انسان اور اس کا جانور

عبدالقادر حسن  اتوار 19 مئ 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قوم سیاست کی الجھنوں میں پھنس چکی ہے اور سیاست کا پھندا دن بدن پھیلتا اور عوام کو اپنی گرفت میں قابو کرتا جا رہا ہے لیکن یہ سلسلہ مدتوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ نہ عوام سیاست سے توبہ تائب ہونگے اور نہ ہی سیاست اپنا پھندا ڈھیلا کریگی، دونوں میں یہ مقابلہ جو ازل سے جاری ہے جاری رہے گا۔ یہاں کے لوگوں کو انھی حالات میں زندگی بسر کرنی ہے اور سیاست کی ستم رانیوں کو بھگتنا ہے۔ حالات نے دونوں کی زندگی کی تقدیر میں یہی لکھ دیا ہے۔

گائوں میں آج کل گندم کی فصل کی برداشت کا موسم ہے۔ کاشتکار انتہائی مصروف ہیں، گندم کی برداشت کے اس موسم میں بارش کاشتکاروں کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے اور ستم یہ ہے کہ وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔گندم کی فصل جوکھیتوں میں پڑی ہے خر اب ہو رہی ہے۔ گیلی گندم تھریشر سے نہیںنکالی جا سکتی۔کسان سال بھر کی روزی خراب ہونے کے اندیشے سے پریشان ہیں اور اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں کہ بارشیں رک جائیں اور وہ گندم کی فصل کو سمیٹ لیں۔ جن کاشتکاروں کو مزدوروں کی مدد مل گئی، انھوں نے اپنی فصل پکتے ہی کاٹ کر سنبھال لی۔ میں اپنے ڈیرے پر بیٹھے گندم کی بوریوں سے لدے اونٹوں کو دیکھ رہا ہوں جو کاشتکار کی فصل کھیت سے گھر پہنچانے جا رہے ہیں۔

آج کل کے جدید زمانے میں ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے بھی یہ کام ہو رہا ہے لیکن میرے پہاڑی علاقے میں جہاں ٹریکٹر ٹرالی کے ساتھ نہیں پہنچ سکتا وہاں سے بار برداری کا کام اونٹ ہی انجام دے رہے ہیں۔ میں نے بچپن میں اکثر دیکھا کہ گندم اور جلانے والی لکڑی سے لدے ہوئے اونٹ گھر کے صحن میں دوزانو ہوتے۔

گھر میں داخلے کے دروازے اتنے اونچے اور کھلے ہوتے تھے کہ بوجھ سے لدا ہوا اونٹ سڑک سے اندر صحن میں داخل ہوتا اور گھر کا دروازہ اتنا فراخ بنایا گیا کہ لدا ہو اونٹ اس کے کھلے کیواڑوں سے گھر میں داخل ہوتا اور پھر برآمدہ بھی ایسا فراخ اور کھلا بنایا گیا کہ لداہوا اونٹ صحن کے اندر برآمدے میں داخل ہو کر بیٹھ جاتا، جہاں اس کو بوجھ سے ہلکا کیا جاتا اور جب اس کی کمر سے یہ بوجھ اترتا تو اونٹ کی ایک خاص آواز سنائی دیتی جس میں سکون اور اونٹ کے ڈھیلے ہونے والے بدن کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی اور اونٹ کے سکون کی وہ بھاری بھر کم آواز بھی سنائی دیتی جو مجھے زندگی بھر یاد رہے گی۔

جب اونٹ پر سے بوجھ اتر جاتا اور بوجھ سے آزاد اس کا بدن پھیل جاتا تو وہ چند لمحے پہلے کسے ہوئے بدن والا اونٹ پہچانا نہیں جاتا۔ وہ ایک خاص انداز میں سر کو گھماتا اور اپنے سامنے پڑے ہوئے تازہ چارے میں بے چینی سے منہ مارنے لگتا۔ بوجھ سے آزاد وہ کسی نئی دنیا کا باشندہ دکھائی دیتا۔ سبز چارے اور بوجھ سے آزادی اسے نئی راحت سے روشناس کراتی، وہ بوجھ اتارنے والے مالکوں کو احسان مندی کی خاص نظروں سے دیکھتا اور ان پر سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا جو پے درپے بوجھ سے پیدا ہوتا رہتا تھا۔ بوجھ سے آزاد وہ اونٹ ایک کمزور جانور دکھائی دیتا اور اس کے جسم اور گرد ن کی حرکتیں بدل جاتیں۔

