امریکا کے مزید فوجی مشرق وسطیٰ روانہ
مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں مجموعی طور پر امریکا کی 70 ہزار فوج موجود ہے
مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں مجموعی طور پر امریکا کی 70 ہزار فوج موجود ہے۔ فوٹو: فائل
KARACHI:
امریکا نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ممکنہ ایرانی خطرے کے پیش نظر 1500 اضافی فوجی دستے روانہ کر رہا ہے جب کہ ایران کی طرف سے اس امریکی اقدام کو بین الاقوامی امن کے لیے خطرے سے منسوب کیا گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہمارے خطے میں امریکی موجودگی میں اضافہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''ارنا'' کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا امریکا اس سے قبل مئی کے اوائل میں اس علاقے میں اپنا طیارہ بردار جنگی جہاز اور بی 52 بمبار طیارے بھی بھیج چکا ہے اور اس کا جواز یوں پیش کیا گیا کہ یہ اقدامات ایران کے حملے کے توڑ کے لیے کیے گئے تاکہ امریکی اثاثوں کو بچایا جا سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے کہا ہم مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں لہٰذا یہ تمام تیاریاں اس مقصد کے پیش نظر کی جا رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات جاپان کے دورے پر روانگی کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں کہیں۔ ان کا کہنا تھا مشرق وسطیٰ بھیجے جانے والے فوجیوں کی تعداد بہت کم ہے جن کا مقصد محض ہمارا تحفظ ہے۔فوجیوںکے علاوہ جاسوس طیارے، فائٹر جیٹ اور انجینئر بھی بھیجے گئے ہیں۔ چھ سو اہلکار پیٹریاٹ مشن سے لیے گئے۔ اس طرح اس علاقے میں تعیناتی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ وہاں ہمارے خلاف بہت خطرناک اقدامات بروئے عمل لائے جا رہے ہیں۔
امریکی ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں سعودی ٹینکروں پر جو حملہ کرایا گیا تھا وہ بھی امریکی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے تھا۔ یہ حملہ سعودی عرب کی تنصیبات پر ہوا تھا جس پر ایران نے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق تھا۔ ایران کا کہنا تھا کہ امریکا اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے اس قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے جو اس کا پرانا وتیرہ ہے۔ پینٹاگان کے جوائنٹ اسٹاف کے ڈائریکٹر ریئر ایڈمرل مائیکل گلڈے نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر خطرہ مئی کے اوائل میں محسوس ہوا جب امریکا کے خلاف کروز میزائل کے استعمال کا احتمال تھا ۔
واضح رہے مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں مجموعی طور پر امریکا کی 70 ہزار فوج موجود ہے، امریکا مشرق وسطیٰ میں جس طرح اپنی فوجی اور حربی قوت میں اضافہ کررہا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا کے عزائم اچھے نہیں ہیں۔ امریکا جارحیت سے پہلے ماحول بنا رہا ہے اور تسلسل یہ پراپیگنڈا کررہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ عرب میں موجود اس کے اثاثوں اور مفادات کو خطرہ ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ایسے حالات میں بڑی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ امریکا کی ان جنگی تیاریوں کا نوٹس لے اور اسے کسی بھی ممکنہ جارحیت سے روکنے کی کوشش کریں ، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ غیرملکی طاقتوں کو جارحیت کا موقع مل جائے۔
امریکا نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ممکنہ ایرانی خطرے کے پیش نظر 1500 اضافی فوجی دستے روانہ کر رہا ہے جب کہ ایران کی طرف سے اس امریکی اقدام کو بین الاقوامی امن کے لیے خطرے سے منسوب کیا گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہمارے خطے میں امریکی موجودگی میں اضافہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''ارنا'' کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا امریکا اس سے قبل مئی کے اوائل میں اس علاقے میں اپنا طیارہ بردار جنگی جہاز اور بی 52 بمبار طیارے بھی بھیج چکا ہے اور اس کا جواز یوں پیش کیا گیا کہ یہ اقدامات ایران کے حملے کے توڑ کے لیے کیے گئے تاکہ امریکی اثاثوں کو بچایا جا سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے کہا ہم مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں لہٰذا یہ تمام تیاریاں اس مقصد کے پیش نظر کی جا رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات جاپان کے دورے پر روانگی کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں کہیں۔ ان کا کہنا تھا مشرق وسطیٰ بھیجے جانے والے فوجیوں کی تعداد بہت کم ہے جن کا مقصد محض ہمارا تحفظ ہے۔فوجیوںکے علاوہ جاسوس طیارے، فائٹر جیٹ اور انجینئر بھی بھیجے گئے ہیں۔ چھ سو اہلکار پیٹریاٹ مشن سے لیے گئے۔ اس طرح اس علاقے میں تعیناتی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ وہاں ہمارے خلاف بہت خطرناک اقدامات بروئے عمل لائے جا رہے ہیں۔
امریکی ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں سعودی ٹینکروں پر جو حملہ کرایا گیا تھا وہ بھی امریکی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے تھا۔ یہ حملہ سعودی عرب کی تنصیبات پر ہوا تھا جس پر ایران نے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق تھا۔ ایران کا کہنا تھا کہ امریکا اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے اس قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے جو اس کا پرانا وتیرہ ہے۔ پینٹاگان کے جوائنٹ اسٹاف کے ڈائریکٹر ریئر ایڈمرل مائیکل گلڈے نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر خطرہ مئی کے اوائل میں محسوس ہوا جب امریکا کے خلاف کروز میزائل کے استعمال کا احتمال تھا ۔
واضح رہے مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں مجموعی طور پر امریکا کی 70 ہزار فوج موجود ہے، امریکا مشرق وسطیٰ میں جس طرح اپنی فوجی اور حربی قوت میں اضافہ کررہا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا کے عزائم اچھے نہیں ہیں۔ امریکا جارحیت سے پہلے ماحول بنا رہا ہے اور تسلسل یہ پراپیگنڈا کررہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ عرب میں موجود اس کے اثاثوں اور مفادات کو خطرہ ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ایسے حالات میں بڑی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ امریکا کی ان جنگی تیاریوں کا نوٹس لے اور اسے کسی بھی ممکنہ جارحیت سے روکنے کی کوشش کریں ، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ غیرملکی طاقتوں کو جارحیت کا موقع مل جائے۔