پیلی جیکٹ کو عالمی تحریک بننا چاہیے

کوئی شک نہیں کہ سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ساری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں نظریاتی انتشار کا شکار ہو گئی ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

دنیا کی معلوم تاریخ میں جتنے نظام معیشت متعارف ہوئے ، ان میں طبقاتی استحصال کا پہلو بہت نمایاں رہا۔ نظام خواہ وہ قبائلی رہا ہوں جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ ہر نظام میں طبقاتی استحصال نظام کا لازمی حصہ بنا رہا۔ اس فرق کے ساتھ کے سرمایہ دارانہ نظام استحصال کا ایک ایسا ظالمانہ خودکار نظام ہے کہ کرہ ارض پر جہاں جہاں یہ نظام رائج ہے طبقاتی استحصال ایک منظم اور خودکار نظام کے طور پر رائج ہے ۔امیر آٹومیٹک طریقے سے امیر اور امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب خود کار طریقے سے غریب تر ہوتا جاتا ہے۔

اس استحصالی نظام کے خلاف ہر ملک، ہر قوم میں شدید نفرت موجود رہتی ہے اور اس نفرت کا رخ استحصال کی طرف ہی رہتا ہے لیکن مسئلہ اس حوالے سے یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پاکستان کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے جس میں سے صرف مزدور ساڑھے 6 کروڑ ہیں، کسانوں کی تعداد مزدوروں سے زیادہ ہے۔

یہ دونوں طبقات سرمایہ دارانہ نظام کا وہ حصہ ہیں جن کا استحصال سب سے زیادہ اور منظم کے ساتھ خود کار طریقے سے ہوتا ہے ۔اس نظام کا خاص پہلو یہ ہے کہ استحصالی طبقات کے اندر اتنی تقسیم موجود ہے کہ یہ طبقات اس استحصالی نظام کے خلاف متحد ہوکر اس نظام کے خلاف جدوجہد نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ اس تقسیم میں اس خود کار نظام کا بڑا دخل ہے لیکن خود غریب طبقات کی لڑائی استحصالی طبقات سے زیادہ اپنے طبقات کے خلاف رہتی ہے۔

میں کوئی پچاس سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہوں ، اس عرصے میں صحافت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، بڑے بڑے نامور صحافیوں میں تنگ نظری کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر وقت ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں، اگر کوئی مرد قلندر ان عاقلوں سے کہتا ہے کہ برادران محترم آپ سب کے درمیان جو تضادات ہیں،وہ سب ضمنی حیثیت رکھتے ہیں، آپ کا سب سے بڑا تضاد اس نظام سے ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں ،کیا آپ نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار ہونے والے تو پچاس سو ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن سرمایہ دار طبقہ متحد بھی ہے اور طاقتور بھی ہے جبکہ غریب طبقات سرمایہ دارانہ نظام کے آٹو میزم کا شکار ہو کر اپنی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔


جب بھی میں ادب میں طبقاتی استحصال پر مبنی کہانیاں اور نظمی حوالے سے طبقاتی استحصال کے خلاف ایک اچھا شعر سنتا ہوں تو شاعر کی کوشش کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، یہ پڑھے لکھے طبقے کی کتنی بڑی کمزوری ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ استحصال کے حوالے سے لکھی جانے والی تحریروں کی پذیرائی کرنے کے بجائے اس سے بیزار نظر آتے ہیں حالانکہ ان کا ہر دن طبقاتی استحصال کی نظر ہوتا رہتا ہے، اسے آپ ہماری کمزوری کہیں یا عادت کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز ہمارے کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے، خواہ وہ آواز کمزور ہو یا طاقتور ۔

اس حوالے سے میں بڑا خوش ہوں کہ فرانس میں پیلی جیکٹ کی تحریک کے چلانے والوں نے اپنے ایجنڈے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو شامل کرلیا ہے۔ فرانس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے عوام کا معیار زندگی پسماندہ ملکوں کے عوام کے معیار زندگی سے نسبتاً اونچا ہے لیکن فرانس کے عوام سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں پر آرہے ہیں اور پسماندہ ملکوں میں جن میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش جیسے پسماندہ ملک شامل ہیں طبقاتی نظام کے جبر کے حوالے سے سناٹا طاری ہے ۔

پیلی جیکٹ کے سربراہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے صرف اس نظام کے خلاف رائے عامہ کو بیدار نہیں کیا ہے بلکہ دنیا کے عوام کو یہ ترغیب بھی فراہم کی ہے کہ وہ بھی اس وحشی نظام کے خلاف سڑکوں پر آئیں۔ فرانس کا اس حوالے سے ماضی بڑا تابناک ہے، یہ فرانسیسی عوام ہی تھے جنہوں نے فرانس کی بے لگام اشرافیہ کے خلاف انقلاب فرانس کا کارنامہ انجام دیا اور ناانصافیوں اور طبقاتی مظالم کو روکنے کی کوشش کی۔

سرمایہ دارانہ نظام استحصال ہی کے خاتمے کے لیے مارکس کی نظریاتی رہبری میں کیمونسٹ مینوفیسٹو لایا گیا اور دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بہتر متبادل پیش کیا گیا ۔ آج دنیا اس سرمایہ دارانہ نظام کے پنجے میں جکڑی ہوئی ہے ۔اس نظام کی قہر سامانیوں کا عالم یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں غریب عوام بھوک سے اور لاکھوں عوام بیماریوں سے اور لاکھوں بچے غذا نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہیں وہ المناک حقائق جن کے خلاف پیلی جیکٹ والوں نے علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے اور ساری دنیا کو پیلی جیکٹ والوں کا یہ پیغام ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ساری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں نظریاتی انتشار کا شکار ہو گئی ہیں، اس کی وجہ وہ بے عملی ہے جو نظریاتی انتشار کا نتیجہ ہے، اب پیلی جیکٹ والے فرانسیسی عوام نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ نظریاتی انتشار سے باہر نکل کر اس جمود کو توڑ دیں جو روس کے بکھر جانے سے پیدا ہوا تھا۔ نظریاتی کارکنوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کا ایک بہتر متبادل سوائے سوشلسٹ نظام معیشت کے کوئی نہیں ہے اس نظام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے پیلی جیکٹ والوں کا راستہ اختیارکرنا پڑے گا ۔
Load Next Story