۔ ملک ہے تو سیاست ہوگی۔دہشت گردی اور انتہا پسندی نے بڑا کولیٹرل ڈیمج کیا ہے اب اس نقصان کے لازمی ازالہ کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اس لیے قومی امنگوں کی پاسداری لازم ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پیر کو حساس ملکی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی،انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں ملک کو درپیش داخلی،خارجی، سفارتی اور دفاعی امور کا کثیر جہتی جائزہ لیتے ہوئے دہشت گردی، مدرسوں کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت، کالعدم تنظیموں ، پی ٹی ایم اور بھارت کی جنگی مہم جوئی سمیت ملکی میڈیا کے فعال، تقابلی اور آزادانہ کردار کے حوالہ سے کہا کہ 1971 ء میں آج کا میڈیا ہوتا ، حالات کو بے نقاب کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاسی ، معاشی اور تزویراتی صورتحال کی گمبھیرتا اس بات کی متقاضی تھی کہ دہشت گردی سے نمٹنے اور بیش بہا قربانیاں دینے کے بعد چیلنجنگ ایشوز پر داخلی و خارجی عناصر کا رد عمل مبہم اورتعجب انگیز نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ریاستی رٹ کے خلاف جن عناصر نے یلغار کی اس سے پیداشدہ perception میں بھی پاکستان کی فرنٹ لائن کردار کے اعتراف میں کشادہ دلی کا شدید فقدان نظر آیا جب کہ فاٹا سمیت ملک کے دیگر شہری علاقوں سے اگرچہ دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکاگیا، دہشت گردی اور انتہاپسندی مخالف کارروائیوں میں بے پناہ نقصانات بھی اٹھائے جب کہ پاکستان کو سیاسی گرداب سے نکلنے میں پھر بھی صبر آزما صورتحال کا سامنا رہا۔
اس سیاق وسباق میں عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس سے فکری جمود ٹوٹا ، تضادات دور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور قومی یکجہتی اوروسیع تر قومی اتفاق رائے کے لیے فوجی ترجمان نے زمینی حقائق کھول کر رکھ دیے، خطے کی تزویراتی مشکلات پر قوم اور میڈیا کو خطرات سے آگاہ کیا جن پر ٹھوس بنیادوں پر ڈائیلاگ کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کو آج بھی ضرورت ہے۔
پریس کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات اور طرزعمل کا جائزہ بھی لیا گیا، میجر جنرل آصف غفور نے متنوع موضوعات پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کو جتنی چھوٹ اور آزادی دینی تھی دیدی، ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ،کوئی آپریشن نہیں ہوگا، پی ٹی ایم لاپتہ افراد کی فہرست ہمیں دے، معلوم کرا لیں گے کون کہاں ہے، انھوں نے کہا پی ٹی ایم جب شروع ہوئی تو میں نے ان کے ساتھ بات چیت کی، ان کے مطالبات سنے، ان کے مطالبے پر علاقے میں سرنگیں صاف کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا جس میں ہمارے 101جوان شہید ہوئے۔
فوجی ترجمان کے مطابق پاکستان میں کسی منظم دہشت گرد تنظیم کا نیٹ ورک موجود نہیں ہے، داعش کو جگہ نہیں بنانے دیں گے، افغان پناہ گزینوں کی واپسی بہت ضروری ہے، مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نصاب میں دین اور اسلام تو ہو گا نفرت انگیز مواد نہیں، انھوں نے کہا کہ بھارت امن کے لیے سنجیدہ ہے تو آئے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے، ہم ہر وہ کام کریں گے جو ملک کی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہو۔
پاکستان پلوامہ حملے میں کسی طور پر ملوث نہیں تھا، لیکن بھارت ان گنت جھوٹ بول رہا ہے، تاہم پاکستان کے اچھے رویے کو دیکھتے ہوئے بھارت نے کچھ اچھا رویہ دکھایا ہے،لہذا بھارت ہمارے صبر کا امتحان نہ لے، ہم اپنے ملک کا دفاع کریں گے، ترجمان کے مطابق میڈیا نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی اور خاص طور پر بھارت سے تین دن کی جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے بہتر میڈیا کا کردار نہیں ہو سکتا۔
فوجی ترجمان نے کہا کہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور ہمیں اس کے لیے جنگ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔ پریس کانفرنس میں جیوپولیٹیکل صورتحال کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بیرونی مداخلت کے باعث حالات خراب ہوئے، ملک میں جہاد کی فضاء قائم ہوئی۔ خطے میں دوسری پراکسیز تھیں، سعودی عرب اور ایران ان کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔
نائن الیون کے بعد خطے میں نئی مفادات کی جنگ شروع ہوئی، 70ممالک کے ساتھ ہم انٹیلی جنس شیئرنگ کرتے ہیں جس کی ہم نے قیمت ادا کی ہے۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں30ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں،اور برملا نشاندہی کی گئی کہ جہاد کی تبلیغ دینے والے مدارس پرامن مدارس کے مقابلہ میں کم ہیں ۔
اب بلاشبہ ضرورت قومی انداز فکر پر مبنی کثیرالمقاصد جمہوری سوچ اور سیاسی رواداری و شراکت داری کی ہے، پی ٹی ایم کو انگیج کرنے ، فاٹا میں تعمیر وترقی اور اقتصادی بحالی کے لیے بلاتاخیر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ ملکی سلامتی کے کاز کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہونی شرط ہے۔ ملک ہے تو سیاست ہوگی۔دہشت گردی اور انتہا پسندی نے بڑا کولیٹرل ڈیمج کیا ہے اب اس نقصان کے لازمی ازالہ کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اس لیے قومی امنگوں کی پاسداری لازم ہے۔