علی سردار جعفری کی صدی

پچھلے ہفتے انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام کراچی میں علی سردار جعفری صدی کے حوالے سے ایک ۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پچھلے ہفتے انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام کراچی میں علی سردار جعفری صدی کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ انجمن ایک عرصے تک جمود کا شکار رہنے کے بعد اب فعال ہورہی ہے۔ علی سردار جعفری صدی کے حوالے سے یہ تقریب اس کی ایک کڑی تھی۔ انجمن کو دوبارہ فعال کرنے میں ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر جمال نقوی، ڈاکٹر مظہر حیدر اور مسلم شمیم کے علاوہ علی اوسط جعفری کی کوششوں کا بھی بڑا دخل تھا۔

ہم طبیعت کی خرابی کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے، معراج محمد خان بھی اپنی سخت بیماری اور کمزوری کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے، تقریب کا ایک حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ اس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ کراچی میں ادب اور فن کے فروغ کے لیے آرٹس کونسل موجود ہے، یہاں فن اور فنکاروں کے فروغ کی تو بھرپور کوشیں ہوتی ہیں لیکن ادبی سرگرمیوں کے لیے وہ سہولتیں حاصل نہیں جو ہونی چاہئیں۔ آرٹس کونسل کے سربراہ احمد شاہ اگرچہ فعال شخص ہیں لیکن ان کی زیادہ تر توجہ آرٹس کونسل کی تعمیر و ترقی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد پر لگی رہتی ہے۔ نئی ادبی کتابوں کی لانچنگ کے لیے مہینوں بلکہ برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آرٹس کونسل کے سینئر ساتھی سحر انصاری بھی علی سردار جعفری صدی کے حوالے سے منعقدہ اس تقریب میں موجود تھے اور موصوف نے تقریب کے صدارتی پینل میں شامل رہنے کے علاوہ تقریب سے خطاب بھی کیا۔

انجمن ترقی پسند مصنفین جب 1936 میں قائم ہوئی تو متحدہ ہندوستان کے جو معروف ادیب اور شاعر انجمن میں شامل ہوئے ان میں علی سردار جعفری بھی شامل تھے۔ ان کا تعلق اس قلم قبیلے سے تھا جو برصغیر کے صدیوں پر محیط ادب برائے ادب کلچر کی جگہ ادب برائے زندگی کے کلچر کو متعارف کرانے کے مشن پر کام کررہا تھا۔ اس تاریخی تحریک میں جو ادیب اور شاعر بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ان میں سجاد ظہیر، کرشن چندر، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، شوکت صدیقی سمیت بے شمار ادیب اور شعراء شامل تھے۔

انجمنکی ہندوستان میں مقبولیت کی دو بڑی وجوہات تھیں، ایک یہ کہ لکھاریوں کا یہ قافلہ عوام میں فکری انقلاب لانے کے مشن میں سنجیدہ، مخلص اور کمیٹڈ تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ پارٹی سے جڑا ہوا تھا۔ انجمن نے اپنے کام کی ابتدا محض تنظیم کی حدود میں قید رہ کر نہیں کی بلکہ اسے ایک تحریک کی شکل دی اور یہ تحریک اس تیزی سے آگے بڑھتی گئی کہ ہندوستان کا کوئی علاقہ اس تحریک سے باہر نہیں رہا۔


