شعبہ طب کی حالت زار
ہمارا ملک غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں امتیازات اور فراڈ کا راج ہے۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
دنیا میں جب سیاستدان برسر اقتدار آتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیح عوام کے مسائل کا حل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے وہ سب سے پہلے عوام کے مسائل کی ایک ترجیحی لسٹ بناتے ہیں اور اس کے مطابق عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کے حکمران طبقات کی ترجیح صرف اور صرف ملکی دولت کی لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اور عوامی مسائل جائیں بھاڑ میں، یہی ان کی ترجیح ہوتی ہے۔
میڈیا حکمرانوں کو عوام کے انتہائی اہم مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اشرافیہ عوامی مسائل سے مکمل طور پر لاعلم رہتی ہے اور اس بے شرم اشرافیہ کی عوامی مسائل سے لاعلمی کی وجہ سے مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں لیکن اشرافیہ کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
ہمارے عوام عشروں سے طبی سہولتوں سے محروم ہیں طبی سہولتوں کی کمی اور طبی عملے کی بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار لوگ جان سے چلے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں طبی عملے کی غفلت اور لاپرواہی سے کئی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان حادثات کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں اور اخبارات ردی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مجرمانہ لاپرواہی کا کوئی نوٹس لینے والا ہے؟ اس حوالے سے اخبارات میں آنے والی خبریں اشرافیہ کی بے حسی کی نذر ہوکر ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں۔
آج ہم کو اس خصوص میں کالم لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ 19 مئی کے اخبارات میں یہ دل خراش خبر نظر آئی جس کے مطابق ہمارے ملک میں تین لاکھ 80 ہزار ڈاکٹرز اور 14 لاکھ نرسزکا شارٹ فال ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ ڈاکٹرز ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد ڈینٹسٹ اور 14 لاکھ سے زیادہ نرسزکی کمی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق کسی بھی ملک میں ایک ہزار افراد کے لیے 2 ڈاکٹرز، ایک ڈینٹسٹ اور 8 نرسز کا ہونا ضروری ہے، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار کی آبادی کے لیے مشکل سے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں دستیاب ہیں۔
عالمی معیار کے مطابق پاکستان کی 21 کروڑ کی آبادی کے لیے مجموعی طور پر 4 لاکھ سے زیادہ ڈاکٹرز 2 لاکھ سے زیادہ ڈینٹسٹ اور 16 لاکھ نرسز کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار اور ڈینٹسٹ کی تعداد صرف 23 ہزار اور نرسز کی اور مڈ وائف کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار ہے۔ پاکستان میں اس اہم ترین پیشے سے منسلک افراد میں سے اس کم تعداد میں سے بھی بہتر معاش کی تلاش میں ہزاروں ہنرمند ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرسز بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد اور پنجاب میں رجسٹرڈ ڈاکٹر کی تعداد 78 ہزار جب کہ ڈینٹسٹ کی تعداد 7 ہزار ہے اسی تناسب سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی کوالیفائیڈ ڈاکٹرز وغیرہ کا شارٹ فال ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے 71 سال ہو رہے ہیں کیا اس شعبے میں کبھی ضرورت کے مطابق ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرسز دستیاب رہے ہیں؟ یہ ایک قومی جرم ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد روزانہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا جواب ہے اشرافیہ جس نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں ۔اس ضروری شعبے میں شارٹ فال آج کی بات نہیں بلکہ عشروں سے یہی حال ہے۔ اشرافیہ کے کسی فرد کو چھینک بھی آجائے تو وہ لندن کے کسی مہنگے اسپتال میں پہنچ جاتا ہے حکمران طبقہ علاج کے نام پر کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے وصول کرتا ہے۔
ملک میں پرائیویٹ اسپتالوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جہاں دولتمند طبقات لاکھوں روپے علاج پر خرچ کردیتے ہیں غریب طبقات اور امیر طبقات کے درمیان اتنا بڑا فرق علاقے کے پسماندہ ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کے ہر شعبے پر اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں غریب طبقات کے لیے سرکاری اسپتال بنائے گئے ہیں جہاں بیماروں کا علاج ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے سب سے پہلا مسئلہ سرکاری اسپتالوںمیں بھیڑکا ہے۔ مریضوں کے مقابلے میں سرکاری اسپتال اس قدر کم ہیں کہ آبادی کا تین چوتھائی حصہ وقت کے زیاں کے خوف سے سرکاری اسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرتا جو لوگ مجبوراً سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ان کا علاج تسلیوں سے کیا جاتا ہے۔
ہمارا ملک غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں امتیازات اور فراڈ کا راج ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور بنیادی اصلاحات اور تبدیلیوں کی کوشش کر رہی ہے لیکن اشرافیائی اپوزیشن اسے کام کرنے نہیں دے رہی ہے کھل کر کہا جا رہا ہے کہ ہم ہر حال میں عمران حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ موجودہ حکومت ایک منتخب حکومت ہے اور آئین کے مطابق اسے پانچ سال حکومت کرنے کا اختیار ہے لیکن ابھی حکومت کو برسر اقتدار آئے 9 ماہ ہی ہو رہے ہیں کہ حکومت گرانے کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کوئی طاقت اس دھاندلی کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔
حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں آئینی ادارے موجود ہیں جہاں جید لوگ موجود ہیں کیا ایک 9 ماہ کی حکومت کو گرانے کی کھلے عام بات کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہیں؟ عدالت ہر ملک میں سب سے زیادہ طاقتور ادارہ ہوتی ہے محترم عدالت اربوں روپوں کی کرپشن کے بے شمار کیسوں کی سماعت کر رہی ہے۔ جن کرپشن سے سجائی ہوئی پیشانیوں والے اس زور بلکہ دھونس دھڑلے سے ایک جائز حکومت کو گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں کیا یہ دھمکیاں قانون اور آئین کے مطابق ہیں؟
میڈیا حکمرانوں کو عوام کے انتہائی اہم مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اشرافیہ عوامی مسائل سے مکمل طور پر لاعلم رہتی ہے اور اس بے شرم اشرافیہ کی عوامی مسائل سے لاعلمی کی وجہ سے مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں لیکن اشرافیہ کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
ہمارے عوام عشروں سے طبی سہولتوں سے محروم ہیں طبی سہولتوں کی کمی اور طبی عملے کی بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار لوگ جان سے چلے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں طبی عملے کی غفلت اور لاپرواہی سے کئی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان حادثات کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں اور اخبارات ردی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مجرمانہ لاپرواہی کا کوئی نوٹس لینے والا ہے؟ اس حوالے سے اخبارات میں آنے والی خبریں اشرافیہ کی بے حسی کی نذر ہوکر ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں۔
آج ہم کو اس خصوص میں کالم لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ 19 مئی کے اخبارات میں یہ دل خراش خبر نظر آئی جس کے مطابق ہمارے ملک میں تین لاکھ 80 ہزار ڈاکٹرز اور 14 لاکھ نرسزکا شارٹ فال ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ ڈاکٹرز ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد ڈینٹسٹ اور 14 لاکھ سے زیادہ نرسزکی کمی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق کسی بھی ملک میں ایک ہزار افراد کے لیے 2 ڈاکٹرز، ایک ڈینٹسٹ اور 8 نرسز کا ہونا ضروری ہے، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار کی آبادی کے لیے مشکل سے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں دستیاب ہیں۔
عالمی معیار کے مطابق پاکستان کی 21 کروڑ کی آبادی کے لیے مجموعی طور پر 4 لاکھ سے زیادہ ڈاکٹرز 2 لاکھ سے زیادہ ڈینٹسٹ اور 16 لاکھ نرسز کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار اور ڈینٹسٹ کی تعداد صرف 23 ہزار اور نرسز کی اور مڈ وائف کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار ہے۔ پاکستان میں اس اہم ترین پیشے سے منسلک افراد میں سے اس کم تعداد میں سے بھی بہتر معاش کی تلاش میں ہزاروں ہنرمند ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرسز بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد اور پنجاب میں رجسٹرڈ ڈاکٹر کی تعداد 78 ہزار جب کہ ڈینٹسٹ کی تعداد 7 ہزار ہے اسی تناسب سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی کوالیفائیڈ ڈاکٹرز وغیرہ کا شارٹ فال ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے 71 سال ہو رہے ہیں کیا اس شعبے میں کبھی ضرورت کے مطابق ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرسز دستیاب رہے ہیں؟ یہ ایک قومی جرم ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد روزانہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا جواب ہے اشرافیہ جس نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں ۔اس ضروری شعبے میں شارٹ فال آج کی بات نہیں بلکہ عشروں سے یہی حال ہے۔ اشرافیہ کے کسی فرد کو چھینک بھی آجائے تو وہ لندن کے کسی مہنگے اسپتال میں پہنچ جاتا ہے حکمران طبقہ علاج کے نام پر کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے وصول کرتا ہے۔
ملک میں پرائیویٹ اسپتالوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جہاں دولتمند طبقات لاکھوں روپے علاج پر خرچ کردیتے ہیں غریب طبقات اور امیر طبقات کے درمیان اتنا بڑا فرق علاقے کے پسماندہ ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کے ہر شعبے پر اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں غریب طبقات کے لیے سرکاری اسپتال بنائے گئے ہیں جہاں بیماروں کا علاج ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے سب سے پہلا مسئلہ سرکاری اسپتالوںمیں بھیڑکا ہے۔ مریضوں کے مقابلے میں سرکاری اسپتال اس قدر کم ہیں کہ آبادی کا تین چوتھائی حصہ وقت کے زیاں کے خوف سے سرکاری اسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرتا جو لوگ مجبوراً سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ان کا علاج تسلیوں سے کیا جاتا ہے۔
ہمارا ملک غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں امتیازات اور فراڈ کا راج ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور بنیادی اصلاحات اور تبدیلیوں کی کوشش کر رہی ہے لیکن اشرافیائی اپوزیشن اسے کام کرنے نہیں دے رہی ہے کھل کر کہا جا رہا ہے کہ ہم ہر حال میں عمران حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ موجودہ حکومت ایک منتخب حکومت ہے اور آئین کے مطابق اسے پانچ سال حکومت کرنے کا اختیار ہے لیکن ابھی حکومت کو برسر اقتدار آئے 9 ماہ ہی ہو رہے ہیں کہ حکومت گرانے کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کوئی طاقت اس دھاندلی کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔
حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں آئینی ادارے موجود ہیں جہاں جید لوگ موجود ہیں کیا ایک 9 ماہ کی حکومت کو گرانے کی کھلے عام بات کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہیں؟ عدالت ہر ملک میں سب سے زیادہ طاقتور ادارہ ہوتی ہے محترم عدالت اربوں روپوں کی کرپشن کے بے شمار کیسوں کی سماعت کر رہی ہے۔ جن کرپشن سے سجائی ہوئی پیشانیوں والے اس زور بلکہ دھونس دھڑلے سے ایک جائز حکومت کو گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں کیا یہ دھمکیاں قانون اور آئین کے مطابق ہیں؟