بوجھ لادنے اور اٹھانے والے دونوں کے درمیان بے زبانی کا جو سلسلہ جاری رہتا، اسے وہ کاشتکار خوب سمجھتے ہیں جن کا ان جانوروں سے دن رات کا واسطہ رہتا۔ وہ ان کے جسم ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ کر لیتے تھے کہ اب ہمارے دوست کو چارہ چاہیئے یا تھوڑی دیر کا آرام۔ چاروناچار انسان کی خدمت میں جتا ہوا جانور اپنے مالک کو خوب پہچانتا ہے اور جب اس کی بوجھ اٹھانے کی خواہش نہیں رہتی تو وہ اسے ایک خاص انداز میں اپنی مخصوص آواز سے ظاہر کرتا ہے۔

اس کا مالک اس آواز کو خوب سمجھتا ہے لیکن اسے اس جانور سے کام لینا ہوتا ہے اس کی بولیوں سے لطف اندوز ہونا نہیں ہوتا اور اس کی جو زبان بھی ہوتی ہے وہ مالک کو قابل قبول ہوتی ہے جو اس جانور کی مرضی کے خلاف بھی اس پر بوجھ ڈالنے سے باز نہیں آتا اور ہر صورت میں اپنا مطلب نکالتا ہے، رحم نہیں کھاتا۔ بوجھ اٹھانے والے جانور اور اس کے مالک انسان کے درمیان یہ کشمکش پیدائشی سمجھتے ہیں۔ میں جو ایک گائوں کا رہنے والا ہوں اور اس وقت میں یہ سطریں لکھتے ہوئے جانوروں کی بولیوں کو یاد کر رہا ہوں اور یوں میں ان بے زبان جانوروں کے ذریعے اپنے گائوں کی کسی گلی سے گزر رہا ہوں۔

دیہات کی بات کریں تو گائوں میں زندگی ان جانوروں کی بولیوں اور ان کی بامعنی حرکات میں گزرتی ہے۔ وہ اپنی بھوک پیاس اور آرام کی خواہش ظہار کرنے میں انسانوں کی طرح کسی تکلف کو گوارا نہیں کرتے۔ کھل کر ’بات‘ کرتے ہیں اور غصے میں ہوں تو کلہ توڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ جانوروںکی ایک اپنی دنیا ہے جس میں انسان بھی بروقت مداخلت کرتا ہے اور باز نہیں آتا۔ یاد آیا کہ اونٹ کو ’’کینہ پرور‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ’کینے‘ اور ’غصے‘ کو بھولتا نہیں ہے۔ اونٹ کی بدلہ لینے کی کئی مثالیں ہیں مثلاً اونٹ نے اپنے فلاںمالک کو گردن سے پکڑ کر اچھالا اور گردن ٹوٹ گئی۔ ’’شترکینہ‘‘ اسے ہی کہتے ہیں اور اونٹ کے بدلہ لینے کی داستانیں مشہور ہیں وہ کسی انسان کو معاف نہیں کرتا۔

قدرت نے ہر جانور کو اس کے تحفظ کا ہنر بھی سکھایا ہے اور ضرورت پڑنے پر ہر جانور اس ہنر سے کام لیتا ہے اور اپنی زندگی بچا لیتا ہے۔ جو لوگ ان جانوروں سے دن رات کا رابطہ رکھتے ہیں وہ ان کی زد میں رہنے کے باوجودان سے اپنی جان بچا لیتے ہیں۔ اونٹ جیسے دیو ہیکل جانور کو مارنا پیٹنا تو بظاہر آسان ہے کہ اس کے اِدھر اُدھر ہر طرف پھیلے ہوئے وجود کو بڑی آسانی کے ساتھ نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اونٹ جو انسان کی اس جرات پر د ل میں ہنستا ضرور ہو گا لیکن موقع پا کر وہ اس ناپسندیدہ انسان سے اپنا بدلہ ضرور لیتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی جانور نے خصوصاً اونٹ نے کسی ناپسندیدہ انسان کا سر ہی اپنے منہ میں دبوچ لیا اور ایک دو جھٹکوں میں ان کی جان لے لی جس سے اس کا انتقامی جذبہ تسکین پا گیا۔

مشہور ہے کہ اونٹ اپنا انتقام بھولتا نہیں ہے اسی لیے اس کا ’شتر کینہ‘ مشہور ہے۔ دانشمند دیہاتی اونٹ سے بیر نہیں رکھتے کہ دن رات کے مل جل کر رہنے والے یہ دونوں دشمنی کوبرداشت نہیں کر پاتے اور انتقام لیے بغیر معاف نہیں کرتے۔ اونٹ کے اس شتر کینہ کو کوئی کسان بھولتا نہیں ہے اس کی یہ خواہش رہتی ہے کہ اس کا یہ مفید جانور اس سے راضی ہی رہے اور اس کے کام کرتا رہے جو ایک کاشتکار کے لیے ضروری ہوتے ہیں چنانچہ انسان اور اونٹ کی زندگیاں مل جل کر گزرتی ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ پر خوش رہتے ہیں۔ تو یہ ہے ایک دیہاتی کی زندگی جو جانوروں کے ساتھ خوش رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