1947کی تقسیم کے بعد پاکستان میں جو حکومت برسر اقتدار آئی اسے پاکستان کی بیوروکریسی نے امریکا کی گود میں پہنچادیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کے مجوزہ دورۂ روس کو منسوخ کروا کر انھیں امریکا کے دورے پر بھیج دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام ختم ہورہا تھا اور امریکا اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے نو آزاد پس ماندہ ملکوں کو اپنا باجگزار بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ روس کی سرپرستی میں سوشلسٹ بلاک تیزی سے مقبول ہورہا تھا اور روسی بلاک کا راستہ روکنے کے لیے امریکا نو آزاد ملکوں میں ترقی پسند تحریکوں کو دبانے کے پروگرام پر کاربند تھا۔ پاکستان میں بھی بائیں بازو کی جماعتیں فعال ہورہی تھیں، ادب، ٹریڈ یونین، طلبا، ڈاکٹروں، وکیلوں، کسانوں میں کام ہورہا تھا، انجمن ترقی پسند مصنفین بھی سرگرم تھی، فیض احمد فیض، سبط حسن ، حسن ناصر، سی آر اسلم، مطلبی فرید آبادی، احمد ندیم قاسمی، ابراہیم جلیس، مرزا ابراہیم، سردار شوکت وغیرہ اپنے اپنے محاذوں پر سرگرم تھے اور عوام میں ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا، ان طاقتوں کو مستحکم ہونے سے روکنے کے لیے پنڈی سازش کیس کا سہارا لے کر انجمن ترقی پسند مصنفین سمیت مزدوروں، کسانوں، طلبا، ڈاکٹروں، وکیلوں کی تنظیموں کو ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا۔

ترقی پسند کارکنوں سے جیلیں بھردی گئیں، ایوب خان آیا تو اس نے اور شدت سے بائیں بازو کو کچل دیا، حسن ناصر کو لاہور کے قلعہ میں قتل کردیا گیا۔ پاکستان میں مرکزی تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور رہی سہی کسر روس اور چین کے اختلافات نے پوری کردی۔ بائیں بازو ٹکڑوں میں بٹ کر بکھرگیا۔ جو پودا 1936 میں سجاد ظہیر کی قیادت میں لگایا گیا تھا وہ ریاستی جبر اور بائیں بازو کی موقع پرستی کی وجہ سے فروغ نہ پاسکا، روس کی شکست و ریخت نے رہی سہی کسر نکال دی۔ پاکستان میں تو بایاں بازو ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندیوں کا شکار ہوکر مفلوج ہوگیا، ہندوستان میں بھی اپنی غلط پالیسیوں اور بنگال میں حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے بایاں بازو اپنی طاقت کھوچکا ہے۔

اس مایوس کن صورتحال میں پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا احیا اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن ذاتی اور گروہی اختلافات نے انجمن سمیت بائیں بازو کی تمام تنظیموں کو بے عملی کا شکار کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی گروہ بندی کی وجہ سے بایاں بازو اپنی طاقت کھوچکا ہے۔ سیاسی دھڑے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام حکومتی نااہلیوں، اربوں کھربوں کی کرپشن، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ سے سخت پریشان کسی ایسی قیادت کی راہ دیکھ رہے ہیں جو انھیں ان عذابوں سے نجات دلاسکے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیوں اور بڑھتے ہوئے طبقاتی مظالم نے پاکستان سمیت ساری دنیا کے عوام کو بے چین کر رکھا ہے، پاکستان میں جو سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے اسے دہشت گرد تنظیمیں پر کرنے کی کوشش کررہی ہیں، لیکن یہ قوتیں مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ اس لیے ناکام ہورہی ہیں کہ ان کے پاس سوائے ایک مبہم نعرے کے عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں اور اس مبہم نعرے کو بھی دہشت گردی کے ذریعے عوام پر مسلط کرنے کی احمقانہ کوششوں کی وجہ سے عوام ان سے نفرت کررہے ہیں۔

علی سردار جعفری نے اپنی پوری زندگی عوامی حقوق کی جنگ لڑتے گزار دی۔ 1913 میں پیدا ہونے والے سردار نے اپنی ایک صدی مکمل کرلی ہے۔ علی سردار جعفری اگرچہ ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا مشن ہمارے سامنے ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین مختلف پروگراموں کے ذریعے اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن جب تک انجمن تحریک کی شکل اختیار نہیں کرے گی اور بایاں بازو دھڑے بندیوں، ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک جامع منصوبہ کے ساتھ فعال نہیں ہوگا نہ وہ اپنے وجود کو منوا سکے گا، نہ اس خلا کو پر کرسکے گا جو اس وقت پاکستان میں پیدا ہوگیا ہے۔
Load Next Story